اسلامی ریاست کا تشخص اور جنرل ضیاء الحق

تحریر : ایم فاروق قمر
یہ منظر ہے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کا، سال 1980ء ہے اور یکم اکتوبر کی رات 8بجے کا وقت ہے۔ جب پوری دنیا نے قدرے حیرانگی اور مسلم اُمہ نے خوشگوار حیرت اور خوشی کے ساتھ آیات ربانی کی تلاوت کے وجد آفریں الفاظ جنرل اسمبلی کے ہال میں گونجتے سنے۔ جنرل اسمبلی میں تلاوتِ کلام مجید کا یہ منفرد اور پہلا واقعہ اس وقت دیکھنے اور سننے میں آیا جب پاکستان کے اس وقت کے جنرل محمد ضیاء الحق ( شہید) نے جنرل اسمبلی میں اپنے خطاب سے پہلے تلاوت قرآن مجید کا اہتمام کرایا۔ پھر خود درود شریف پڑھا اور جنرل اسمبلی سے خطاب میں آغاز بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھ کر کیا۔
اسلامی ملکوں کے سفیروں نے صدر پاکستان کے خطاب کو ادب، تاریخ اور ڈپلومیسی کا شاہکار قرار دیتے ہوئے عالم اسلام کا موقف بہترین انداز میں پیش کرنے پر انھیں مبارکباد دی ہے۔ ضیاء الحق اسلام سے بہت گہری وابستگی رکھتے تھے، بحیثیت مسلمان وہ ایک عام سادہ مسلمان کی زندگی گزارتے تھے۔ ان کے مزاج میں سادگی، انکساری اور قناعت پسندی کا عنصر بہت نمایاں تھا۔ وہ خوبیاں جو ایک سچے اور کھرے مسلمان میں ہونی چاہئیں، ان میں بدرجہ اتم موجود تھیں ۔ یہی وجہ تھی کہ پاکستان کے عوام نے انھیں ہمیشہ عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھا۔ پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ اور اسلامی معاشرے کے قیام کے لیے انہوں نے لازوال جدوجہد کی۔ ان کی شدید خواہش تھی کہ پاکستان میں اسلامی نظام نافذ ہو اور اس کے لیے انہوں نے بتدریج اقدامات بھی کیے۔ ان کا پختہ یقین تھا کہ اگر پاکستان میں اسلامی نظام نافذ ہو جائے تو یہ بندوں کا اپنے رب سے کیا ہوا عہد اور وعدہ وفا کرنے کے مترادف ہوگا۔ اس کے لیے انہوں نے اپنے دورِ حکومت میں بے شمار کوششیں بھی کیں۔ ملک میں سیاسی توازن کو برقرار رکھتے ہوئے ایسے مشکل فیصلے کرنا، ضیاء الحق شہید جیسے صاحب ایمان اور مرد حق کا ہی طرہ امتیاز تھا۔ پاکستان میں آئین اور قوانین کو اسلامی سانچے میں ڈھالنا اور معاشرے کو اسلامی طرزِ معاشرت کے لیے تیار کرنا ایک کارِ دشوار تھا۔ جس کے لیے جنرل محمد ضیاء الحق نے بالخصوص صدقِ دل سے کوشش کی۔ شاید ان کی زندگی کو لاحق خطرات اور بعدازاں ان کی شہادت کے پس پردہ کار فرما عوامل میں یہ وجہ سب سے زیادہ اہم رہی ہو
کہ دشمنانِ اسلام کو پاکستان میں اسلامی نظام کا نفاذ کبھی بھی ایک آنکھ نہیں بھایا اور وہ ایسی کوششوں کو ہمیشہ سبوتاژ کرتے آئے ہیں جناب ضیاء الحق شہید کی دلی خواہش تھی کہ پاکستان میں بسنے والے مسلمان اپنی زندگیاں اسلام کے اصولوں اور سنہری اسلامی تعلیمات کے سانچے میں اس طرح ڈھال لیں کہ یہاں ایک ایسا صاف ستھرا اسلامی معاشرہ تشکیل پا جائے کہ جہاں زندگی کے ہر شعبے میں رہنمائی کے لیے قرآن و سنت سے رجوع کیا جائے۔ انہوں نے 1977ء میں عنان اقتدار سنبھالتے ہی یہ اعلان کیا تھا کہ ان کی اولین ترجیح ملک میں اسلامی نظام کا نفاذ ہے۔ بنیادی طور پر دیندار، سچے اور سادگی پسند انسان تھے اور پاکستان میں اسلامی معاشرت کے قیام اور نفاذِ اسلام کے لیے انتہائی سنجیدہ اور پرعزم تھے۔ اس سلسلے میں انہوں نے اہم اقدامات کیے۔ یہ بات روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ پاکستان لا الٰہ الا اللہ کی بنیاد پر اور اسلام کے نام پر قائم ہوا۔ متحدہ ہندوستان میں بسنے والے مسلمانوں نے قائداعظمؒ کی قیادت میں ایک ایسی اسلامی ریاست کا خواب دیکھا تھا کہ جس میں مسلمان اپنی زندگیاں اسلامی تعلیمات کے سانچے میں ڈھال سکیں۔ جہاں ایک مکمل اسلامی معاشرہ قائم ہو اور جہاں زندگی کے ہر شعبے میں قرآن و سنت کی بالادستی ہو۔ 1973ء کے متفقہ طور پر منظور کیے گئے دستور کے مطالعے سے بھی یہ بات واضح طور پر ثابت ہو جاتی ہے کہ پاکستان کوئی لادینی ریاست کا نام نہیں بلکہ اس کی بنیادوں میں اسلامی نظریہ حیات کی آبیاری کے لیے دیا گیا لہو موجود ہے۔ یہ درست ہے کہ جنرل محمد ضیاء الحق ( شہید) کے دورِ اقتدار میں پوری دیانت داری سے اسلامی نظام کے نفاذ کی طرف پیش رفت کی لیکن حقیقتاً یہ عمل سست روی کا شکار رہا۔ ہو سکتا ہے کہ اس
کی وجہ منصوبہ بندی کی کمی یا ترجیحات کی سمت کی درستی کا فقدان ہو، لیکن ان کے دور اقتدار کے گیارہ برس میں جس قدر کوششیں کی گئیں نہ تو وہ ان کے اقتدار سنبھالنے سے پہلے کے تیس سالوں میں کبھی کی گئیں اور نہ ہی 1988ء میں ان کی شہادت کے بعد سے آج تک اسی خلوص، صدقِ دل اور نیک نیتی سے آنے والے حکمرانوں نے کبھی کیں۔ پاکستان کے اسلامی تشخص کے لیے ان کی چند چیدہ چیدہ ترجیحات کا ذکر مناسب ہوگا۔
جنرل محمد ضیاء الحق نے اقتدار سنبھالتے ہی اسلامی نظریاتی کونسل کی تشکیل نو کی۔ اس اسلامی نظریاتی کونسل میں اعلیٰ عدالتوں کے جج صاحبان کو مختلف مکاتبِ فکر کے علما کرام اور نمائندوں کے ساتھ ساتھ ایک خاتون رکن کو بھی نمائندگی دی گئی۔ زکوٰۃ دین اسلام کا ایک بنیادی رُکن ہے۔ دین اسلام کی عمارت جن ستونوں پر استوار ہے، زکوٰ ۃ اس کا دوسرا ستون ہے۔ کسی بھی اسلامی ریاست کے حکمرانوں کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ امراء سے زکوٰ ۃ وصول کریں اور اسے غربا اور مستحق لوگوں میں تقسیم کریں۔ زکوٰ ۃ کی تحصیل اور تقسیم کے لیے آزاد زکوٰۃ کونسل کا قیام عمل میں آیا۔ اس نظام میں جہاں تک ممکن ہو سکا، بہتری کی کوشش کی گئی، اب بھی اس نظام میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔ بہرحال یہ جنرل محمد ضیاء الحق صاحب کی اسلامی نظام کی طرف پیش رفت میں اہم سنگ میل تھا۔ جنرل محمد ضیاء الحق کے دورِ حکومت میں بے حیائی اور بے راہ روی کو لگام ڈالنے کی بھرپور کوشش کی گئی۔ ان پر بے جا تنقید بھی ہوتی رہی اور انھیں قدامت پسند بھی کہا جاتا رہا۔ سرکاری ذرائع ابلاغ کو خلافِ اسلام باتوں کی ترویج اور نشر و اشاعت سے روک دیا اور انہیں اسلامی اقدار و روایات اور پاکستانی نظریاتی حدود کا پابند بنانے کی کوشش کرتے ہوئے خاتون نیوز کاسٹرز کو سر پر دوپٹہ اوڑھنے کا حکم جاری فرمایا۔ پاکستان کی فضائی سروس یعنی ہوائی جہازوں کو اپنی اُڑان سے پہلے مسنون دعا پڑھنے کی تاکید کی۔ گورنمنٹ کے اداروں اور سرکاری تقریبات میں شراب پیش کرنے پر پابندی لگا دی گئی اور انہوں نے پاکستان کا اسلامی تشخص اُبھارنے کے لیے پاکستان کے اندر اور باہر پاکستانی لباس کو متعارف کرایا اور خود شلوار قمیص اور شیروانی جیسا باوقار لباس زیب تن کر کے بیرونِ ملک کے دورے کیے اور جنرل اسمبلی تک میں اپنے لباس اور قومی زبان کو اس کا اصل مقام دلانے کی بھرپور کوشش کی۔ سرکاری دفاتر اور پرائیویٹ اداروں میں ملازمین اور ورکرز کو صوم و صلوۃ کی ترغیب اور پابندیِ نماز کے لیے دفاتر میں دورانِ کار وقفہ نماز کا اہتمام کرنے کا حکم جاری کیا گیا۔ ڈاکہ زنی، زنا، زنا بالجبر، حد سرقہ اور حد قذف کے قانون کے لیے بہت سنجیدہ اور بھرپور کوششیں بھی شہید صدر ضیاء الحق کے دورِ اقتدار میں ہی دیکھنے میں آئیں۔ پاکستان میں دینی مدارس کو ان کا صحیح اور اصل مقام دے کر ان کو یونیورسٹی اور کالجوں کی سطح کے برابر لانا بھی مرحوم صدر کی مساعی کا نتیجہ تھا۔ دینی مدارس کے سرٹیفکیٹ اور اسناد کو یونیورسٹیوں اور کالجوں کی سندات کے برابر قرار دے دیا گیا۔ انہوں نے اکثر خطابات میں علمائے کرام اور مشائخ عظام کی خدمات کا اعتراف کیا اور قیامِ پاکستان کی جدوجہد میں علماء کرام اور مشائخ عظام کے بھرپور کردار کو تسلیم کیا۔
ضیاء نرے مولوی نہیں بہت ذہین انسان تھے اور قوم کی سیاسی نبض پر ان کے ہاتھ تھے۔ وہ پانچ وقت کے نمازی اور تہجد گزار اور ہر صبح قرآن پاک بالخصوص مودودی صاحب کی تفہیم القرآن کا مطالعہ کرتے۔ آج ہمیں کہیں ایک بھی مثال نہیں ملتی کہ اسلامی ملک میں اس سلسلے میں سنجیدہ کوشش کی گئی ہو، لیکن ہم پورے وثوق سے کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان کے شہید صدر جنرل محمد ضیاء الحق نے اپنے دورِ اقتدار کے مختصر عرصے (1977ء تا 1988ئ) میں بے شمار سیاسی، معاشرتی، سماجی مسائل کے باوجود اپنوں اور غیروں کی سازشوں ریشہ دوانیوں اور لادینی قوتوں کے بے پناہ دبا کے باوجود پاکستان میں اسلامی نظام کے نفاذ کی اور پاکستان کی ریاست کو اسلامی ریاست کا خوبصورت تشخص اور پہچان عطا کرنے کی بھرپور کوشش کی، لیکن زندگی نے ان سے وفا نہ کی اور وہ ایک فضائی حادثے میں اپنے بہت سارے ہم خیال دوستوں کے شہید ہو گئے۔ 17اگست ضیاء الحق کے طیارے کی تباہی حادثہ تھا یا سازش؟ اس فائل کو بند کر دیا گیا ہے۔ اس دور میں بعض افراد نے کہا کہ طیارے کو ایک سازش کے تحت فضا میں تباہ کیا گیا۔
پاکستانی سرکاری بیان کے مطابق طیارہ فضا میں4ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کر رہا تھا اور ٹیک آف کے چند منٹ بعد ہی کریش کر گیا۔ ایک چشم دید گواہ کے مطابق اس سہ پہر فضا میں طیارے میں سے دھواں بلند ہوا اور پھر وہ ایک دھماکے سے پھٹ گیا۔ اس حادثے کے بعد دس روزہ سوگ کا اعلان کیا گیا اور جائے حادثہ سے ملنے والی ضیاء الحق کی باقیات کو فیصل مسجد اسلام آباد میں دفنایا گیا۔ اللہ کریم ان کی تربت پر بے شمار رحمتیں نازل فرمائے اور انہیں اپنی جوار رحمت میں جگہ دے۔ آمین!