اعلان جنازہ

تحریر : سیدہ عنبرین
سوشل میڈیا پر ایک کلپ میں خاتون بتا رہی تھیں بچپن میں ایک گانا دل کو بہت بھاتا تھا’’ جب ہم جواں ہو نگے جانے کہاں ہونگے ‘‘، جوان ہوئے تو دیکھا پانڈے مانج رہے ہیں اور نصف درجن بچوں کی پوٹیاں دھو رہے ہیں۔ جب بھی اولمپکس یا کوئی کھیلوں کا دوسرا بین الاقوامی مقابلہ کہیں منعقد ہوتا ہے خیال آتا ہے کبھی وہ دن بھی آئے گا جب اس قسم کا کوئی ایونٹ ہمارے ملک میں بھی ہو گا لیکن ۔۔۔ ایسا کوئی موقع ہمیں نہیں دیا گیا اور غالب امکان بھی یہی ہے ہمیں کوئی ایسا موقع فراہم نہیں کیا جائے گا۔ وجوہات درجن سے زیادہ ہیں، لیکن بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم زندگی کے کسی بھی معاملے میں میرٹ نہ بنا سکے ہیں نہ اس کی پابندی کر سکے ہیں۔ ہر جگہ فیس دیکھنے کا رواج ہے، کہیں دیکھنے کی کسی کو فرصت نہیں، نہ کسی کو اب اس میں دلچسپی رہی ہے۔
ہمارا میرٹ فل پروگرام ہر برس یوم آزادی کے موقع پر دیکھا جاسکتا ہے، یہ دو اقساط میں ہوتا ہے، یوم آزادی پر مختلف شعبہ ہائے زندگی میں نمایاں خدمات انجام دینے والوں کے ناموں کا اعلان کیا جاتا اور بتایا جاتا ہے کہ کس نے کس شعبے میں اور کس طرح قومی سطح پر خدمت کی۔ دوسری قسط میں یوم پاکستان 23مارچ کو یہ انعامات ایوان صدر اور گورنر ہائوسز میں منعقدہ تقریبات میں حق داروں تک پہنچا دیئے جاتے ہیں۔
گزشتہ برس قریباً چار سو افراد میں یہ ریوڑیاں بانٹی گئی تھیں، ایک سے بڑھ کر ایک نام اور ایک سے بڑھ کر دوسرے کا کارنامہ گنوایا گیا تھا لیکن قوم بیشتر کے کرتوتوں سے واقف تھی، جنہیں یہ اعزازات ملے اور جنہوں نے انہیں اس قابل سمجھا، امسال بھی کچھ ایسا ہی ہوا ہے، جس سے واضع ہوگیا کہ اب اس ملک میں اعزازات حاصل کرنے والوں کیلئے یہی میرٹ ہے۔
ایک صاحب کو اعلیٰ سول ایوارڈ دینے کا اعلان کیا گیا، شعبہ عوامی اور سماجی خدمت ہے۔ ان کی سماجی خدمت کی تفصیل یہ ہے کہ وہ ایک متمول تاجر ہیں، مڈل ایسٹ اور امریکہ یورپ میں کاروبار کرتے ہیں، جس عظیم خدمت پر انہیں ایوارڈ کا حقدار قرار دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ انہوں نے وہ مال خریدا جس کے بارے میں دو برس سے بتایا جارہا ہے کہ یہ توشہ خانہ سے اونے پونے چرایا گیا اور دھوکہ دہی سے بیچا گیا، اگر اس بات کو درست مان لیا جائے تو پھر پہلا حق بیچنے والے کا تھا، خریدنے والے کو ایوارڈ دینے کی بجائے اسے ایوارڈ ملنا چاہیے جس نے یہ اشیاء فروخت کیں۔ ایسے ہی ایک ایوارڈ کا حق دار ایک ادبی مجاور کو دیا گیا ہی، جس کے بارے میں معروف کالم نگار، شاعر، ادیب اور ڈرامہ نگار جناب عطا الحق قاسمی صاحب لکھتے ہیں مجھے تو موصوفہ کی کوئی ادبی خدمت یاد نہیں، وہ تمام عمر ادب فروشی کرتی رہی ہیں۔ یاد رہے یہ خاندان ہر دور، ہر زمانہ حکومت میں اپنی انہی خدمات کی بدولت عہدے، مراعات اور اعزازات ہتھیاتا رہا ہے، اس مرتبہ ان کی واردات کامیاب رہی، اب تو ان کی تیسری نسل فیض یاب ہو رہی ہے، سو کے قریب دیئے گئے ایوارڈز میں نصف سے زیادہ کے معاملے یہی میرٹ ہے، چنائو دیکھ کر خیال آتا ہے ملک میں شرافت کی سیاست اور شریف حکومت ہے، جو میرٹ کی سختی سے پابندی کرنے کے لحاظ سے اپنی بین الاقوامی شہرت رکھتی ہے۔ اس کے ساتھ بھی کوئی دھوکہ کر گیا ہے۔ عین ممکن ہے انہوں نے جو فہرست بنا لی وہ کچھ اور تھی، جسے عین وقت پر کوئی چرا کر لے گیا اور ایک دو نمبریوں کی فہرست اس کی جگہ رکھ گیا۔ جب وقت آیا تو کسی کو احساس ہی نہ ہوا کہ ایک نمبر فہرست غائب اور دو نمبر فہرست اس کی جگہ رکھ دی گئی ہے، یوں بغیر دیکھے یہ فہرست جاری کردی گئی۔ یہاں یہ بات اہم ہے کہ وفاقی حکومت کے اہم دفاتر، اہم فائلوں اور اہم کمپیوٹرز تک کسی عام آدمی کی رسائی تو ہو نہیں سکتی، لہذا یہ کوئی بہت ہی خاص شخصیت ہے جس کیلئے مقفل دفتروں کے دروازے ایک ٹھوکر، ایک اشارے سے کھل جاتے ہیں، اس کی رسائی ہر فائل اور ہر کمپیوٹر تک تھی اور شاید آئندہ بھی رہے۔
اس لیول کی ملک میں دو ہی شخصیات ہیں جن کا بہت ذکر سننیں میں آیا، ایک خاتون ہیں جواب جوان تو نہیں رہیں، جوانی تو لٹ پٹ چکی، مگر آثار باقی ہیں اور سرکاری کاغذوں میں، میڈیا میں انہیں جوان و خوبرو ہی پینٹ کیا جاتا ہے ، دوسرے ایک ادھیڑ عمر مرد ہیں جنہیں چند روز قبل تحویل میں لیا گیا، اب انہیں ادھیڑ کر ان کے اندر سے بہت کچھ برآمد ہونے کے حوالے سے ہر روز ہر ٹاک شو میں نئے نئے انکشافات کئے جا رہے ہیں۔ خاتون بذات سٹار کہلاتی اور سمجھی جاتی ہیں جبکہ مرد ایک ریٹائرڈ تھری سٹار ہیں۔ اس وقت ملک میں یہ دو ہی شخصیات ہیں جن کے بارے میں سوچا جاسکتا ہے کہ یہ واردات انہوں نے کی ہو۔ حکومت کو اس سلسلے میں ایک کمیشن بنانا چاہیے جو تیس روز میں اپنی تحقیقاتی رپورٹ مکمل کرنے کا پابند ہو۔ حیرانی تو اس بات پر ہے جذبہ قومی خدمت سے سرشار وہ لوگ کیوں ان ایوارڈز کے حق دار نہ ٹھہرے جنہوں نے چار کروڑ ننانوے لاکھ نو سو ننانوے روپے کی حکومت پاکستان کے خزانے پر ڈکیتی کو نیب کے اختیار سے باہر نکال دیا اور قوم کو بتایا کہ اس قسم کی چھوٹی موٹی چوریوں کے پیچھے نیب جیسے ادارے کو اپنا قیمتی وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ملک میں بد ترین حالات کے باوجود شفاف ترین الیکشن کا انعقاد کرایا جس کے نتیجے میں شفاف ترین طریقے سے شفاف ترین حکومت معرض وجود میں آئی۔ الیکشن کمیشن میں یہ اہم ترین خدمت انجام دینے والوں کو ایوارڈ نہ دے کر ان کی حق تلفی کی گئی ہے، وہ عظیم لوگ ہیں جنہوں نے ملک کو سیدھے راستے پر ڈالنے میں اہم کردار ادا کیا۔
گزشتہ برس خبر شائع ہوئی تین قومی بینکوں نے منی لانڈرنگ میں مجرموں کو سہولتیں دی، اربوں روپے کی منی لاندرنگ کا کیس قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی تک پہنچا تحقیقات ہوئی جرم ثابت ہوا، تینوں بینکوں کو صرف نوے کروڑ جرمانہ کیا گیا یعنی تیس کروڑ روپیہ ہر بینک پر جرمانہ ہوا جو انہوں نے ہنسی خوشی ادا کیا، اگر یہ بینک اس جرم پر بند نہیں کئے جاسکتے تو پھر ان بینکوں کو قومی خدمت پر ایوارڈ کیلئے نامزد کرکے انصاف سے کام نہیں لیا گیا۔
آٹا، چینی، پٹرول، سیمنٹ اور سب سے بڑھ کر کھاد کو کسان کی دسترس سے دور کرنے کے کارنامے کوئی چھوٹے کارنامے نہیں ہیں، ان مافیاز سے تعلق رکھنے والوں کو بھی ایوارڈ ملنا چاہیے تھا، ان کی قومی خدمات کا لحاظ نہیں کیا گیا۔
ارشد ندیم خدا کر شکر ادا کرے، اولمپکس اور ایشین گیمز پاکستان میں نہیں ہوئیں پیرس میں ہوئیں، وہ سونے کا تمغہ جیتنے میں کامیاب ہوا، جو آدھا سونا اور آدھا پیتل ہے، یہ مقابلے پاکستان میں ہوتے اس کے مقدر میں خالص پیتل کا تمغہ آتا نم سونے کا ہوتا۔ پہلے انصاف کا جنازہ اٹھتا ہے، پھر حکومت کا، ماضی گواہ ہے اور یہی گواہی کیلئے ایک مرتبہ پھر تیار ہے۔ جنازے کیلئے اس برس کا اعلان سامنے آرہا ہے، دیکھتے ہیں یہ برس یا اگلے برس۔