Column

نفرت کی فصل تیار

تحریر : سیدہ عنبرین
حکومتی پالیسیوں کے خلاف عوامی ردعمل نے بنگلہ دیش میں حسینہ حکومت کے در و دیوار ہلا دیئے ہیں، ڈیڑھ سو سے زائد افراد جاں بحق ہو چکے ہیں، 4ہزار افراد زخموں سے چور ہسپتالوں میں پڑے ہیں، جبکہ 7ہزار سے زیادہ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں گرفتار کر کے نامعلوم مقام پر منتقل کئے گئے ہیں۔ سرکاری املاک نذر آتش کرنے کے درجنوں واقعات رپورٹ ہوئے۔ بنگلہ دیش ٹی وی کی عمارت کو آگ لگا دی گئی، حکومتی ارکان پارلیمنٹ چوہوں کی طرح اپنے گھروں میں چھپے بیٹھے ہیں، ان کی حفاظت کیلئے ان کی رہائش گاہوں پر سکیورٹی اہلکار تعینات ہیں، لیکن اس کے باوجود سب کی نیندیں اڑ چکی ہیں، کوئی سامنے آنے کو تیار نہیں۔ حکومت مخالف ہنگامے بڑھنے کے بعد فوج طلب کر کے کرفیو نافذ کیا گیا۔ ذرائع ابلاغ پر پہرہ بٹھا دیا گیا، انٹر نیٹ سروس معطل کر دی گئی، جس سے یہ جاننا مشکل ہو گیا کہ کون کس حال میں ہے، حکومت کی طرف سے حالات سدھارنے کی کوششیں کامیاب نہ ہو سکیں، احتجاج کرنے والی نوجوان نسل کوٹہ سسٹم ختم کر کے صرف اور صرف میرٹ پر نوکریاں دینے کا مطالبہ کر رہی ہے، جبکہ وزیراعظم بنگلہ دیش حسینہ شیخ اس کیلئے رضا مند ہونے کی بجائے اپنے پرانے موقف پر کھڑی ہیں، جس سے مظاہرین اور حکومت مخالف حلقوں میں اشتعال بڑھ رہا ہے۔ ذرائع بتاتے ہیں کہ صورتحال کے پیش نظر بنگلہ دیشی فوجی جرنیلوں نے بنگلہ دیشی حکومت اور اس کی سربراہ کو 48گھنٹے کے اندر معاملات سدھارنے کا الٹی میٹم دیا، لیکن حسینہ حکومت اس عرصہ کے دوران کچھ بہتری نہ لا سکی، احتجاج کرنے والے فوج کے رویے سے نالاں نظر آتے ہیں، ان کے خیال کے مطابق فوج کی طرف سے بے جا حمایت حاصل ہونے پر حسینہ شیخ نے ایک جمہوری وزیراعظم کی بجائے ڈکٹیٹر کا روپ دھارا، اب بنگلہ دیشی آرمی کے چیف بھی عوامی تنقید کی زد میں ہیں، ڈھاکہ، کھلنا، سہیلٹ، نارائن گنج، چاٹگام، بورے شال، منی پور، چوا دانگا، جوشور، نارایل، لوکی پور، کشیتا، مایمن سنگھ، نوا کھالی کے علاقوں میں حکومتی رٹ نہ ہونے کے برابر ہے۔ 18اضلاع میں کرفیو نافذ کرنے کے باوجود مظاہرین اور احتجاجی جتھوں کو مکمل طور پر کنٹرول نہ کیا جا سکا، بعض علاقوں میں اشیائے خورونوش کی کمی ہو جانے پر کرفیو میں نرمی برتی گئی لیکن کرفیو کے وقفے کے دوران فوج کانسٹیبلری اور پولیس پر پتھرائو شروع ہو گیا جس کے نتیجے میں متعدد اہلکار زخمی ہوئے، مجموعی طور پر مختلف علاقوں میں 4اہلکاروں کے جاں بحق ہونے کی اطلاع ہے۔ بنگلہ دیش پارلیمنٹ میں موجود کوئی اپوزیشن جماعت اس ملک گیر احتجاج کو لیڈ نہیں کر رہی، ہر شہر اور برطرف نوجوان طلباء و طالبات ہیں جو اپنے حقوق کیلئے سڑکوں فوج اور پولیس کی طرف سے برستی ہوئی گولیوں، آنسو گیس کے شیلوں اور لاٹھیوں کی زد میں ہیں، اپوزیشن جماعتوں کی ہمدردیاں احتجاجی مظاہرین کے ساتھ ضرور ہیں۔
