ColumnHabib Ullah Qamar

پانچ اگست ، یوم استحصال کشمیر کا اعلان

حبیب اللہ قمر
آل پارٹیز حریت کانفرنس نے جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کیے جانے کے پانچ سال مکمل ہونے پر پانچ اگست کو یوم استحصال اور یوم سیاہ کے طور پر منانے کا اعلان کیا ہے۔ کشمیریوں کی طرف سے سری نگراور دوسرے علاقوں میں احتجاجی ہڑتال اور مظاہرے کیے جائیں گے تو دوسری جانب پاکستان سمیت دنیا بھر میں خصوصی تقاریب اور سیمینارز کا انعقاد ہو گاجن کے ذریعے بھارتی ریاستی دہشت گردی کو دنیا کے سامنے بے نقاب کیا جائے گا۔ گزشتہ برس بھی حریت کانفرنس کی جانب سے احتجاجی کیلنڈرجاری کرتے ہوئے سری نگر کی جانب بڑا احتجاجی مارچ کیا گیااور ہر شہر و علاقے میں سیاہ پرچم لہراتے ہوئے پیغام دیا گیا تھا کہ کشمیر کے بہادر لوگوں کی تحریک آزادی کے ساتھ غیر متزلزل وابستگی بدترین ظلم و دہشت گردی کے باوجود اورزیادہ مضبوط و مستحکم ہوئی ہے اور کشمیریوں کی قربانیوںنے بلاشبہ بھارت کے مذموم منصوبے خاک میں ملا دئیے ہیں۔امسال بھی حریت کانفرنس نے پانچ اگست کی آمد پر احتجاج کا اعلان کیا اورکشمیری تاجروں، ملازمین، دانشوروں، صحافیوں، وکلاء ، مزدوروں اور دوسرے شعبہ جات سے تعلق رکھنے والی تنظیموں اور شخصیات کی جانب سے اس احتجاج کی مکمل حمایت کا اعلان کیاہے توبھارتی حکومت اور فوج نے ان کے خلاف مذموم ہتھکنڈے شروع کر دئیے ہیں۔ نام نہاد سرچ آپریشن کے نام پر جگہ جگہ سے حریت کانفرنس اور انسانی حقوق سے وابستہ کارکنان کی پکڑ دھکڑ شروع کر دی گئی ہے اور انہیں پولیس تھانوں اور ٹارچر سیلوں میں بند کیا جارہا ہے جہاں ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک روا رکھا جارہا ہے۔
کشمیریوں کی طرف سے یوم استحصال کا اعلان مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت والی دفعات ختم کیے جانے کے پانچ سال مکمل ہونے پر کیا گیاہے۔ان دفعات کے تحت کشمیر کی ایک الگ شناخت اور حیثیت تھی جسے مودی سرکار نے ایک غیر قانونی اور غیر آئینی اقدام کے ذریعے ختم کر دیا۔ آرٹیکل 370اور 35اے والی دفعات بھارت کی طرف سے جموں وکشمیر میں آبادی کا تناسب تبدیل کرنے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھیں اور بھارت ہر قسم کی کوششوںکے باوجود اپنے مذموم منصوبوںمیںناکامی سے دوچار تھا۔ اگست 2019ء میں بھارت نے جموںکشمیر کی خصوصی حیثیت والی دفعات ختم کرنے جیسا خوفناک کھیل کھیلا اور مقبوضہ وادی کو دو حصوںمیں تقسیم کر کے وادی کشمیر کو لداخ سے الگ کر دیا گیا۔ یہ دفعات ختم ہونے سے لاکھوںکی تعداد میں غیر کشمیریوںکو اس جنت ارضی میں آباد کرنے کی راہ ہموار ہو گئی اور بھارت اس وقت بڑی تیزی سے ہندوستانی ریٹائرڈ فوجیوں، تاجروں اور دوسرے شعبہ جات سے تعلق رکھنے و الے افراد کو وہاںبسانے کی کوششیں کر رہاہے۔ جموںکشمیر کی خصوصی حیثیت والی دفعات کے تحت کوئی شخص صرف اسی صورت میں جموں کشمیر کا شہری ہو سکتا تھا اگر وہ یہاں پیدا ہوا ہو۔ کسی بھی دوسری ریاست کا شہری جموں کشمیر میں جائیداد نہیں خرید سکتاتھا ، اسی طرح نہ وہ یہاں کا مستقل شہری بن سکتا اور نہ ہی ملازمتوں پر حق رکھتا تھا۔ یہی آرٹیکل 35اے جموں کشمیر کے لوگوں کو مستقل شہریت کی ضمانت دیتا تھا۔آرٹیکل 370کے مطابق یہ طے تھا کہ تین معاملات بھارت کی مرکزی حکومت کے پاس رہیں گے جن میں سیکیورٹی، خارجہ امور اور کرنسی شامل ہیںجبکہ اس کے علاوہ باقی تمام اختیارات جموں کشمیر حکومت کے پاس رہیں گے۔اس آرٹیکل کے خاتمے کے بعد اقوام متحدہ کی جموں کشمیر کے حوالے سے ان قرار دادوں کی رہی سہی اہمیت بھی ختم کرنے کی کوشش کی گئی جن کے مطابق جموں کشمیر کو متنازعہ علاقہ قرار دیا گیا اور پاکستان اور بھارت کو کہا گیا تھا کہ کشمیریوں کو اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے کیلئے رائے شماری کا حق دیا جائے۔ یعنی دیکھا جائے تو یہ دفعات ختم کر کے تحریک آزادی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچانے کی کوشش کی گئی۔ بھارت سرکار نے دفعات ختم کرتے وقت پورے کشمیر کو چھائونی میں تبدیل کر کے حریت کانفرنس کی ساری قیادت کو جیلوں میں ڈال دیا تاکہ کوئی ان کی قیادت نہ کر سکے مگر آفرین ہے کشمیریوں پر کہ وہ سبھی کشمیری رہنمائوںکے جیلوں میں بند ہونے کے باوجود انتہائی منظم انداز میں تاحال جدوجہد آزادی جاری رکھے ہوئے ہیں اور بھارت ہر قسم کے حربے آزمانے کے باوجود کشمیریوں کو جھکانے میں کامیاب نہیں ہو سکا۔
