ColumnFayyaz Malik

عظمیٰ بخاری: مسلم لیگ ( ن) کی دلیر ترجمان

تحریر : فیاض ملک
پاکستان کی تاریخ میں خواتین کا کردار بھی کسی اہمیت سے کم نہیں ہے ، وہ برصغیر کی جدوجہد ہو یا کسی آمر کی ڈکٹیٹر شپ ، ہر دور میں خواتین نے اپنی طاقت کا لوہا منوایا ہے، پاکستان کی مساوی شہری ہونے کی حیثیت سے خواتین عام انتخابات لڑنے اور قومی، صوبائی اور مقامی سطح پر کسی بھی عوامی عہدے پر بلا امتیاز منتخب ہونے کیلئے آزاد ہیں انھیں آزادانہ حق ہے کہ وہ تمام انتخابات، عام یا ضمنی انتخابات میں اپنے حق رائے دہی کے استعمال کریں وہ خواتین کے مخصوص کوٹہ کے ذریعہ بھی براہ راست انتخابات لڑ سکتی ہیں، خواتین کی کسی بھی اعلیٰ سرکاری عہدے پر فائز ہونے کی کوئی قانونی رکاوٹ نہیں ہے، اس کیلئے حکومت نے آئین اور پاکستان کے قوانین میں متعدد دفعات متعارف کرانے کے ذریعے مثبت اقدامات اٹھائے۔ مثال کے طور پر1956کے آئین پاکستان نے غیر جمہوری پارلیمنٹ میں خواتین کیلئے 10نشستیں مشرقی اور مغربی پاکستان کی پانچ نشستیں مختص کیں۔ 1962کے آئین پاکستان نے قومی اسمبلی میں خواتین کیلئے چھ نشستیں مشرقی اور مغربی پاکستان کی تین نشستوں کے مختص کیں۔آئین پاکستان 1973 نے آئین کے شروع ہونیوالے دن سے یا تیسرے عام انتخابات کے انعقاد سے قومی اسمبلی کیلئے 10 سال کی مدت کیلئے خواتین کی10 نشستیں مخصوص کیں۔1985میں10 نشستوں کو بڑھا کر ان کی تعداد کو20 کر دیا گیا تھا جبکہ خواتین کیلئے مخصوص نشستوں کو 2002میں جنرل پرویز مشرف دور میں60کردی گئی تھی جس کے تحت خواتین سیاست دانوں نے وفاق کے ساتھ ساتھ صوبائی اسمبلیوں میں بھی نمایاں نمائندگی کی، سیاسی کارکن خواتین نے ملک کے قیام کی جدوجہد میں حصہ لینے کے ساتھ اسمبلی میں آنے کے بعد معاشرے کے پسے ہوئے طبقات مثلاً خواتین، اقلیتوں، خواجہ سرائوں اور معذور افراد کے ساتھ کرپشن کے خاتمے کیلئی قانون سازی میں اہم کردار ادا کیا، تحریک آزادی کی خاتون رہنما مادر ملت فاطمہ جناحؒ سے لیکر پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم بے نظیر بھٹو سے اب وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز تک، یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ ملکی سیاست میں خواتین کا کردار نہایت اہمیت کا حامل رہا ہے اور ملک میں انکی سیاسی شمولیت کے حوالے سے بہترین کام ہو رہا ہے، اگر پاکستانی سیاست کا جائزہ لیا جائے تو اس میں خواتین کی ایک بڑی تعداد اپنے منفرد انداز اور بحث و مباحثے کی وجہ سے نہ صرف پاکستانی میڈیا بلکہ سوشل میڈیا پر بھی جانی جاتی ہیں، اگرچہ انہیں اپنی سیاسی جماعت کا دفاع کرنا ہوتا ہے لیکن ان میں سے بہت سی خواتین ایسی بھی ہیں جو کہ پاکستانی میڈیا پر کافی مشہور ہیں اور عظمیٰ بخاری کا نام بھی انہی میں سے ایک ہیں ،18اگست 1976کو پیدا ہونیوالی عظمیٰ بخاری کہتی ہیں کہ بے نظیر کے بعد اگر کوئی لیڈر ہے تو وہ صرف نواز شریف ہیں، عظمیٰ بخاری جن کا تعلق فیصل آباد سے ہے، ان کے والد سید زاہد حسین بخاری لاہور ہائی کورٹ کے سابق جسٹس تھے۔ عظمیٰ بخاری نے ابتدائی تعلیم شیخوپورہ سے حاصل کی اور پنجاب یونیورسٹی سے بیچلر آف آرٹس حاصل کیا۔ انہوں نے 2001ء میں پاکستان کالج آف لاء لاہور سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی اور وکالت کے پیشہ سے وابستہ رہتے ہوئے 2002ء کے پاکستانی عام انتخابات میں خواتین کیلئے مخصوص نشست پر پاکستان پیپلز پارٹی ( پی پی پی) کی امیدوار کے طور پر پنجاب کی صوبائی اسمبلی کیلئے منتخب ہوئیں۔