Column

چڑیوں کو بڑا پیار تھا 

صفدر علی حیدری

جنگلات کسی ملک کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں ۔ کسی بھی خطے کی آب و ہوا کو متعدل رکھنے میں ان کا مثالی کردار کسی سے ڈھکا چھپا ہوا نہیں ۔ تازہ ہوا کی مسلسل ترسیل کی وجہ سے انھیں قدرت کے پھیپھڑے بھی کہا جاتا ہے۔
پاکستان میں جنگل بانی لکڑی ،کاغذ ، لیٹکس اور طب جیسے دیگر اہم اشیاء کا ذریعہ ہے ۔ پاکستان کے کُل رقبے کا صرف 4 فیصد جنگلات ہیں جو زیادہ تر شمالی حصے میں واقع ہیں۔پاکستان میں جنگلات سے مختلف قسم کے اشیاء حاصل کیے جاتے ہیں جن میں لکڑی ، طب ، لیٹکس ، فیول وڈ اور کاغذ جیسی اہم اشیا شامل ہیں ۔ اس کے علاوہ جنگلات بہت سے انسانوں اور جانوروں کے خوراک کا ذریعہ بھی ہیں ۔ جنگلات جانوروں کے زندگیوں کو تحفظ دیتے ہیں اور انسانی صحت میں انتہائی اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔ جو علاقے جنگلات کے زیادہ قریب ہوتے ہیں ان میں باقی علاقوں کے بہ نسبت بیماریاں بہت کم پائے جاتے ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ جنگلات ماحول سے آلودگی جیسے ناسور سے ماحول کو بچاتے ہیں ۔
بین الاقوامی یومِ جنگلات ہر سال 21مارچ کو منایا جاتا ہے ۔ ہر سال یہ دن اقوام متحدہ جنرل اسمبلی قرارداد کی روشنی میں منایا جاتا ہے۔۔ اس دن کو منانے کا مقصد انسانی زندگی میں جنگلات کی اہمیت کے بارے لوگوں کو آگاہ کرنا ہے۔۔ جنگلات جو نہ صرف انسانی ماحول میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں اور جن کی انسانی صحت پر گہرے اثرات ہوتے ہیں بلکہ گلوبل وارمنگ جیسے اہم او سنگین مسئلہ کو کم کرنے میں بھی جنگلات کا اہم کردار ہوتا ہے۔ اسی مناسبت سے عالمی طور پر یہ دن منایا جاتا ہے ۔
ایتھوپیا میں جب قحط نے پنجے گاڑے تو اس کی بنیادی وجہ تلاش کی گئی جس کے بعد ماحولیاتی تھنک ٹینک اس نتیجے پر پہنچا کہ ایتھوپیا میں جنگلات کا خاتمہ ہی قحط کا سبب بنا ۔ عالمی سطح پر درختوں کی کٹائی میں 1852ء میں تیزی آئی اور ماہرین کے مطابق 2030تک کرہ ارض پر جنگلات کا صرف 20فیصد رہ جائے گا ۔ جنگلی حیات اور پرندوں کی ہزاروں انواع و اقسام ناپید ہو جائیں گی ۔ ان برسوں کے دوران جنگلات کا 60فیصد رقبہ کم ہوا ۔یہ جنگلات کی تباہی کا ہی شاخسانہ ہے کہ اوزون کی تہہ باریک ہوتی جارہی ہے اور کرہ ارض کے درجہ حرارت کو ناقابل تلافی حد تک نقصان پہنچا ہے ۔ درجہ حرارت بڑھنے کی بنیادی وجہ ہر برس 41ہزار ہیکٹرز پر محیط اشجار کے کٹنے کو قرار دیا جارہا ہے۔ جنگلات کے کٹنے سے جہاں ایک طرف فضا میں کاربن ڈائی آکسائیڈ کی مقدار کم ہوتی ہے دوسری طرف یہ جنگلات کے ذخیرے پہاڑوں پر جمی برف کو تیزی سے پگھلنے سے روکنے کا ذریعہ ہیں ۔ کسی بھی ملک کی متوازن معیشت کا انحصار 20فیصد رقبہ پر جنگلات کے پھیلائو پر ہے ۔ وطن عزیز میں ایسا نہیں ہے ۔ یہاں جنگلات کا کل رقبہ 42.240 کلو میٹر تھا اس وقت اس میں خاصی کمی آچکی ہے ۔یعنی 5فیصد رقبہ پر جنگلات تھے وہ اب گھٹ کر 3فیصد رہ گئے ہیں۔1990ء اور 2010ء کے درمیان پاکستان کے جنگلات میں 33.2 فیصد کمی آئی ۔ 1948ء میں آزاد کشمیر کے کل رقبہ کا 48 فیصد جنگلات پر مشتمل تھا جو اب 39 فیصد رہ گیا ہے ۔ قابل غور بات یہ ہے کہ آزاد کشمیر کے سالانہ بجٹ کا 60 فیصد جنگلات سے حاصل ہوتا ہے ۔
