
محمد مبشر انوار( ریاض)
پاکستانی تاریخ کو بجا طور پر دو حصوں میں پرکھا جا سکتا ہے ،ایک پاکستان1985ء سے پہلے کا پاکستان ہے جبکہ دوسرا اس کے بعد افق پر نمودار ہوا ہے۔ پہلے پاکستان کی تاریخ، تمام تر سیاسی خرافات اور عدم استحکام کے باوجود قابل فخر کہلائی جا سکتی ہے کہ اس عرصہ میں جذبہ حب الوطنی کی ایسی ایسی مثالیں سامنے نظر آتی ہیں کہ دنیا کو پاکستانی ترقی و خوشحالی پر یقین تھا کہ یہ قوم تمام تر نامساعد حالات کے باوجود نہ صرف ان پر قابو پا سکتی ہے بلکہ ان ترقی و خوشحالی کے راستے پر پورے تیقن کے ساتھ گامزن ہو سکتی ہے۔ جبکہ 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات کے بعد اس قوم کا زوال شروع ہوا اور لمحہ موجود میں یہ تنزلی کے ایسے نقطہ پر کھڑی ہے کہ اگر یہاں سے واپسی کا راستہ نہ چنا گیا تو اسے دنیا کی کوئی طاقت مٹنے سے نہیں بچا سکے گی، خاکم بدہن، لیکن بدقسمتی سے یہی قانون قدرت ہے کہ اگر کوئی قوم خود کو بدلنے کی کوشش نہیں کرتی، تو اسے مٹنے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ دنیا کا کوئی بھی معاشرہ ایسا نہیں کہ جہاں جرائم نہ ہوں لیکن جرائم کا ہونا اہم نہیں البتہ ان جرائم سے نپٹنے کا طریقہ کار، لائحہ عمل اور ریاستی مشینری کا بروئے کار آنے زیادہ اہم ہے کہ ریاستی مشینری ان جرائم کے سدباب اور روک تھام کے لئے کس طرح کام کرتی ہے۔ آیا ریاستی مشینری واقعتا جرائم کی سرکوبی کے لئے بروئے کار آتی ہے یا اس کا گٹھ جوڑ جرائم پیشہ عناصر کے ساتھ نظر آتا ہے، جو جرائم کی سرکوبی کے برعکس، جرائم کو بڑھانے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔1985ء سے قبل کے حقائق اس کا ثبوت ہیں کہ معاشرے میں جرائم موجود تھے لیکن ان کی روک تھام کے لئے متعین سرکاری مشینری ان جرائم سے نبرد آزما ہونے کے لئے اپنی تمام تر اہلیت و قابلیت کے ساتھ بروئے کار آتی تھی اور دوسری اہم ترین وجہ بعد از آزادی، دنیا میں اپنا نام پیدا کرنا اور دنیا کو دکھانا تھا کہ جن اصولوں کی بنیاد پر یہ ملک وجود میں آیا تھا، وہ واقعتا آفاقی اصول تھے اور پاکستانی ان کی عملداری کے خواہاں بھی تھے۔ بدقسمتی سے پاکستان کے موجودہ حالات میں موخرالذکر صورتحال زیادہ واضح دکھائی دے رہی ہے اور ریاستی مشینری کی اکثریت، امور سلطنت چلانے کی زمام کار ان ہاتھوں میں دکھائی دیتی ہے، جو تحریک پاکستان میں دی گئی قربانیوں سے فقط علمی طور پر واقف ہیں، آزادی کی اہمیت سے ناواقف، قومی مفادات کو پس پشت رکھنے والے، ڈنگ ٹپائو پالیسی کے تحت روزمرہ امور سے جان چھڑانے والے افراد اس وقت معاملات کو چلاتے دکھائی دے رہے ہیں۔
