رَفُوْگَری سے کام نہیں چلے گا

تجمل حسین ہاشمی
ٹیکنالوجی کا ٹچ موبائل جس نے 25کروڑ لوگوں کو چکرا کر رکھ دیا ہے۔ یہ تو کچھ بھی نہیں، تیز ترین ٹیکنالوجی پوری دنیا کی شکل بدل دے گی لیکن ہماری طرح کے ترقی پذیر ممالک اس دور میں بھی کشکول کے سہارے زندہ رہیں، گے جس قوم کے لیڈروں کی ترجیحات ذاتی ہوں، جن کے مقاصد ملکی نہیں ذاتی ہوں تو پھر جمہوریت کا حال مزید خراب ہوگا، ایک سوچ پیدا کی جارہی ہے کہ سوشل میڈیا سے مقتدر حلقے خوف زدہ ہیں۔ حقیقت میں مقتدر خوف زدہ نہیں ہیں بلکہ فیک میٹریل جھوٹا پروپیگنڈا ملکی سلامتی کیلئے خطرہ ہے۔ ٹیکنالوجی کے حصول میں آسانیوں کیلئے نوجوانوں کو فری کورسز کرائے جارہے ہیں۔ ان پراجیکٹس میں مالی معاونت بھی کی جارہی ہے۔ لیکن ابھی تک حکومتوں نے معاشرہ کی معاش، ان کی ضروریات کو وقت کے مطابق استوار نہیں کیا بلکہ اقتدار سے زیادہ اختیار کی جنگ میں الجھے رہے بلکہ ابھی بھی شدت میں مسلسل اضافہ ہورہا۔ چند دنوں بعد ہم 77ویں سالگرہ منانے جارہے ہیں۔ ہمارے مسائل وہی کے وہی کھڑے ہیں۔ انٹرنیشنل شہر کراچی اس وقت کھنڈرات کا منظر پیش کر رہا ہے۔ چند سال میں ٹیکنالوجی سے استفادہ دور کی بات ہے یہاں لوگوں بجلی کے بل کی اقساط کرانے کیلئے سارا دن لائن میں کھڑے رہتے ہیں۔ ہمارے قریبی دوست سعودی عرب ویژن 2030کیلئے دنیا بھر کے افراد کو اپنے ہاں نیشنلٹی دے کر کامیاب افراد کو متوجہ کر رہا ہے۔ ان 76سالوں میں کرپشن اور احتساب کے نعروں پر برسر اقتدار آنے والے آمر اور جمہوری پارٹیوں نے ایک دوسرے کیخلاف درجنوں مقدمات کی سیریز قائم کی ہوئی ہے ۔ اقتدار اور اختیار کی جنگ میں ابھی تک کمی نہیں ہوئی بلکہ اس میں مزید اضافہ ہورہا ہے۔ ایک سیاسی جماعت نے 76سالوں کے گندے پوتڑے چوک میں کھول دیئے ہیں۔ دو تہائی اکثریت والے نے ایسے منصوبے دیئے جن کی وجہ سے قوم دو وقت کی روٹی سے محروم ہیں۔ بجلی کے بلوں کی ادائیگی کیلئے اپنے ضمیر کو بیچ رہے ہیں۔ دولت کی غیر مساوی تقسیم گلی محلوں میں تفریق کو جنم دے رہی ہے۔ میرے مطابق یہ طوفان تھمنے والا نہیں ہے۔ ہمارے ہاں تعلیم کی کمی رہی لیکن تیز ترین ٹیکنالوجی نے بڑی تیزی سے فرد کی سوچ کو تبدیل کر دیا ہے۔ ایسی صورتحال میں نہ چاہتے ہوئے بھی انسان اس سوچ کا حصہ ہے کیوں کہ وہ کئی سالوں سے بنیادی سہولتوں سے محروم ہے اور طاقتور کی لوٹ مار جاری ہے، جس سے لسانیت، لاقانونیت کی آبیاری ہورہی ہے، جس سے نفرت جنم لے رہی ہے کیوں کہ اس مہنگائی، ناانصافی سے تمام معاشرتی طبقات شکار ہیں۔ معیشت پر اس کے خطرناک اثرات ہیں، اس جرم کی حکومت خود مرتکب ہے۔ وہ لیڈر مجرم ہیں جنہوں نے مظلوم طبقہ کیلئے کچھ نہیں کیا۔ آج IPPsکے ساتھ معاہدوں سے قوم مر رہی ہے۔ افسر شاہی کو تو یوٹیلٹیز میں مراعات ہیں۔ سپریم کورٹ اپنا کردار ادا کرے اور ان معاہدوں کے کینسل کا آرڈر جاری کرے جیسے کہ بنگلہ دیش سپریم کورٹ نے بھی (کوٹہ سسٹم) سٹوڈنٹ کے مطالبہ کے حق میں فیصلہ دیا ہے۔ 17 کروڑ کی آبادی والے ملک میں تین کروڑ نوجوان بے روزگار ہیں جن کا مطالبہ تھا کہ کوٹہ سسٹم کو ختم کیا جائے۔ پاکستان کے حوالہ سے موڈیز کی رپورٹ میں لکھا ہے، مشکل اصطلاحات کو مسلسل نافذ کرنے کا مضبوط انتخابی منڈیٹ نہ ہونا خطرات پیدا کر سکتا ہے۔ موڈیز کی رپورٹ کے مطابق مہنگائی، زیادہ ٹیکسز، توانائی کی قیمتوں میں اضافہ کمزور گورننس اور سماجی تنائو حکومتی اصلاحات کو آگے بڑھانے کی صلاحیت کو متاثر کر سکتا ہے۔ چند سالوں سے دنیا بھر میں ایک لہر جنم لے رہی ہے جس میں سرمایہ دارانہ نظام ناکام ہورہا ہے۔ سماجی تنائو نے اپنے سگوں میں دوریاں پیدا کردی ہیں۔ ہمارے ہاں منتخب ہونیوالوں نے سب سے زیادہ غیر مساوی تقسیم کی پرورش کی ہے، جس سے غربت میں اضافہ ہوا اور وہ آج بھی اپنی تسکین میں ہیں۔ اصلاحات غربت سے پیدا ہونیوالی مایوسی کو ختم نہیں کر سکیں گی۔ مسئلہ اصلاحات نہیں مسئلہ لوگوں کے روزگار اور بنیادی سہولتوں کے فقدان کا ہے۔ ملک میں قائم بادشاہت نے سماجی تنائو میں اضافہ کیا ہے۔ ان کے فیصلوں سے یہ نوبت آگئی ہے۔ دنیا بھر میں لوگ اپنے ملک کے شہری ہونے پر فخر کرتے ہیں اور ہمارے ہاں اپنی ہی شہریت سے مایوسی ہے۔ مقتدر اداروں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ یہ ان مافیا اور غیر ملکی طاقتوں کی پلاننگ ہی کہ عوام کو مقتدر اداروں کے سامنے کھڑا کیا جائے۔ اس منفی سوچ کی پیدائش کو ختم کرنا حکومتوں کا بنیادی ذمہ ہے۔ جس پر حکومت کی طرف سے کوئی کام نہیں کیا گیا۔ ریاست کے تمام شعبے اس وقت طاقتوروں کے سامنے بے بس ہیں۔ اقتدار یا اختیار کی جنگ 25کروڑ لوگوں میں منفی رجحانات کو بڑھاوا دے رہی ہے۔ اس کی روک تھام کیلئے اب موسیٰ کی ضرورت ہے۔