ColumnTajamul Hussain Hashmi

سرمایہ کاری سفیر کیلئے نیلے پاسپورٹ

تجمل حسین ہاشمی
وفاق نے مختلف ممالک میں اپنے سفارت خانوں میں ملک کی 48نامور کاروباری شخصیات کو اعزازی سفیروں کے طور تعینات کیا ہے۔ دفتر خارجہ سے حاصل معلومات کے مطابق ان شخصیات کا تعلق کاروباری شعبے سے ہے ۔ رواں مارچ میں وزیر اعظم شہباز شریف نے تاجروں کی ایک تقریب سے خطاب میں کہا تھا کہ بڑے ٹیکس دہندگان اور ایکسپورٹرز کو بیرون ملک اعزازی سفیر کا درجہ دیا جائے گا۔ دفتر خارجہ سے حاصل معلومات کے مطابق یہ تمام شخصیات سرمایہ کاری کی سفیر ہوں گی اور ان کو ابتدائی طور پر نیلے پاسپورٹ دو سال کے عرصے کے لیے جاری ہوں گے، ان 48 سفیروں میں سیاست دانوں کے بچوں کے علاوہ دیگر کاروباری شخصیات اور ان کی اولادیں بھی ہیں۔
معلومات کے مطابق اعزازی سفرا کی تعیناتی کا نوٹیفیکیشن 28جون کو جاری ہونے کے فوراً بعد انہیں نیلے پاسپورٹ جاری کر دئیے گئے تھے، اعزازی سفیر بیرون ممالک سے ملک میں سرمایہ کاری کو فروغ دینے کے لیے آسانی پیدا کریں گے۔ یہ تاجر کیا آسانی پیدا کریں گے، قیمتوں کے عدم استحکام پیدا کر کے عوام کی جیبوں سے کروڑ نکل لیتے ہیں اور ان کے آگے حکومتی ادارے بے بس ہو چکے ہیں ۔
اعزازی سفیروں کو پاکستانی سفارت خانوں میں تعینات سفیروں کے برابر پروٹوکول ملے گا۔ پروٹوکول کے بھرپور مزے ہوں گے ۔ وزیراعظم کے احکامات پر مختلف سفارت خانوں کو اس ضمن میں مکمل معاونت فراہم کرنے کی ہدایات جاری کر دی گئی ہیں۔ وزیر خارجہ اور سب سے زیادہ وزیر خزانہ میں رہنے والے اسحاق ڈار کا کہنا ہے ہماری توجہ براہ راست سرمایہ کاری اور ایکسپورٹ پر ہے۔ اس لیے اب معاشی سفارت کاری دفتر خارجہ کی ترجیحات میں شامل کی ہے۔ مسلم لیگ ن حکومت کاروباری برادری کو نوازے میں پہلے نمبر ہے۔ اس کا کوئی ثانی نہیں ہے لیکن کاروباری برادری آج بھی حکومتی سبسڈی پر اپنی انڈسٹری چلا رہی ہے۔ ان کی طرف سے کوئی منصوبے نہیں لگائے لگے۔
سرمایہ کاری کے مقصد کے لیے اتنی بڑی تعداد میں اعزازی سفیروں کی تعیناتی پہلی بار کی گئی ہے۔ اس سے قبل دو یا تین اعزازی سفیر تعینات کیے جاتے تھے۔ معاشی سفارت کاری کو فروغ دینے کے لیے اعزازی سفیر تعینات کیے گئے ہیں، جن کی تنخواہ تو نہیں ہو گی لیکن سہولتیں دفتر خارجہ کے سفیروں کے برابر ہوں گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ دنیا بھر میں سفارت کاری کے لیے رواج ہے کہ کسی خاص شعبے میں اعزازی سفیر تعینات کیے جاتے ہیں لیکن سب کے شعبے مختلف ہوتے ہیں۔ کوئی چین کے لیے ہے تو کوئی سائوتھ ایشیا کے لیے، لیکن ہماری حکومت نے 48کی 48شخصیات کو سرمایہ کاری کے سفیر بنایا ہے۔ سفیروں کے شعبوں کو مختلف ہونا چاہیے تھے، کسی کو زراعت کی سرمایہ کاری میں ہونا چاہیے تھا اور کسی کو دوسری کسی صنعت میں ہونا چاہئے تھا ۔ پی ڈی ایم کے دور حکومت میں بھی لندن میں مقیم پاکستانی بزنس مین ذیشان شاہ کو اعزازی سفیر مقرر کیا تھا۔ پاکستان تحریک انصاف کے دور حکومت میں 2019 میں علی جہانگیر صدیقی کو غیر ملکی سرمایہ کاری کا اعزازی سفیر (ایمبیسیڈر ایٹ لارج) تعینات کیا گیا تھا۔ پاکستان پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں تین اعزازی سفیر تعینات کیے گئے تھے۔ ہمارے ہاں جو بھی اقدامات کئے جاتے ہیں، اس طرز کی پالیسی یا اقدامات دنیا بھر میں بھی نظر اتے ہیں لیکن پھر بھی ہماری تمام تر معاشی، معاشرتی اور قانونی پالیسی ناکام ہیں، دنیا کامیابی کی طرف گامزن ہے اور ہماری معیشت کمزور ہو چکی۔ پچھلے 40سالوں سے کاروباری برادری کی پلاننگ سے کوئی صنعتی ایکسپورٹ میں اضافہ یا دیہی علاقوں میں نئی انڈسٹری کا قیام نہیں ہوا۔ کاروباری برادری نے حکومتی سبسڈی پر گزار کیا۔ ہر نئی حکومت اور آرمی چیف کے سامنے اپنے مطالبات پیش کر کے اپنے تحفظ کو محفوظ بنایا لیکن ملکی مفادات سے زیادہ اپنے منافع پر فوکس رہا۔ سیلاب ، زلزلہ اور ٹیکس کے شارٹ فال یا معاشی خراب صورت حال میں حکومتی پالیسی کے برعکس نظر آئے ، کبھی بھی قیمتوں کے استحکام کیلئے کام نہیں کیا۔ حکومت میں بیٹھے افراد جب کاروباری ہوں تو پھر قوم کو معاشی غلامی ہی نصیب ہو گی۔ مسلم لیگ ن کاروباری حضرات کو حکومتی پروٹوکول دے کر معاشی سرمایہ کاری کی صورتحال کو بہتر کرنا چاہتی ہے لیکن اس فیصلے سے سرمایہ کاری کی آمد میں کوئی خاطر خواہ بہتری نظر نہیں آتی، بس نیلے پاسپورٹ سی شخصیات پروٹوکول لطف اندوز ہوں گی۔ باقی ملکی سطح پر اس فیصلے کے کوئی مثبت اثرات نہیں ہوں گے۔ حکومت یہ کیوں بھول گئی کہ وزارت خارجہ میں 5سو افسر ہیں جن میں سے تقریبا 320افسر 120ممالک میں اپنے فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ سابق وزیر اعظم عمران خان نے ایک ویڈیو لنک سے تمام سفیروں کو ملک کی بہتری کی خاطر اپنے فرائض کی انجام دہی کو بہتر بنانے کے لیے احکامات دئیے تھے۔ کیا حکومت وقت اپنے خارجہ عملے کو متحرک کر کے بیرونی معاشی سرمایہ کاری کو ممکن نہیں بنا سکتی بجائے مزید 48افراد کا پروٹوکول کا ڈاکا عوامی جیب پر ڈالا جائے۔ حکومت یہ اعلان کر کے خود کو بری الذمہ سمجھ لیتی ہے کہ ان کو کوئی سرکاری تنخواہ جاری نہیں ہو گی لیکن یہ بات واضح ہے کہ تنخواہ سے کئی گنا زیادہ اخراجات پروٹوکول پر آتے ہیں۔ شہباز حکومت اخراجات میں کمی کے اعلانات تو کر رہی ہے لیکن نیلے پاسپورٹ جیسے فیصلے قوم پر مزید بوجھ کا باعث ہوں گے۔ ماضی میں جن حضرات کو اعزازی سفیر بنایا گیا ان کی کارکردگی کو بھی عیاں کیا جائے تاکہ اس فیصلے کو عوامی حمایت مل سکے۔

جواب دیں

Back to top button