اس روئیے کی وجہ کیا ہے اور کیوں 1985ء کے بعد یہ رویہ معاشرے میں دیکھنے کو ملا؟، اس کا جواب جہاں انتہائی سادہ ہے وہیں موجودہ صورتحال کا تدارک بھی اسی میں پوشیدہ ہے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ نفسا نفسی و ذاتی مفادات کا زہر اس طرح سرایت کر چکا ہے کہ جب تک ایک بڑی اور بے رحمانہ و منصفانہ سرجری نہیں ہوتی، اس کا تدارک ہی ممکن نہیں ۔’’ میں‘‘ ، ’’ میرا‘‘ کا زور سر چڑھ کر بول رہا ہے اور ہر شخص، ابتدائی سالوں کے برعکس، ملک کی بجائے صرف اپنی اور اپنے خاندان کے علاوہ کچھ سوچنے کا روادار ہی نہیں، خواہ کتنے ہی بڑے منصب پر براجمان ہو، اس کی سوچ ’’ قومی‘‘ کی بجائے ’’ ذاتی‘‘ ہو چکی ہے، اس پس منظر میں یہ توقع کرنا قومی سوچ راتوں رات پیدا ہوجائے گی، دیوانے کا خواب ہے لیکن اس کی ابتداء کے لئے، نقار خانوں میں اپنی آواز بلند کرتے رہنا بھی کسی جہاد سے کم نہیں کہ کسے معلوم کب کوئی بااختیار اس عقدے کو سلجھانے کے لئے عزم کر لے۔ بہرحال اس وقت پورے ملک میں ایک شور و غوغا ہے کہ فوج نے سابق ڈی جی آئی ایس آئی کو، سپریم کورٹ کے احکامات کہیں یا سفارشات پر، گرفتار کر لیا ہے کہ ان پر بظاہر الزام اختیارات سکا ناجائز استعمال کرتے ہوئے، ٹاپ سٹی کی زمین ہتھیانا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ فوج کی طرف سے جنرل فیض حمید پر سیاسی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کا الزام بھی ہے۔ دوسری طرف ممتاز صحافی حامد میر نے بھی انکشاف کیا ہے کہ جنرل فیض حمید کی گرفتاری سے زیر عتاب سیاسی جماعت تحریک انصاف کو بھی سکون میسر ہو گا اور فوج کو بھی اس گرفتاری کا فائدہ پہنچے گا کہ فیض حمید کی سرگرمیاں دونوں فریقین کے لئے وبال جان بنی ہوئی تھی۔ یہاں ایک اور اہم بات بھی حامد میر نے کہی ہے کہ ان سرگرمیوں میں صرف فیض حمید کی ذات ہی بذات خود ملوث نہیں رہی بلکہ جس شخصیت کے ایماء پر فیض حمید یہ تمام سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے تھے،اس شخصیت کو بھی بے نقاب کیا جانا چاہئے اور اس کے خلاف بھی باقاعدہ کارروائی ہونی چاہئے وگرنہ فیض حمید کو صرف قربانی کا بکرا ہی سمجھا جائے گا اور اصل قصوروار پھر بچ نکلے گا۔ صرف اس ایک مثال سے یہ واضح ہے کہ بااختیار شخصیات کس طرح ملکی معاملات کو چلا رہی ہیں کہ نہ انہیں اپنے محکمے کی عزت و ناموس کی پروا ہے اور نہ اس حلف کی، جس کے تحت وہ اپنے محکمے میں نوکری کر رہے ہیں، آئین و قانون کی دھجیاں بکھر رہی ہیں اور ارباب اختیار یا ریاستی مشینری بے بسی کے عالم میں، اپنی نوکریاں بچانے کی خاطر، ایسے تمام غیر قانونی کاموں میں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے یا دست راست نظر آتی ہے۔ ایسی صورتحال میں جب اعلی ترین عہدوں پر فائز افراد یوں ذاتی مفادات کے حصول میں مشغول ہوں تو نچلی سطح پر ریاستی مشینری کی طرف سے بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے کے مواقع کیسے ضائع کئے جا سکتے ہیں اور کیوں کئے جائیں، جب ہر بااختیار اس ملک اور اس کے شہریوں کو لوٹنے میں مشغول ہے، تو نچلی سطح کی ریاستی مشینری کیونکر کسی قانون سے خائف ہو سکتی ہے اور کیونکر قانون کی بالا دستی کے لئے بروئی کار آئے گی؟۔