پانچ اگست کے متنازعہ اقدام کے بعد پاکستان کی طرف سے بین الاقوامی سطح پر مظلوم کشمیریوں کے حق میں بلاشبہ بھرپور آواز بلند کی گئی جسے کشمیری عوام نے بھی سراہااور انہیں یہ بات محسوس ہوئی کہ وہ تنہا نہیں ہیں بلکہ پاکستان مکمل طور پر اہل کشمیر کی جدوجہد آزادی کے ساتھ ہے اور ان کی ہر ممکن مددوحمایت جاری رکھے گا۔ افسوس کی بات ہے کہ پاکستان میں ان دنوں کشمیریوں کی تحریک آزادی کے حوالے سے کوئی سرگرمی دیکھنے میں نہیں آ رہی۔ سبھی سیاسی لیڈر ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے اپنا سارا زور لگانے میں مصروف ہیں۔ انہیں کوئی فکر نہیں ہے کہ حالیہ دنوں میں بھارت کس طرح جموں کشمیر میں مسلسل غیر قانونی حرکتوں کا ارتکاب کر رہا ہے۔ مودی حکومت نے گزشتہ برس پندرہ اگست کو نام نہاد یوم آزادی کے موقع پر مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی ترنگا لہرانے کا اعلان کیا تھا اور اس حوالے سے کشمیری تاجروں کو مجبور کیا جاتا رہاکہ وہ بیس روپے فی ترنگا کے حساب سے پیسے جمع کرائیںاور یہ جھنڈے خرید کو لوگوں میں تقسیم کئے جائیں۔کشمیری عوام کی جانب سے اس مہم کو ناکام بنادیا گیا اور سرکاری عمارتوں کے علاوہ کسی جگہ بھارتی ترنگا لہرانے کا خواب پورا نہیںہو سکا تھا۔ امسال بھی بھارتی حکومت ایسی ہی مذموم کوششوں میں مصروف ہے۔بھارت سرکار کی طرف سے حالیہ دنوں میں کئی ایک ایسے اقدام ہیں جو کشمیریوں کی تحریک آزادی کے خلاف اٹھائے گئے ہیں لیکن پاکستانی حکومت کی جانب سے بھارت کے خلاف زوردار آواز بلند نہیں کی جا سکی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ جن کے ایجنڈے میں بھارت سے تجارت اور دوستی شامل ہو اور اقتدار سنبھالتے ہی جن کی طرف سے سب سے پہلے بھارت کی جانب دوستی کا ہاتھ بڑھانے کی باتیں کی جائیں۔ (باقی صفحہ5پر ملاحظہ فرمائیں)
ان سے جدوجہد آزادی کشمیر کے حوالے سے کسی مضبوط کردارکی توقع نہیں کی جاسکتی۔
تنازع کشمیر سات دہائیوں سے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایجنڈے پر موجود ہے۔ بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ متنازعہ علاقہ میں اگر غاصب بھارت کشمیریوں کی نسل کشی اور انسانی حقوق کی پامالیوں سے باز نہیں آرہا تو اس درندگی کے خلاف آواز اٹھانا حکومت پاکستان کی بنیادی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔ کشمیری عوام پاکستان کو اپنا سب سے بڑا وکیل سمجھتے ہیں اوران کی امید بھری نظریں ہمیشہ پاکستان کی جانب ہوتی ہیں۔حالیہ دنوں میں جب پوری کشمیری قوم پاکستان کے یوم آزادی پر کشمیر کے گلی کوچوں میں وطن عزیز کا سبز ہلالی پرچم لہرانے کی تیاریاں کر رہی ہے، پاکستان کو بھی مظلوم کشمیریوں کا ہر ممکن طریقے سے ساتھ دینا چاہیی۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا۔ اس لحاظ سے مظلوم کشمیریوں کی ہر ممکن مددوحمایت کرنا پاکستان کی ریاستی پالیسی ہونا چاہیے اور ہمیں اپنی قومی کشمیر پالیسی پرہر صورت کاربند رہنا چاہیے تاکہ کشمیریوں کو حوصلہ ملے اور ان کی تحریک آزادی کو کمزور کرنے کی بھارتی سازشیں ناکام بنائی جا سکیں۔ حکومت پاکستان کو پانچ اگست یوم استحصال منائے جانے کے موقع پربھی مظلوم کشمیریوں کے حق میں تمام بین الاقوامی فورمز پر بھرپور آواز بلند کرنی چاہیے۔بھارت کی جارحانہ پالیسیوں کے نتیجہ میں کشمیریوں کی جدوجہد آزادی دن بدن اور زیادہ مضبوط ہو رہی ہے اور وہ وقت دور نہیں ہے جب جنت ارضی کشمیر کو بھارت کے غاصبانہ قبضہ سے نجات ملے گی اور کشمیری عوام ان شاء اللہ آزاد فضا میں سانس لے سکیں گے۔

جواب دیں

Back to top button