2008ء کے پاکستانی عام انتخابات میں وہ خواتین کیلئے مخصوص نشست پر پیپلز پارٹی کی امیدوار کے طور پر پنجاب کی صوبائی اسمبلی کیلئے دوبارہ منتخب ہوئیں اور 2009سے2011کے دوران پارلیمانی سیکرٹری برائے ثقافت و امور نوجواناں فرائض سر انجام دیتی رہیں۔ جس کے بعد عظمیٰ بخاری فروری 2013ء میں پاکستان مسلم لیگ ( ن) میں شامل ہوگئیں۔ وہ 2013 کے عام انتخابات میں خواتین کیلئے مخصوص نشست پر مسلم لیگ ن کی امیدوار کے طور پر پنجاب کی صوبائی اسمبلی کیلئے دوبارہ منتخب ہوئیں۔
اور چیئرپرسن قائمہ کمیٹی برائے قانون و پارلیمانی امور فرائض سر انجام دئیے تھے، 2018ء کے عام انتخابات میں خواتین کیلئے مخصوص نشست پر مسلم لیگ ن کی امیدوار کے طور پر پنجاب کی صوبائی اسمبلی کیلئے دوبارہ منتخب ہوئیں۔ ان کے شوہر سمیع اللہ خان 2002سے 2007میں پنجاب اسمبلی کے رکن رہے، بلاشبہ جہاں وقت و حالات بہت بدل چکے ہیں وہی ہمیں اس تیزی سے بدلتے وقت کے ساتھ نا صرف چلنا ہے بلکہ کامیاب بھی ہونا ہے، لہذا ہمیں نئے دور کے تقاضے اپناتے ہوئے اپنی بیٹیوں کو عظمیٰ بخاری کی طرح بہادر اور مضبوط بنانا ہوگا، بلاشبہ محنت اورلگن سے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوانے اور بہت سی کامیابیاں سمیٹنے والی عظمی بخاری نے ثابت کیا ہے کہ عورت زندگی کے کسی بھی میدان میں مرد کے پیچھے نہیں بلکہ اس کے شانہ بشانہ کام کرنے کی صلاحیت بھی رکھتی ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ پاکستان مسلم لیگ سے تعلق رکھنے والی عظمی بخاری اپنی سیاسی زندگی میں وہ دلیر خاتون ہے جو جانتی ہے کہ آج کی سیاست کو سمجھنا اپنے آپ کو بچائے رکھنا اور ناکام نہ ہونا بہت بڑی بات ہے، ہر لہجہ خوبصورت ہے، ہر زبان خوبصورت ہے، ہر دھرتی خوبصورت ہے اور اس میں بسنے والے بہت ہی خوبصورت لوگ ہیں، اور عظمیٰ بخاری کی ایک خوبی ان کی گفتگو کا انداز بھی ہے، بہت کم لوگ فی البدیہہ اتنا خوبصورت بولتے ہیں، اور اگر گفتگو کی جھلک عملی کام میں بھی دکھائی دے تو آپ کے مخالف بھی آپ کی تعریف پہ مجبور ہو جاتے ہیں، میں یہ سمجھتا ہوں کہ وہ حقیقی سیاسی کارکن ہیں وہ ایک ایسی سیاست دان ہیں جو اپنی محنت اور لگن کے بل بوتے پر نچلی سطح سے اپنی سیاسی زندگی شروع کرکے اسمبلی کے فلور تک پہنچیں اور میں سمجھتا ہوں کہ اسمبلی تک جانے کا یہی سب سے بہتر طریقہ ہے، عظمیٰ بخاری نچلی سطح پر جماعت کو منظم کرنے، کارکنان کو متحرک کرنے اور انہیں گھروں سے نکال کر سڑکوں پر لانے کے فن سے بخوبی واقف ہیں، وہ عوام میں رہتی ہیں، یہی ان کی سب سے بڑی خوبی ہے۔ سیاست کے میدان میں خود کو اپنی قابلیت کی بنیاد پر منوانے والی عظمیٰ بخاری آج کی خواتین کیلئے ایک رول ماڈل کی حیثیت اختیار کر چکی ہیں، ان کی اسی قابلیت کو دیکھتے ہوئے اس عام غلط فہمی کو دور کرنا بہت ضروری ہے کہ عورتوں کا کام صرف گھر کی دیکھ بھال کرنا ہے اور گھر کے کاموں اور گھر والوں کی خدمت کے علاوہ وہ کچھ نہیں کر سکتیں، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ موجودہ دور میں زندگی کے ہر شعبے میں خواتین کی کامیابیوں کا تسلسل اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ عورت کوئی بھی ہو، وہ ایک عظیم لیڈر بھی بن سکتی ہے اور سیاست دان بھی، اپنا کاروبار کر بھی سکتی ہے اور اسے چلا بھی سکتی ہے۔ بہرحال وہ جس شعبے میں چاہے، آگے بڑھ سکتی ہے۔

جواب دیں

Back to top button