ایسی ہی صورتحال کا سامنا ہمیں الیکشن کمیشن کی جانب سے دیکھنے کو مل رہا ہے کہ الیکشن کمیشن بھی طاقتوروں کے حکم کی بجا آوری میں کسی آئین و قانون کو خاطر میں نہیں لارہا، اپنے فرض منصبی کے برعکس، طاقتوروں کی خواہشات کی تکمیل میں مصروف عمل دکھائی دے رہا ہے کہ اس میں نہ صرف اس کی بقاء بلکہ بہتر مستقبل کی نوید بھی اسی میں ہے۔ ایک آئینی ادارہ ہوتے ہوئے، عوامی سیاست میں ایک فریق کی طرح بروئے کار آنا، کسی بھی طور اسے زیب نہیں دیتا لیکن چونکہ طاقتوروں کی خواہشات بہرطور آئین و قانون سے کہیں بڑی ہیں لہذا الیکشن کمیشن ملک کی اعلیٰ ترین عدالت کے فیصلوں پر بطور ایک فریق، ایک مخصوص زیر عتاب سیاسی جماعت کے خلاف بار بار عدالت عظمی تک رسائی حاصل کر رہا ہے۔ عدالت عظمیٰ کے ایسے فیصلے، جو منظور نظر سیاسی جماعت کے حق میں ہو رہے ہیں، ان پر بلاچوں و چراں عملدرآمد ہوتا نظر آ رہا ہے اور عدالت عظمیٰ کی تکریم دکھائی دیتی ہے لیکن ایسے فیصلے جو زیر عتاب سیاسی جماعت کے حق میں ہیں، ان پر حیل و حجت کی جا رہی ہے اور ہر ممکن کوشش ہے کہ کسی نہ کسی طرح ان فیصلوں پر عملدرآمد میں تاخیر کی جائے، جس کی بظاہر ایک ہی وجہ دکھائی دے رہی ہے اور میڈیا اس پر مسلسل رائے دے رہا ہے کہ اس کا مقصد سوائے، حکمران جماعت کے لئے پارلیمان دو تہائی اکثریت فراہم کرنے کے کوئی دوسرا نظر نہیں آتا۔ دو تہائی اکثریت کا حصول اس وقت حکمران جماعت کے لئے، ایک خواب سے کم نہیں کہ اس کے بغیر حکمران آئینی ترامیم کرنے سے قاصر ہیں اور جب تک آئینی ترمیم نہیں ہو جاتی، عدالت عظمی میں موجود شخصیت کا تسلسل ممکن نہیں اور اس کے بغیر ان کی بقاء ممکن نظر نہیں آتی۔ بہرکیف فیض حمید کی گرفتاری سے یہ بھی قطعا اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ اس ایک گرفتاری سے یا فیلڈ کورٹ مارشل کے بعد ملکی معاملات بالکل درست سمت میں گامزن ہو جائیں گے کہ یہ ایک محکمہ میں ایک انفرادی معاملہ ہو سکتا ہے، جس سے محکمہ کے اندر افسران کو یہ ادراک ہو جائے کہ وہ جوابدہی سے مبرا نہیں ہیں لیکن ملکی سطح پر ہونے والے معاملات پر اس سے کیا اثر پڑے گا؟ کیا عدالتیں، قانون نافذ کرنے والے محکمے، عوامی فلاح کے ریاستی محکمے، اپنی روش سے باز آ جائیں گے؟ کیا سیاستدان اپنی روش بدلیں گے، اپنی سوچ بدل پائیں گے؟ تاہم ہمیشہ کی طرح ، خواہ ضیا آمریت میں اسلام کے نفاذ کی گردان رہی ہو یا مشرف کے سات نکاتی ایجنڈے کو ملکی نبض پر ہاتھ سمجھا ہو، احتساب کے نعرے کو ملکی مفادات میں سمجھا ہو، روشنی کی کرن ہی تصور کیا اور اپنے تئیں تسلی دی کہ اب معاملات بہتری کی جانب ہوں گے، اس ایک قدم کو بھی روشنی کی کرن تصور کرنے میں کیا حرج ہے، ایک گمان اور سہی۔