ColumnImtiaz Aasi

وزارت خارجہ، نوٹ وربل کا غلط استعمال

امتیاز عاصی
ریاست پاکستان کے سرکاری اداروں میں غیر قانونی امور کی انجام دہی معمول بن چکا ہے۔ کوئی غیر قانونی کام منظر عام پر آنے کے بعد بجائے ذمہ داروں کو سزا دینے کے ایسے کاموں کی پردہ پوشی کی جاتی ہے۔ ہمارے ہاں سرکاری اداروں کا معمول ہے کوئی غیر قانونی کام علم میں آنے کے بعد بجائے ذمہ داروں کو سزا دینے کے نئے احکامات جاری کئے جاتے ہیں۔ پاکستان سے کوئی سرکاری افسر ملک سے باہر سرکاری امور کی انجام دہی کے لئے جاتا ہے اس کا متعلقہ محکمہ وزارت خارجہ کو ویزا کے حصول کے لئے نوٹ وربل Note Verbalکے اجراء کی درخواست کرتا ہے جس کے بعد وزارت خارجہ کا متعلقہ سیکشن سرکاری افسر کو جلد ویزا کے اجراء کے لئے متعلقہ ملک کے سفارت خانے کو نوٹ وربل بھیجتا ہے جسے ایک سیل لفافے میں بھیجا جاتا ہے۔ قانونی طور پر یہ استحقاق ان سرکاری افسران اور ملازمین کا ہوتا ہے جنہیں سرکاری امور کی انجام دہی کے لئے فارن مشن میں بھیجا جاتا ہے۔ البتہ وہ افسران جنہیں چند دنوں کے لئے بیرون ملک بھیجا جائے وہ بھی نوٹ وربل کے ذریعے ویزا لینے کے اہل ہوتے ہیں۔ وزارت خارجہ کے جن افسروں کو فارن مشن میں بھیجا جائے یا جیسا کہ پاکستان حج مشن میں سعودی عرب کسی افسر کو بھیجا جائے ایسے افسروں کو سرخ (Red )پاسپورٹ جاری کئے جاتے ہیں اور ان کا درجہ سفارت کار کا ہوتا ہے۔ فارن مشن میں جانے والے نچلے درجے کے ملازمین کو نیلے رنگ Blueپاسپورٹ جاری کئے جاتے ہیں۔ عام طور پر جن سرکاری ملازمین کو فارن مشن میں بھیجا جائے خصوصا یورپی ملکوں میں جانے والے ملازمین عرصہ تعیناتی پورا کرنے کے بعد وہیں رہ جاتے ہیں۔ ہمیں کئی سال سعودی عرب میں حجاج کی خدمت کے لئے بھیجا جاتا رہا چنانچہ ویزا کے حصول کے لئے ہمیں نیلے رنگ کا پاسپورٹ جاری کیا جاتا تھا جس کی مدت چھ ماہ کے لئے ہوتی ہے۔ اگر کسی نے اگلے سال حج ڈیوٹی پر جانا ہو تو اسی پاسپورٹ میں چھ ماہ کے لئے توسیع کردی جاتی ہے۔ دراصل نیلے پاسپورٹ کے اجراء پر دیگر ملکوں کے ویزا کے حصول میں آسانی ہوتی ہے۔ ہمیں یاد ہے کئی برس قبل وزارت خارجہ میں اسی طرح کا ایک
اسکینڈل منظر عام پر آیا تھا جس میں وزارت خارجہ کے ملازمین ملوث تھے۔ وزارت خارجہ کے ملازمین مبینہ طور پر لاکھوں روپے لے کر نیلے رنگ کے پاسپورٹ جاری کرنے میں ملوث تھے۔ سوال ہے اگر کسی افسر کو چند روز کے لئے بیرون ملک سرکاری امور کی انجام دہی کے لئے بھیجا جائے تو وہ اپنی فیملی کو ہمراہ لے جانے کا قطعی طو پر استحقاق نہیں رکھتا۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں یہ رواج بن چکا ہے جب کوئی سرکاری افسر بیرون ملک جاتا ہے وہ اپنے محکمہ سے اپنے علاوہ فیملی کے افراد کو ویزا دلوانے کے لئے وزارت خارجہ کے نام خط لکھوانے میں کامیاب ہو جاتا ہے جس کے بعد وزارت خارجہ میں کام کرنے والے ملازمین کی یہ ذمہ داری بنتی ہے وہ قانون کو مدنظر رکھتے ہوئے نوٹ وربل کا اجراء کریں لیکن وہ ایسے افسران کے لئے نوٹ وربل جاری کر دیتے ہیں جو اپنے ساتھ فیملی لے جانے کا استحقاق نہیں رکھتے۔ ایک اردو معاصر میں شائع ہونے والی خبر کے مطابق سینٹ کے ایک جوائنٹ سیکرٹری کو سرکاری امور کی انجام دہی کے لئے بیرون ملک بھیجا گیا وہ اپنے ساتھ فیملی کو لے جانے میں کامیاب ہوگیا جس کے بعد اس کی فیملی کے افراد نے یورپی یونین کے ملک سوئٹزر لینڈ میں سیاسی پناہ لے لی ہے۔ جس کے بعد وزارت خارجہ نے ایک نئی گائیڈ لائن جاری کی ہے جس کے مطابق مستقبل میں قومی اسمبلی اور سینیٹ کے افسروں کے فیملی کے افراد کو ویزا کے حصول کے لئے نوٹ وربل کے اجرا پر پابندی عائد کر دی گئی ہے جس کے تحت آئندہ سینٹ اور قومی اسمبلی سے باضابطہ درخواست پر سرکاری دورے کے لئی سفارتی اور سرکاری پاسپورٹ رکھنے والوں کو نوٹ وربل جاری ہوں گے۔ سوال ہے یہی احکامات ماضی میں جاری کر دیئے جاتے تو اس طرح کی بے قاعدگیوں کا قلع قمع ہو سکتا تھا نہ کہ جب غیر قانونی کام منظر عام پر آنے کے بعد نئے احکامات جاری کرنے کی ضرورت پڑی ہے۔ بادی النظر میں وزارت خارجہ کے متعلقہ سیکشن کے معاملات کی اعلیٰ سطح پر انکوائری کرانے کی ضرورت ہے تاکہ اب تک اس طرح کی ہونے والی بے قاعدگیوں میں ملوث افسران اور ملازمین کو قانونی گرفت میں لایا جا سکے۔ غیر قانونی طور پر نوٹ وربل جاری کرنے کا معاملہ کوئی معمولی نہیں ہے بلکہ اعلیٰ سطح پر تحقیقات کا متقاضی ہے۔ وزارت خارجہ سے نہ جانے کتنے نوٹ وربل غیر قانونی طور پر جاری ہوتے ہوں گے ساتھ جن جن محکموں سے اس نوعیت کے نوٹ وربل جاری کرنے کی درخواستیں آئی ہوں گی انہیں اس غیرقانونی کام سے کسی صورت میں بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ سرکاری پاسپورٹ پر ویزوں کے اجراء کے معاملے میں پاسپورٹ آفس کے اہل کار بھی ملوث ہوتے ہیں۔ بسا اوقات جعلی لیٹر پر سرکاری پاسپورٹ جاری ہو جاتے ہیں لہذا اس معاملے کو غیر معمولی تصور نہیں کرنا چاہیے۔ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی کو چاہیے غیر قانونی نوٹ وربل کے اجراء کے اس معاملے کی انکوائری ایف آئی اے کے کسی راست باز افسر کو سونپی جائے تاکہ اس غیر قانونی دھندے میں ملوث ملازمین کو قانون کے کٹہرے میں لاجا سکے۔ عجیب تماشا ہے جوائنٹ سیکرٹری کی اہلیہ نے یورپی ملک میں سیاسی پناہ حاصل کر لی ہے۔ حقیقت میں دیکھا جائے ایسے سرکاری ملازمین ملک و قوم کے لئے بدنامی کا باعث بن رہے ہیں۔ تعجب ہے وزیر خارجہ نے نئی گائیڈ لائن جاری کرنے کی ہدایت کی ہے انہیں چاہیے تھا اس طرح کے معاملات کی باقاعدہ انکوائری کے احکامات جاری کرتے تاکہ اس غیرقانونی دھندے میں ملوث وزارت خارجہ کے ملازمین کو بھی گرفت میں لایا جا سکتا۔ افسوناک پہلو یہ ہے جب اس طرح کا کوئی غیرقانونی کام منظر عام پر آتا ہے تو سرکاری محکمے اس پر پردہ ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں جس سے سرکاری ملازمین کی حوصلہ شکنی کی بجائے ان کی حوصلہ افزائی ہوتی ہے۔

جواب دیں

Back to top button