Column

آئی پی پیز کی بدمعاشیاں اور حکومتی کارندے

شکیل امجد صادق

بجلی کے حالیہ بلوں میں بے تحاشہ اضافے کی ذمہ دار ماضی کی نالائق حکومتیں، نام نہاد ان پڑھ وزیر و مشیر اور انڈی پینڈنٹ پاور پروڈیوسرز ( آئی پی پیز) ہیں۔ ان کے ساتھ کئے گئے معاہدوں اس ملک کی عوام کے خون کا آخری قطرہ تک بھی نچوڑ لیں گی۔ ماہرین کے مطابق آئی پی پیز سے کئے گئے معاہدے 2050تک چلیں گے اور واضح رہے کہ یہ کمپنیز بجلی پیدا کریں یا نہ کریں۔ ان کو طے شدہ رقم دینی پڑے گی۔ آخر اس کا حل کیا ہے؟ اس سلسلے میں ماہرین کا کہنا ہے کہ مذکورہ مسئلے کے حل کیلئے آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر نظرثانی کی شدید ضرورت ہے؟ اور ان کی کرپشن کو بے نقاب کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ اس کا طریقہ کار یہ ہے کہ سب سے پہلے حکومت اس بات کا تہیہ کر لے کہ کسی بھی آئی پی پی کے ساتھ کئے گئے معاہدے کی مدت میں توسیع نہیں کی جائے گی۔ انہیں کسی قسم کی رعایت نہیں دی جائے گی؟ انہیں کی معاملے میں کرپشن نہیں کرنے دی جائے گی؟ ان سے معاہدہ کرنے میں عوام کی معاشی حالت کو مدنظر رکھا جائے گا؟ معاہدگان اپنا کمیشن کھرا نہیں کریں گے؟ اس طرح کی افواہیں بھی گردش کر رہی ہیں کہ جن آئی پی پیز کے معاہدوں کی مدت پوری ہونے والی ہے یا ہوچکی ہے ان میں توسیع کی گنجائش نکالی جائے گی مگر ایسا ہر گز نہ کیا جائے؟
یہ بات ٹھیک ہے کہ کوئی بھی معاہدہ یکطرفہ طور پر منسوخ نہیں کیا جاسکتا لیکن ان معاہدوں کو ان پیرا میٹرز کے اندر استعمال کیا جاسکتا ہے جیسے کہ ان آئی پی پیز کے پیچھے کون سی طاقتیں ہیں اس کے ساتھ ساتھ ان کمپنیز کے ہیٹ آڈٹ، ٹیکس اور فرانزک آڈٹس کئے جائیں۔ ہیٹ آڈٹ سے مراد یہ ہے کہ مثال کے طور پر اگر کوئی بجلی گھر 10میگا واٹ بجلی بنا سکتا ہے لیکن کاغذات میں اس نے 15میگاواٹ لکھا ہوا ہے، اسی صورت میں ان پر ہاتھ ڈالا جاسکتا ہے، اگر حکومت ایسا نہیں کر پاتی یا ان سے بات نہیں کرتی تو یہ لوگ حکومت کو عالمی قوانین سے ڈراتے رہیں گے اور اپنا مال کھرا کرتے رہیں گے؟
اس تمام صورتحال کے باوجود آئی پی پیز کے عہدیداران ٹی وی پر آکر ان کے ترجمان بنے ہوئے ہیں۔ وہ ان کے ترجمان نہ بنیں بلکہ وہ عوام کے ترجمان بنیں۔ اب دیکھیں کہ آئی پی پیز نے جنم کہاں سے لیا ہے۔ 1994ء میں بے نظیر نے ایک سینئر بیوروکریٹ کے کہنے پر واپڈا کو کئی پاور کمپنیوں میں تقسیم کرنے اور پھر بجلی کی کمی کو پورا کرنے کے لئے پرائیویٹ سرمایہ کاروں کے 15آئی پی پیز کو متعارف کرایا اور یہ کہ حکومت پابند ہوگی کہ پیداواری صلاحیت کے مطابق بجلی کی قیمت ادا کرے گی چاہے حکومت پوری بجلی خریدے یا کم۔۔۔ 2002ء میں مشرف نے مزید 15آئی پی پیز متعارف کرائیں۔۔ 2004ء میں مشرف اور شوکت عزیز نے 38مزید آئی پی پیز کو ڈالر چھاپنے کے لائیسنس بانٹے۔2015 ء میں نواز شریف نے درآمدی کوئلے اور LNGسے چلنے والے 7آئی پی پیز متعارف کروائے۔ اب آئی پی پیز کی تعداد 101ہو چکی ہے۔۔ پاکستان میں بجلی کی کھپت 31000میگا واٹ ہے لیکن ان ’’ جونکوں‘‘ کی شکل میں آئی پی پیز کی پیدا واری صلاحیت 41557میگا واٹ ہے۔۔۔ ان کمپنیوں میں چین کی کمپنیاں بھی شامل ہیں۔ ان آئی پی پیز میں کئی بند پڑی ہیں لیکن ان کو ادائیگی باقاعدہ ہو رہی ہے اس ادائیگی میں وہ اپنے سٹاف کو تنخواہیں مفت میں دی جاری ہیں اور باقی پیسہ ڈکارا جا رہا ہے۔۔۔ 10557میگا واٹ زائد بجلی جو کہ پیدا بھی نہیں کی جاری ہے لیکن معاہدوں کے مطابق ان کو پیسہ ڈالروں میں دیا جارہا ہے۔۔۔۔ عوام سے 10557میگا واٹ بجلی کے پیسے بھی پتہ نہیں کب سے لئے جا رہیں ہیں۔۔۔ 1۔ عوام سے پیسے بجلی چوری کے بھی لئے جارہے ہیں ۔۔۔ 2۔ عوام سے مفت استعمال کرنے والے ججز، جنرلز، بیوروکریٹس، واپڈا کے آفیسرز اور پارلیمنٹرینز کی بجلی کے بھی پیسے لئے جارہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب عوام کے پاس کئی آپشن ہیں۔۔۔ 1۔ بجلی استعمال کرنا بند کر دیں اور گرمی میں جھلستے جھلستے مر جائیں۔۔۔2۔ بجلی کے بلوں کی ادائیگی بند کر دیں۔۔۔ 3۔ سیاست دانوں ( نون لیگی، پیپلئے اور انصافیئے ) جن کے دور میں ایسا ہوتا رہا ہے۔۔۔ ان کے حمایت کرنا بند کر دیں۔ یہ آئی پی پیز بجلی پیدا نہ بھی کریں تو انہیں پھر بھی اربوں روپے ادا کیے جاتے ہیں، کئی سو کھرب روپے کا گردشی قرضہ اس کے علاوہ ہے، اس قرضے کو ختم کرنے یا منجمد کرنے کیلئے ریاست بجلی کی بنیادی ٹیرف میں مزید اضافہ کر دیتی ہے۔ مثال کے طور پر اگر اس وقت ساٹھ روپے فی یونٹ ہے تو اس میں سے اڑتیس روپے کیپسٹی پیمنٹ کی مد میں دیئے جاتے تھے، یعنی پاور پلانٹ بجلی پیدا کرے یا نہ کرے اسے اڑتیس روپے فی یونٹ پیداواری صلاحیت کے مطابق ادا کیے جائیں گے۔ اس طرح یہ لوٹ کھسوٹ کا سلسلہ جاری ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق رواں سال جنوری سے مارچ تک کے عرصے میں ہر ماہ 150ارب روپے کپیسٹی چارجز کی مد میں ادا کیے گئے، ان آئی پی پیز کو 3ماہ میں مجموعی طور پر 450ارب روپے ملے لیکن چار پاور پلانٹس ایسے بھی ہیں جنہوں نے ایک یونٹ بھی بجلی پیدا نہیں کی انہیں بھی ایک ہزار کروڑ روپے ادا کیے گئے۔ حالیہ رپورٹ کے مطابق ان تمام پاور پلانٹس میں سے 52فیصد حکومت اور 28فیصد نجی شعبے کی ملکیت ہیں اور اس وقت تین پلانٹس بالکل بند پڑے ہیں۔ جس میں حبکو، حبیب اللہ کوسٹل پاور کمپنی اور تیسرے نمبر پر کیپکو پاور پلانٹ ہے۔ ان مرضی کی پالیسیاں منظور کروانے والے طاقتور خاندان شامل ہیں۔
دیگر سیکٹرز کی طرح آئی پی پی سیکٹر میں بھی 40خاندانوں کے نام نمایاں ہیں، یہ خاندان اتنے طاقتور ہیں کہ حکومتوں سے اپنی مرضی کی پالیسیاں منظور کراتے ہیں اور غریب عام کی زندگیوں کو اجیرن بنانے اور ان کا خون چوسنے میں اہم کردار کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

Back to top button