اس کا پس منظر یہ نہیں کہ آتش زدگی ، نباتاتی بیماریوں اور دیمک وغیرہ نے ان اشجار کو نگل لیا ان سے تو محض 6 فیصد جنگلات کم ہوئے باقی 94 فیصد تو ٹمبر مافیا کے ہاتھوں اجڑے ۔ اللہ کرے کہ بلین ٹری کا خواب بھی ٹمبر مافیا سے محفوظ رہے ۔ جس ٹمبر مافیا نے وسیع و عریض رقبہ پر ایستادہ جنگلات کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر وطن عزیز کو موسمیاتی تغیر کی طرف دھکیلا ، سبزے کے خاتمے کا سبب بنا اس کی تعبیر میں مزاحمت بن کر نہیں کھڑا ہوا ؟ بلکہ کھڑا ہے ، اس کی نظر ان نئے ابھرتے ہوئے جنگلوں پر بھی ہے ۔ ہماری آنے والی نسلیں جنگلات کی وسیع پیمانے پر کٹائی سے نہ صرف آکسیجن سے محروم ہو رہی ہیں بلکہ ل بارشوں کے تسلسل میں تعطل آگیا ہے ۔ لاہورمیں چند سالوں کے دوران 40 ہزار درخت کاٹے گئے جس سے نہ صرف لاہور کے ماحول پر اثرات بد مرتب ہوئے بلکہ پانی کی سطح بھی نیچے گر گئی، سا نس کی بیماریوں کی بہتات کے ساتھ ساتھ فضائی آلودگی میں اضافہ ہو رہا ہے ، کیا جنگلات کی تباہی اس خواب کی تعبیر کی تکمیل ہونے دے گی ؟۔
22کروڑ آبادی والے ملک میں ہر سال 11 کروڑ درخت لگانے کا شعور دینا ضروری ہے اس لئے کہ جنگلات ہمارا  اثاثہ ہیں ،جنگلات کی بقا اور رونقیں ہمارے ماحولیاتی حسن اور مستقبل کی ضامن ہیں ۔ لیکن جب ہم ماضی میں جھانکتے ہیں تو جنوبی پنجاب میں ضلع لیہ میں 46 ہزار ایکڑ وسیع و عریض رقبہ پر ایک گھنا جنگل تھا ، اب یہ تصور میں ہی ملتا ہے۔ چند سالوں میں ٹمبر مافیا اور محکمہ جنگلات کے اہلکاران کے گٹھ جوڑ نے ایشیاء کے اس تیسرے بڑے گھنے جنگل کی تباہی و بربادی کی جس طرح داستاں رقم کی اُسے ایک میگا کرپشن کی مثال بناکر پیش کیا جا سکتا ہے ۔ یہاں شیشم جیسے قیمتی درخت کواُس وقت نیپال سے درآمد کرکے لگایا گیا جب وطن عزیز میں ذرائع آمدورفت کیلئے کوئلے سے چلنے والی ریل گاڑی آمدورفت کا ایک اہم ذریعہ تھا ۔ یہ جنگل قیام پاکستان سے پہلے لگایا گیا ۔ شیشم کے اس قیمتی درخت کو ریسرچ نہ ہونے کی بنا پر ایک مخصوص بیماری گھن کی طرح کھا رہی ہے وہاں یہ نایاب درخت اپنے محافظوں کی کرپشن اور ٹمبر مافیا کے ہاتھوں بھی ایک عبرت ناک انجام سے دوچار ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد شیشم کا قیمتی درخت جس میں فی کس درخت کی مالیت 3 لاکھ سے کم نہ تھی ایک عشرہ قبل فاریسٹ اہلکاروں کی کرپشن کی خوراک کی زد میں آنے لگا ۔ ماچھو اور عنایت ڈویعن میں بعض اہلکاروں کی سرپرستی میں ٹمبر مافیا نے 30سے زائد آرے لگالئے جن کی مدد سے قیمتی لکڑی کا بے دردی سے کٹائو شروع ہو گیا ،روزانہ کی بنیاد پر سینکڑوں شیشم کی قیمتی لکڑی سے لوڈ ٹرک مختلف شہروں میں فروخت ہونے لگے ۔وہ گھنا جنگل جہاں دن کے وقت رات کا سماں ہوتاتھا جنگلی حیات ہرن ،نیل گائے ، بارہ سنگھا جیسے جانوروں کی بہتات تھی جنگلی حیات کی یہ بڑی پناہ گاہ جب اپنوں کے ہاتھوں برباد ہوئی تو جنگلی حیات کا بھی نام و نشان نہ رہا ۔ چٹیل میدان میں تبدیل ہونے لگا ۔ بالآخر تاحد نظر محض دس برسوں میں صحرا نے لے لی وہ افراد جن کے پائوں میں دس برس قبل جوتا تک نہیں تھا ٹمبر مافیا کا روپ دھار کر کروڑوں پتی بن چکے ہیں اور آج اُن کرپٹ افراد کا شمار معززین میں ہوتا ہے۔ واضح ثبوت ہونے کے باوجود اہلکاروں کے خلاف کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی جاسکی۔
