Column

اسی میں سب کی بقا ہے

تحریر : سیدہ عنبرین
ایک کے بعد دوسرا سانحہ ہو جاتا ہے، پہلے سانحے کا ماتم ابھی ختم نہیں ہوتا کہ نیا شروع ہو جاتا ہے کہ ہم یعنی امت مسلمہ صرف ماتم کرنے اور آہ و زاری ہی کرتے رہیں گے یا کبھی اپنے آپ میں اتنی ہمت پیدا کریں گے کہ 70ملک یک زبان ہو کر کہہ دیں بس اب مزید کچھ نہیں اگر کچھ ہوا تو اس کا ذمہ دار جارح اور ان کے حمایتی ہوں گے۔ غزہ میں اب تک آزاد میڈیا کے مطابق 60ہزار فلسطینی شہید ہو چکے ہیں۔ مغربی میڈیا اس تعداد کو گزشتہ 2ماہ سے 40ہزار کے قریب ہی گھما رہا ہے۔ المیہ در المیہ یہ کہ مسلمان ملکوں سے تعلق رکھنے والا میڈیا بھی وہی تعداد بیان کرتا ہے جو مغربی میڈیا کے پراپیگنڈا سیل سے باہر آتی ہے، قریباً 9ماہ سے جاری اس ظلم کو روکنے کیلئے ہر فورم پر آواز اٹھائی گئی یہودی اسرائیلی امریکی حکومتوں نے جانبدارانہ پالیسی اختیار کئے رکھی، دنیا بھر میں جب نوجوان، بوڑھے، بچے اور خواتین اس ظلم کے خلاف احتجاج کرنے کیلئے سڑکوں پر نکل آئے تو پھر اسی استعماری ٹولے نے دبے دبے لفظوں میں اسرائیل سے جنگ روکنے کی بات کی، مکروہ ترین اور ظالمانہ رویہ اقوام متحدہ کا رہا، جس نے خانہ پری کیلئے قراردادیں بھی منظور کیں اور اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے وارنٹ گرفتاری بھی جاری کئے لیکن ہر کارروائی چونکہ بدنیتی پر مبنی تھی لہٰذا روئے زمین پر اس کا کوئی اثر نظر نہ آیا۔
پاکستان کو دو لخت کرنے کے بعد مسلم ممالک پر چڑھائی کی گئی سوڈان کو تقسیم کیا گیا، عرب ممالک کے تیل کے ذخائر پر قبضہ کرنے کیلئے فرضی کہانیاں تراشی گئیں۔ اقوام متحدہ کا کردار کہیں نظر نہ آیا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد اس ادارے کا قیام اس لئے عمل میں لایا گیا تھا کہ دنیا کو آئندہ جگ کی تباہ کاریوں سے محفوظ رکھا جا سکے لیکن اقوام متحدہ کی تاریخ یہی ہے کہ ادارے نے ہمیشہ جارح ملکوں کا ساتھ دیا بلکہ عراق پر چڑھائی کرنے کیلئے 42ملکوں کی فوج کو ’’ لائسنس ٹو کل‘‘ بھی دیا۔
مسلم ممالک کو سوچنا ہو گا جو ادارہ صرف مسلمانوں کو تباہ و برباد کرنے کیلئے اپنا کردار ادا کر رہا ہے، اس سے جڑے رہنے کا کوئی فائدہ نہیں اس سے علیحدہ ہوں گے، ایک علیحدہ تنظیم بنائیں گے تو کوئی ان کی آواز سنے گا۔ کہا جا سکتا ہے کہ مسلمان ملکوں کی نصف درجن تنظیمیں تو آج بھی موجود ہیں انہوں نے کیا تیر مار لیا تو اس ناکامی کی بڑی وجہ یہ ہے کہ مسلمان ان تنظیموں میں شمولیت نیم دلی سے کرتے ہیں جبکہ اپنے اپنے علیحدہ علیحدہ مفادات کے تحت اور بالخصوص مارے جانے اور تباہ کر دیئے جانے کے خوف سے اقوام متحدہ سے چمٹے رہتے ہیں۔ یہ ان تمام ممالک کی خام خیالی ہے کہ وہ بڑی طاقت تعلقات بہتر رکھ کر اس کے جارحانہ عزائم سے محفوظ رہ سکتے ہیں۔ شہنشاہ ایران رضا شاہ پہلوی نے کبھی اپنا یہ انجام نہ سوچا ہو گا ان سے بڑا امریکہ کا دوست کون ہو سکتا ہے۔ صدام حسین کو بھی یہی گمان تھا اور ایک موقع پر معمر قذافی بھی یہی سمجھتے تھے، یہ تمام لیڈر یہ اہم بات بھولے رہے کہ سیاست مفادات کا کھیل ہے، کوئی کسی کا دوست نہیں ہوتا، ہر ملک کو اپنا مفاد عزیز ہوتا ہے، ایک ملک اسی وقت تک دوست ہے جب تک مفادات اس سے جڑے ہوتے ہیں، مسلمان ایسا کب سوچیں گے۔ امریکہ ہو یا اسرائیل، حکومت کے سربراہ نمائشی چہرے ہوتے ہیں، انہیں سامنے رکھ کر جمہوریت کا الاپ جاری رکھا جاتا ہے، درپردہ نظام حکومت ان کی خفیہ ایجنسیاں چلاتی ہیں، جو مفادات کے زیر اثر کام کرتی ہیں، کبھی کبھار اپنے ہی منتخب صدر یا سربراہ مملکت کو خود قتل کر دیتی ہیں، اس قتل سے کئی فائدے اٹھائے جاتے ہیں، ناپسندیدہ شخص یا آپے سے باہر شخص منظر سے ہٹ جاتا ہے ۔ الزام اس کے مخالفین پر لگا کر اس سے بھی فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔
یہ خفیہ ایجنسیاں جب فیصلہ کریں گی ان کے ایما پر چھیڑی گئی جنگ بند ہو جائے گی، جب تک یہ چاہیں گے دنیا کے کسی کونے میں جاری جنگ بند نہیں ہو گی۔ پسند ناپسند کے کئی درجے ہیں۔ ٹرمپ گزشتہ مرتبہ جب الیکشن جیتا تو یہ بات ہیلری کلنٹن سامنے لائی کہ انتخابی نتائج میں ہیر پھیر روس میں بیٹھ کر آئی ٹی ایکسپرٹ نے کیا۔ اندازہ کیجئے اگر امریکہ میں ہونے والے انتخابات کا نتیجہ روس میں بیٹھ کر بدل سکتا ہے تو ہم جیسے ملک کس گنتی میں آتے ہیں، بات تو صرف اسی شعبے کے انجینئرز کی ٹیم کے ساتھ معاہدے کی ہے، آپ ان سے جو چاہیں اعداد و شمار تبدیل کرا لیں۔ وقت بدلا تو وہی امریکہ یوکرین کے معاملے پر روس کے خلاف کھڑا ہو گیا۔ امریکہ نے روس کے خلاف کھل کر یوکرین کی ہر طرح سے امداد کی۔ امریکہ نے ہنگامی بنیادوں پر یوکرین کیلئے اربوں ڈالر کی امداد منظور کی، اس کے ساتھ ساتھ جب یوکرین کے اسلحہ ڈپو خالی ہونے لگے تو دنیا کے مختلف ملکوں سے وہ اسلحہ بھی اکٹھا کر کے دیا جس کی یوکرین کو اشد ضرورت تھی، اس اسلحہ میں آرٹلری شیل اور راکٹ شامل ہیں۔ جناب اسماعیل ہنیہ کی شہادت کے بعد ایران کی طرف سے اسرائیل کے خلاف ردعمل آنے کے خطرے کے پیش نظر امریکہ نے اعلان کر دیا ہے کہ وہ ایرانی حملے کی صورت میں اسرائیل کا دفاع کرے گا۔ اسرائیل ایران سے دس گنا چھوٹا ملک ہے، یہی تناسب آبادی کا ہے، اسرائیل میں معدنی ذخائر بھی نہیں ہیں، پھر امریکہ کیوں یہودیوں کی پشت پر کھڑا ہے؟، بات آسان فہم ہے امریکہ کی دولت اور انڈسٹری یہودی چلاتی ہیں، اسرائیلی خفیہ ایجنسی ان کے کئی معاملات کنٹرول کرتی ہے، پس دونوں ایک دوسرے کے بغیر نہیں رہ سکتے۔
ایران پر امریکی یا اسرائیلی حملے کی صورت کون سا ملک ہے جو اس کے ساتھ کھل کر کھڑا ہو گا۔ آج دس روز بعد بھی کسی ایک کا اعلان سامنے نہیں آیا، سب حالات کو ٹھنڈا کرنے کی بات کرتے نظر آتے ہیں، جارح کو سبق سکھانے کی بات کوئی نہیں کر رہا، اس سے زیادہ بزدلی کی انتہا کیا ہو گی، بزدل قومیں زیادہ عرصہ تک کرہ زمین پر زندہ نہیں رہ سکتیں، یہی حال بزدل ملکوں اور ان کی بزدل طاقتوں کا ہوتا ہے، جاری دنیاوی فلسفہ یہی ہے طاقتور زندہ رہیں گے، کمزور ختم کر دیئے جائیں۔ پس طاقت حاصل کرنا اور اس کا بروقت استعمال ہی زندگی کی ضمانت ہے، طاقت ہو اور راگ الاپا جاتا رہے کہ ’’ ہم پہل نہیں کریں گے‘‘، اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ ہم میں جان نہیں ہے، یہ جان کر دشمن وار کر جاتا ہے اور بزدلوں کا نام و نشان مٹ جاتا ہے۔ وقت آ گیا ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کیلئے، اسی میں سب کی بقا ہے۔

جواب دیں

Back to top button