سیکڑوں نوجوان احتجاج میں شرکت کیلئے گھروں سے گئے مگر واپس نہ لوٹے، انہیں جانوروں کی طرح تشدد کا نشانہ بنایا گیا، جس پر والدین میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی، یوں وہ بھی نوجوان نسل کے شانہ بشانہ اب سڑکوں پر صف اول میں نظر آتے ہیں۔
وہ ممبران پارلیمنٹ جو کل تک مراعات سمیٹنے میں لگے تھے اور بڑھ چڑھ کر حکومتی پالیسیوں کی حمایت کیا کرتے تھے، آج حکومت کی ترجمانی کرنے کیلئے دستیاب نہیں۔ غیر ملکی میڈیا کے نمائندوں نے صورتحال پر ان کا موقف جاننے کیلئے رابطوں کی بھرپور کوششیں کی، لیکن کوئی شخص آن کیمرہ آ کر حکومت کے حق میں دو جملے بولنے کیلئے تیار نہ ہوا۔ میڈیا پر کنٹرول اور ذرائع ابلاغ پر پابندی کے باعث حکومت اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کیلئے سر توڑ کوششیں جاری رکھے ہوئے ہے، لیکن اسے کامیابی نہیں ملی۔ سوشل میڈیا نے بنگلہ دیش میں ہونے والے تشدد کے ہر واقعے کو ملک کے کونے کونے میں پہنچا دیا، جس سے نہتے عوام پر ریاستی تشدد کا پول کھل گیا اور طلبہ کے غم و غصے میں اضافہ ہو گیا۔
بنگلہ دیشی عدلیہ نے ایک موقع پر حکومت کی طرف سے نافذ کوٹہ سسٹم کے حق میں فیصلہ دیا، جس کے بعد عدالتیں اور ان میں بیٹھنے والے جج صاحبان بھی تنقید کی زد میں ہیں۔ ملک کی یونیورسٹیوں اور کالجوں سے فارغ التحصیل طلبہ کا اپنے حقوق کیلئے شروع ہونے والا احتجاج ملک کے بسنے والوں کو دو حصوں میں تقسیم کر گیا ہے، ایک طرف لاکھوں کی تعداد میں ہاتھوں میں ڈگریاں تھامے بے روزگار طلباء اور طالبات ہیں جبکہ دوسری طرف کوٹہ سسٹم کے بل بوتے پر فائدہ اٹھانے والی 2نسلوں کے نمائندے وسائل اور اعلیٰ عہدوں سے چمٹے بیٹھے ہیں اور اپنی جگہ نئی نسل کیلئے خالی کرنے کیلئے کسی قیمت پر تیار نظر نہیں آتے، وہ اپنے آپ اور اپنے بزرگوں کو بنگلہ دیش کی جنگ آزادی کا سپاہی قرار دیتے ہوئے کسی میرٹ کو نہ مانتے ہوئے ہر چیز کو اپنا حق قرار دیتے ہیں۔
حسینہ شیخ نے انہی لوگوں کو خوش رکھ کر گزشتہ کئی دہائیوں سے اقتدار پر اپنی گرفت مضبوط رکھی۔ انہوں نے بیوروکریسی اور فوجی جرنیلوں کی طرف سے آنکھیں بند کئے رکھیں، جو عنایات کے بدلے حسینہ شیخ کو بار بار اقتدار میں لانے کیلئے ہر مرتبہ راہیں ہموار کرتے رہے۔
وزیراعظم بنگلہ دیش نے عوامی غم و غصے کو ٹھنڈا کرنے کیلئے قوم سے خطاب کیا، وہ سیاہ لباس زیب تن کئے ہوئے ٹی وی سکرین پر نمودار ہوئیں، وہ تاثر دینا چاہتی تھیں کہ انہیں جاری احتجاج میں ہونے والے جانی نقصان کا بہت افسوس ہے لیکن نوجوان نسل نے ان کا خطاب اور ان کا استدلال مسترد کر دیا اور انہیں جنگ احد میں حضرت حمزہؓ کا کلیجہ چبانے والی عورت ہند کی نسل قرار دیا، جسے ہندہ بھی کہتے ہیں۔ حسینہ شیخ کی کل سیاست کی بنیاد پاکستان دشمنی اور پاکستان سے نفرت تھی، انہوں نے عرصہ دراز قبل نفرت کی جو فصل بوئی تھی، آج ویسی فصل سامنے ہے، یہ ان سے اور ان کی پالیسیوں سے نفرت کی فصل ہے، جو اب انہیں کاٹنی ہی پڑے گی، مگر بات یہاں ختم نہیں ہو گی، بہت آگے جائے گی۔

جواب دیں

Back to top button