،حالانکہ کروڑوں کے بنگلے ، بڑی بڑی گاڑیاں کرپشن کا واضح ثبوت ہیں۔وہ اپنی سرپرستی میں ٹمبر مافیا سے رات کے اندھیرے میں درخت کٹواتے رہے ،بعض فاریسٹ اہلکاران مافیا سے لاکھوں روپے لے کر درختوں کو ’’ ڈیمیج ‘‘ لکھ کر رپورٹ بھجوا دیتے ۔1996 میں ضلع بھر میں بہنے والی 42 انہار کے کناروں پر کھڑے درختوںکو محکمہ آبپاشی نے محکمہ جنگلات کی تحویل میں دے دیا ۔ ان انہار کے کنارے کروڑوں کے درختوں کی لمبی قطاریں تھیں ، آج حالت یہ ہے کہ ان انہار کے کنارے کسی ذی روح کے سستانے کیلئے ایک بھی شجر سایہ دار نہیں ملتا ۔
بہاولپور میں لال سوہانرا کے نام سے جنگلات کا ایک بڑا قطعہ اراضی جس کا رقبہ 162568ایکڑ ہے یہ قدرتی جنگل تھا جسے اب ’’ ذخیرہ‘‘ کہا جا سکتا ہے کیونکہ اس کا ’’ قتل عام‘‘ ایک عرصہ سے مسلسل جاری ہے یہاں سے قیمتی درخت کاٹ کر ملک کے دیگر شہروں میں ٹرک کے ٹرک لوڈ کرکے بیچے جارہے ہیں ۔1967 میں لال سوہانرا کا سروے شروع کیا گیا اور ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں 1972 میں اس کی منظوری دی گئی ۔ 1978ء میں یہاں نیشنل پارک قائم کیا گیا ۔ 4780 ایکڑ رقبہ پر ایک جھیل بھی بنی جہاں ہر سال لاکھوں روپے کی مچھلی فروخت کی جاتی ۔ ہزاروں سیاح یہاں نظارہ کرنے آتے ہیں ، ایک چڑیا گھر میں نایاب پرندے ،جانور موجود ہیں مگر جب سے اس کا انتظام و انصرام محکمہ جنگلات کے سپرد ہوا ہے تو قیمتی درختوں کی نہ صرف کٹائی شروع ہوئی بلکہ قیمتی جانور اور پرندے بھی چوری ہونے لگے ۔
بہاولپور ہی میں ہی بلاک آفیسر سلیم جہانگیر نے ڈیزرٹ برانچ راجہ والا بیٹ پر درختوں کی چیکنگ کی تو اس دوران مذکورہ بیٹ سے 90لاکھ 49ہزارروپے مالیت کے درختوں کے نقصان کی رپورٹ دی ۔ اُنہوں نے انکوائری نمبر 455/bwpمورخہ 27دسمبر2010ڈی ایف او کے حوالے کر دی۔ اس بیٹ میں محمد آصف فاریسٹ گارڈ تعینات تھا بیٹ راجہ والا ،نہڑ والی میں ایس ڈی ایف او نے انکوائری نمبر 369/bwpمورخہ 27نومبر 2010ڈی ایف او کو روانہ کی۔ نقصان کا تخمینہ 1کروڑ 1لاکھ 33ہزار 1سو ساٹھ روپے لگایا ۔ڈیر اور مٹھڑا بیٹ کی چیکنگ بلاک آفیسر کی نگرانی میں کرائی گئی جس میں 77لاکھ 58 ہزار روپے کی کرپشن ثابت ہو گئی ۔متعلقہ بلاک آفیسرنے 213400روپے کے قیمتی درخت کٹوائے چوری پکڑی جانے کے بعد سپرد داری پر رکھوادیئے دوبارہ معاملہ ٹھنڈا ہونے پر ریکارڈ میں اندراج کئے بغیر فروخت کر ڈالے ایک آفیسر نے کروڑوں روپے کی کرپشن چھپانے کیلئے مختلف افراد کے خلاف مقدمات درج کرائے جن میں سے کئی ایسے مقدمات کا حوالہ محکمہ جنگلات کے ریکارڈ میں دیا گیا جن کا لکڑی چوری سے کوئی واسطہ تعلق نہ ہے تھانہ بغداد الجدید میں 554؍9موٹر سائیکل ڈکیتی کا مقدمہ درج ہے جبکہ ملازمین نے اس ایف آر کا حوالہ دیکر درخت چوری ہونا ظاہر کیا ۔