یوم الحاق پاکستان

حبیب اللہ قمر
پاکستان سمیت دنیا بھر میں 19جولائی کو یوم الحاق پاکستان روایتی جوش و جذبے سے منایا گیا۔ حریت کانفرنس کے چیئرمین مسرت عالم بٹ، میر واعظ عمر فاروق، محمد یٰسین ملک ، شبیر احمد شاہ اور دیگر قائدین کی اپیل پر مکمل ہڑتال کی گئی اور مقبوضہ کشمیر کے گرمائی دارالحکومت سری نگر سمیت دیگر علاقوں میں زبردست احتجاجی مظاہرے کئے گئے۔ بھارتی فوج نے ہڑتال اور مظاہروں کے پیش نظر پورے کشمیر کو فوجی چھانی میں تبدیل کیے رکھا اور کشمیریوں کے گھروں میں چھاپے مار کر چادر چار دیواری کا تقدس پامال کیا جاتا رہا۔ مقبوضہ کشمیر کی صورت حال اس وقت یہ ہے کہ حریت لیڈروں پر جھوٹے مقدمات بنائے جارہے ہیں اور انہیں کشمیر کی بجائے بھارتی جیلوں میں منتقل کیا جارہا ہے۔ نریندر مودی حکومت بھارتی تحقیقاتی ادارے این آئی اے کو کشمیری رہنماں کیخلاف جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہی ہے۔ حریت رہنماں کو مختلف جیلوں میں بند رکھا گیا ہے اور جیل حکام کی طرف سے ان کے ساتھ غیر انسانی سلوک روا رکھا جارہا ہے۔ جیل میں نظربند حریت رہنماں سے ملاقات کرنے والے ان کے رشتہ داروں کے مطابق انہیں علاج معالجے اور مناسب خوراک جیسی بنیادی سہولتوں سے محروم رکھا جارہا ہے جس کی وجہ سے ان کی حالت انتہائی ناگفتہ بہہ ہے۔ بھارتی جیلوں میں قید دیگر کشمیری لیڈروں کی طرح دختران ملت جموں کشمیر کی سربراہ سیدہ آسیہ اندرابی کو بھی یوم پاکستان پر سبز ہلالی پاکستانی پرچم لہرانے کے جرم میں بغاوت کا مقدمہ بنا کر گرفتار کیا گیا اور پھر سری نگر کی سینٹرل جیل سے نئی دہلی جیل میں قید رکھا گیا ہے۔ ان کے ساتھ دو مزید خواتین رہنما فہمیدہ صوفی اور ناہیدہ نسرین بھی ہیں ۔
کشمیری ذرائع ابلاغ نے یہ رپورٹیں شائع کی ہیں کہ بھارتی فوج اور حکومت کا منصوبہ ہے کہ دیگر کشمیری لیڈروں پر بھی ایسے ہی بے بنیاد مقدمات درج کئے جائیں اور پھر انہیں بھارتی جیلوں میں منتقل کر دیا جائے تاکہ وہ کشمیری عوام کی قیادت کے قابل نہ رہ سکیں۔ بھارت سرکار اپنے اس منصوبہ پر عمل کرنے کیلئے کشمیری قیادت کے علاوہ سرگرم وکلاء ، تاجروں، صحافیوں اور طالب علم رہنماں کیخلاف بھی اسی نوعیت کے اقدامات کر رہی ہے۔ بھارتی فوج نے کشمیری نوجوانوں کو آزادی اظہار رائے سے روکنے کیلئے سوشل میڈیا پر بھی بلاجواز پابندیاں عائد کر رکھی ہیں اور آئے دن مختلف علاقوں میں موبائل اور انٹرنیٹ سروس بند کر دی جاتی ہے۔ وہ سرگرم کشمیری نوجوان جو بھارتی فوجی مظالم اور دہشت گردی پر مبنی ویڈیوز اور کشمیری شہداء کی تصاویر سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرتے ہیں ان کیخلاف بھی مقدمات درج کئے جارہے ہیں اور انہیں گرفتار کر کے عقوبت خانوں میں لیجا کر تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔ بھارتی فورسز اہلکار جس کو چاہتے ہیں گھروں پر چھاپے مار کر اٹھاتے ہیں اور پھر تھانوں میں بند کر دیا جاتا ہے۔ اس وقت کشمیری نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد بھارتی فورسز پر پتھرائو کے الزام میں قید ہے جن میں کثیر تعداد کم عمر نوجوانوں کی ہے۔ اس وقت پورا کشمیر ایک جیل خانہ میں تبدیل ہو کر رہ گیا ہے۔ کوئی دن ایسا نہیں گزرتا جب کشمیر میں قتل و خون کی ہولی نہ کھیلی گئی ہو۔ ہر روز بھارتی فوجی درندے نہتے کشمیریوں پر گولیاں برساتے ہیں اور نام نہاد سرچ آپریشن کے نام پر فرضی جھڑپوں میں ان کا خون بہایا جاتا ہے۔ چند روز قبل یوم شہدائے کشمیر پر بھی بدترین ظلم و بربریت کا مظاہرہ کیا گیا اور اب انیس جولائی یوم الحاق پاکستان پر بھی یہی کھیل کھیلا گیا ہے۔
انیس جولائی کا دن جموں کشمیر کے مسلمانوں کیلئے تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔ دنیا بھر میں مقیم کشمیری یہ دن اس عزم کا اظہار کرنے کیلئے مناتے ہیں کہ وہ ہمیشہ کی طرح آج بھی پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں۔ وہ دنیا کو یہ باور کروانے کی کوشش کرتے ہیں کہ کشمیر کبھی غاصب بھارت کا حصہ نہیں رہا اور وہ انڈیا کے غاصبانہ قبضہ کی تکمیل کو کسی صورت برداشت نہیں کریں گے۔ کشمیری قوم آج ان حالات میں یوم الحاق پاکستان منا رہی ہے کہ مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت والی دفعات ختم کر دی گئی ہیں اور بی جے پی سرکار نہتے کشمیریوں کی قتل و غارت گری کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دے رہی۔ کشمیر کی تاریخ کا جائزہ لیں تو 19جولائی 1947ء میں جب الحاق پاکستان کا اعلان کیا گیا تو یہ وہ وقت تھا کہ جب ہندوستان انگریز کی غلامی سے نکل رہا تھا، برصغیر میں بڑی سیاسی تبدیلیاں رونما ہو رہی تھیں اور کلمہ طیبہ کی بنیاد پر چلنے والی تحریک کے پیش نظر پاکستان کی آزادی کا وقت قریب تھا۔ مسلم اکثریتی ریاستیں پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کر رہی تھیں ۔ ایسی صورتحال میں کہ جب جموں کشمیر کی مکمل آبادی کا83فیصد حصہ مسلمانوں پر مشتمل تھا۔ اس کے تمام دریاں کا رخ پاکستان کی طرف اور جغرافیائی حالات بھی پاکستان کے ساتھ ملتے تھے ، مسلمانوں نے متفقہ طور پر یہ فیصلہ کیا کہ ریاست جموں کشمیر کا الحاق پاکستان کے ساتھ ہونا چاہیے۔ یوں مسلم کانفرنس جو کہ ایک نظریاتی جماعت تھی، نے قائد اعظمؒ اور علامہ اقبالؒ کی سوچ و فکر پر عمل پیرا ہوتے ہوئے 19جولائی 1947ء کو آبی گزرگاہ سری نگر میں اپنی مجلس عاملہ کا ایک اہم اجلا س بلایا جس میں یوم الحاق پاکستان کی قرارداد منظور کرتے ہوئے ڈوگرہ حکمران ہری سنگھ سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ فوج کے ذریعہ نہتے اور مظلوم مسلمانوں کا قتل عام بند کرے اور جموں کشمیر کے عوام کی خودمختاری ، ان کے جذبات، احساسات اور خواہشات کا احترام کر کے ریاست کا الحاق پاکستان کے ساتھ کرے۔ اگرچہ یہ الگ بات ہے کہ بعد میں بھارت سرکار نے مہاراجہ ہری سنگھ اور شیخ عبداللہ کے ساتھ مل کر سازش کی ا ور فریب و مکاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے جموں کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کر لیا، نہتے کشمیری مسلمانوں کے خون سے ہولی کھولی گئی اور جموں میں آبادی کے تناسب کو بدلنے کیلئے لاکھوں مسلمانوں کو بے دردی سے شہید کر کے ظلم و بربریت کی ایک نئی تاریخ رقم کی گئی لیکن کشمیری عوام کے دلوں میں اس تاریخی قرار داد کی بے پناہ قدروقیمت اب بھی موجود ہے یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر میں بسنے والے کشمیری مسلمان 19جولائی کو یوم الحاق پاکستان کے طور پر مناتے ہیں۔ اس دن تحریک آزادی میں اپنے خون کا نذرانہ پیش کرنے والے شہداء کو خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے۔ جلسوں، کانفرنسوں و ریلیوں کا انعقاد کیا جاتا ہے اور کشمیر کی آزادی، پاکستان کی سلامتی و خوشحالی کیلئے خصوصی دعائیں کی جاتی ہیں۔
ریاست جموں کشمیر کے مسلمانوں نے قیام پاکستان سے قبل ہی اپنے مستقبل کو وطن عزیز پاکستان کے ساتھ وابستہ کر دیا تھا تاہم بھارت سرکار نے77سال سے کشمیر پر غاصبانہ قبضہ کر رکھا ہے اور ان کی عزتیں، عصمتیں اور جان و مال سمیت کوئی چیز محفوظ نہیں ہے ۔ امسال کشمیری عوام کی جانب سے اس وقت یوم الحاق پاکستان منایا گیا ہے کہ جب پورے جموں کشمیر میں آگ اور خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی طرف سے نہتے کشمیریوں پر بدترین ظلم و ستم کی ایک نئی تاریخ رقم کی جارہی ہے۔ پچھلے چند برسوں میں سینکڑوں کشمیری نوجوان شہید اور ہزاروں زخمی کئے جاچکے ہیں۔ کبھی وقت تھا کہ یہ باتیں کی جاتی تھیں کہ کشمیر کے مقامی لوگ تحریک آزادی کا حصہ نہیں ہیں لیکن اب یہ سب جھوٹے پروپیگنڈے دم توڑ چکے ہیں اور کشمیریوں نے اپنے خون سے وہ لازوال داستانیں رقم کی ہیں کہ انہیں تادیر یاد رکھا جائے گا۔ بھارتی فورسز کی طرف سے منظم منصوبہ بندی کے تحت کشمیری تاجروں کو بھی ہراساں کیا جارہا ہے جس سے ان کی کاروباری سرگرمیاں جاری رکھنا مشکل ہو گیا ہے۔ خواتین کی بے حرمتی کے واقعات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔ بھارتی فوج دیگر طبقات کی طرح صحافیوں کیخلاف بھی بدترین اقدامات پر اتر آئی ہے اور کوشش کی جارہی ہے کہ ایسا ماحول بنا دیا جائے تاکہ کوئی کشمیری صحافی بھارتی ظلم و دہشت گردی کیخلاف آواز بلند نہ کر سکے اور غاصب بھارتی درندے جو چاہیں کرتے پھریں کوئی ان کیخلاف بات کرنے والا نہ ہو۔ مقبوضہ کشمیر کی اس صورتحال پر شدید ردعمل ظاہر کرتے ہوئے حریت رہنماں نے کہا ہے کہ جمہوریت کے دعویدار جس ڈھٹائی کے ساتھ خود جمہوریت اور عدل و انصاف کے اصولوں کو پامال کر رہے ہیں وہ دنیا کی مہذب اقوام و ممالک کیلئے لمحہ فکریہ ہے۔ انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس ، ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ایشیا واچ کو چاہیے کہ وہ مختلف جیلوں میں قید کشمیری سیاسی رہنماں کی حالت زار کا خود مشاہدہ کرنے کیلئے اپنی ٹیمیں روانہ کریں اور کشمیری نظر بندوں کی رہائی کیلئے بھارت سرکار پر دبائو بڑھائیں۔ حریت قائدین کی باتیں بالکل درست ہیں۔ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پاکستان بھی مظلوم کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے ظلم و بربریت کیخلاف مضبوط آواز بلند کرے اور بھارتی ریاستی دہشت گردی کو تمام عالمی فورمز پر بے نقاب کرے تاکہ جنت ارضی کشمیر پر سے بھارتی قبضہ ختم کیا جا سکے۔