درختوں کی مالیت 168900 روپے بتائی گئی ۔ اسطرح جن گیارہ مقدمات کا حوالہ دیا گیا ہے ان مقدمات کے مطابق درخت چوری ہونے کی مالیت 1586740روپے بنتی ہے جبکہ ماسٹر رجسٹر میں نقصان کی مالیت 5769740روپے ظاہر کی گئی ہے۔ ایف آئی آر اور ماسٹر رجسٹر ریکارڈ میں 4346310روپے کا فرق ہے۔ اس فرق کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے ملازمین نے درخت غائب کر دیئے۔ مقدمات کی عدم پیروی کی وجہ سے ملزمان بھی بچ نکلے۔ سابقہ دور حکومت میں پانچ کروڑ کی کرپشن بارے سیکریٹری جنگلات پنجاب کو ثبوت بھیجے گئے مگر کوئی نوٹس نہیں لیا گیا۔
مہاڑ کے علاقہ کے  میں آتش  زدگی سے پہاڑ ویران ہو گئے ۔بے شمار تیتر اور چکور جنہیں مہاڑ کی زبان میں ’’ کونک‘‘ کہا جاتا ہے اس آگ کی زد میں آئے اور جل کر راکھ ہوگئے اب ان کی صدائو ں کو کان ترس گئے ہیں اکثر اوقات سیاحوں کی بڑی تعداد پہاڑی علاقوں کا رخ کرتی ہے اور جلتا ہوا سگریٹ پھینک دینے سے آتشزدگی کے واقعات جنم لیتے ہیں جنگلات کے بچائو میں مقامی افراد کا رول انتہائی اہم ہوتا ہے کیونکہ بعض علاقے ایسے ہیں جہاں ریسکیو اور ایمرجنسی کی سہولیات کا فقدان ہے اور ادارے بھی اپنا کردار ادا کرنے میں ناکام نظر آتے ہیں مشاہدہ میں آج تک نہیں آیا کہ کسی ادارہ نے مقامی طور پر درختوں کی حفاظت کیلئے لوگوں میں شعور اجاگر کرنے کی ضرورت محسوس کی ہو اس کے علاوہ ماحول بچانے کیلئے کام کرنے والی تنظیموں نے بھی کبھی ماحولیاتی بحرانوں پر بحث کرنے کی کاوش ہی نہیں کی اکثر اوقات درختوں کے کٹائو میں حکمرانوں کا عمل دخل بھی رہا 13مارچ 2013کو راجہ پرویز اشرف نے گلگت بلتستان میں درختوں کی کٹائی پر عائد پابندی اٹھانے کے احکامات جاری کئے بعد ازاں پابندی تو بحال کردی گئی مگر تب تک دیامر اور ملحقہ علاقوں کا ایک بڑا حصہ جنگلات سے محروم ہوچکا تھا وطن عزیز میں جنگلات کو جو ناقابل تلافی نقصان پہنچا اس کی براہ راست ذمہ داری فاریسٹ اہلکاران اور ٹمبر مافیا کے گٹھ جوڑ پر عائد ہوتی ہے اگر بلین ٹری کے خواب کی جانب قدم بڑھانا ہیں تو محکمہ جنگلات میں پائی جانے والی کالی بھیڑوں پرہا تھ ڈالا جانا ضروری ہے۔ ان کے محکمہ جنگلات میں بھرتی ہونے سے پہلے اور بعد کے اثاثہ جات ہی چیک کر لئے جائیں تو دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے گا اور اگر ہم نے جنگلات کے بے دریغ کٹنے کے عمل کو روکنے میں کردار ادا نہ کیا تو ہم ماحول دشمن گردانے جائیں گے کیونکہ جنگلات کے بے دریغ کٹائو کا نتیجہ ماحولیاتی آلودگی، زمینی کٹائو، بارشوں میں کمی، سیلاب، گلوبل وارمنگ میں اضافہ ، لینڈ سلائنڈنگ (Climate Change)کی شکل میں سامنے آرہا ہے اس کے علاوہ گلوبل جی ڈی پی پر بھی اثر پڑتا ہے، موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پاکستان کو سالانہ 700ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑ رہا ہے۔ ہمیں اس کے تدارک کے لئے کوششیں کرنا چاہیں۔
پروین شاکر نے برسوں پہلے درختوں کا نوحہ لکھا تھا:
اس بار جو ایندھن کے لیے کٹ کے گرا ہے
چڑیوں کو بڑا پیار تھا اس بوڑھے شجر سے

جواب دیں

Back to top button