Column

واقعہ کربلا اور اردو ادب

تحریر : ایم فاروق قمر
دنیا کا تقریباً ہر بڑا ادب رزمیہ عناصر سے متاثر ہے اور ہر ادب میں شاہکار، فن پارے رزمیہ ہیئت میں لکھے گئے ہیں۔
یونانی ادب ہو یا اطالوی ادب، فارسی ادب ہو، عربی ادب یا پھر انگریزی ادب۔ دنیا کے تمام ادب میں رزمیہ شاعری کا تصور پایا جاتا ہے۔ ادب چونکہ سماجی، تہذیبی عمل کا پروردہ ہوتا ہے۔
دنیا کا بیشتر بڑا ادب ہنگاموں اور جنگی اثرات سے وجود میں آیا یا اس میں حیات کو خیر و شر کی دو متحارب قوتوں کی شکل میں پیش کیا گیا۔ گوئٹے کا ’’ فائوسٹ ‘‘ اس کی بہترین مثال ہے۔ لاطینی زبان کی بہترین نظم بھی ایک جنگ کے واقعات کے پس منظر سے طلوع ہوتی ہے۔
عربی اور فارسی ادب میں واقعہ کربلا اور قربانیِ شبیر کے موضوع پر قدیم زمانے سے شعر و ادب میں واضح طور پر فلسفہ حق و باطل کو بیان کیا گیا ہے۔ اپنوں بیگانوں سبھی نے نواسہ رسول کو خراجِ عقیدت پیش کیا ہے۔ دانشوروں اور شاعروں نے اپنے قلم کے جوہر دکھائے ہیں۔
رجز: یہ عربی زبان کا لفظ ہے ۔ قدیم عرب کے ثقافتی اظہار میں رجز کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ تاریخ عرب میں جنگ وجدل قبیلوں کا اہم سرمایہ سمجھے جاتے ہیں۔
اردو شعر و نثر میں کربلا کو حق و باطل کا ایک اہم استعارہ سمجھا جاتا رہا ہے۔
اردو کا سب سے پہلا مرثیہ گو دکنی شاعر ملا وجہی تھا۔ لکھنو میں اس صنف کو مزید ترقی ملی اور میر انیس اور میر دبیر جیسے شعرا نے مرثیہ کو اعلیٰ مقام عطا کیا۔ مرثیہ کا زیادہ استعمال واقعہ کربلا کو بیان کرنے میں ہوتا ہے۔
شہدائے کربلا کے حوالے سے اردو میں مرثیے کا آغاز دکن سے ہوا۔ قطب شاہی اور عادل شاہی دور حکومت میں مرثیے کو ترقی ملی۔ دکن میں ملا وجہی، غواصی لطیف، کاظم، افضل، شاہی ، مرزا، نوری اور ہاشمی نے مرثیے لکھے ۔
رسول اکرم ٔ کا فرمان مبارک ہے کہ شہادت ِ حسین سے مومنین کے دلوں میں ایسی حرارت پیدا ہو گی جو کبھی ٹھنڈی نہیں ہو گی۔ ( مستدرک الوصیل)
سرتاج شعراء میر تقی میر نے کر بلا کا منظر یوں بیان کیا ہے۔
کرتا ہے یوں بیان سخن ران کربلا
احوال زار شاہ شہیدان کربلا
باآنکہ تھا فرات پہ میدان کربلا
پیاسا ہوا ہلاک وہ مہمان
مرحوم انتظار حسین نے کہا تھا کہ میر انیس و مرزا دبیر اردو مرثیے کی آبرو ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ
اردو شاعری میں میر انیس ایک بے مثال شاعر کا درجہ رکھتے ہیں اور میر انیس کے ہاں مرثیہ نگاری میں فصاحت و بلاغت، واقعہ نگاری اور منظر نگاری، تشبیہات و استعارات، کردار نگاری ، قصیدے کی شان و شوکت اور رباعی کی بلاغت سب کچھ موجود ہے۔ آپ نے اپنی شاعری میں میدان کربلا کی منظر نگاری جس شاندار انداز سے کی ہے اس کا اندازہ ان اشعار سے لگایا جاسکتا ہے۔
گھوڑے کو اپنے کرتے تھے سیراب سب سوار
آتے تھے اونٹ گھات پہ باندھے ہوئے قطار
پیتے تھے آبِ نہر پرند آکے بے شمار
سقے زمیں پہ کرتے تھے چھڑکائو بار بار
پانی کا دام و در کو پلانا ثواب تھا
اک ابن فاطمہ کے لئے قحط ِ آب تھا
دبیر کی زبان بلند آہنگ اور پرشکوہ ہے۔ ان کے مرثیوں میں موضوعات کا وقار اور ایک تمکنت پائی جاتی ہے۔ انہوں نے بہت خوبصورتی اور مہارت کے ساتھ اپنے مرثیوں میں الفاظ کو برتا ہے۔ دبیر نے مرثیے کے فن کو عظمت اور ترفع سے ہمکنار کیا۔
کس شیر کی آمد ہے کہ رن کانپ رہا ہے
رن ایک طرف چرخِ کہن کانپ رہا ہے
رستم کا بدن زیر کفن کانپ رہا ہے
ہر قصر سلاطین زمن کانپ رہا ہے
شمشیر بکف دیکھ کے حیدر کے پسر کو
جبریل لرزتے ہیں سمیٹے ہوئے پر کو
مولانا محمد علی جوہر ان کی ایک غزل کا شعر زبانِ زد عام ہے۔
قتلِ حسین اصل میں مرگِ یزید ہے
اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد
علامہ محمد اقبال کی شاعری میں جگہ جگہ کربلا کے استعاروں کا ذکر ملتا ہے۔ آپ امام حسین رضی اللہ عنہ کے مقام و مرتبہ اور اہل کوفہ کی بے وفائی کا تذکرہ یوں کرتے ہیں۔
حقیقتِ ابدی ہے مقامِ شبیری
بدلتے رہتے ہیں اندازِ کوفی و شامی
علامہ محمد اقبالؒ نے بالِ جبریل میں ’’ذوق و شوق‘‘ کے نام سے نظم لکھی اس میں واقعہ کربلا کے متعلق تلمیحات یوں بیان کرتے ہیں۔
صدقِ خلیل بھی ہے عشق صبر حسین بھی ہے عشق
معرکہ وجود میں بدر و حنین بھی ہے عشق
ایک اور جگہ فرماتے ہیں:
غریب و سادہ رنگیں ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حسین ابتداء ہے اسمٰعیل
جوش ملیح آبادی جو کہ’’ شاعر انقلاب‘‘ کے لقب سے مشہور ہیں۔ تحریک آزادی کے دوران انہوں نے ایک مرثیہ لکھا جس کا عنوان ’’ حسین اور انقلاب‘‘ ہے اس میں اپنے خیالات کا اظہار کربلا کے استعاروں سے کیا ہے۔
انسان کو بیدار تو ہو لینے دو
ہر قوم پکارے گی ہمارے ہیں حسین
پیر نصیر الدین نصیر امام عالی مقام کے صبر و استقامت اور جرات و عزیمت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ
کوئی شبیر سا خالق کا پرستار نہیں
امتِ احمدِ مرسل کا وفادار نہیں
لب پہ دعوے ہیں، مگر عظمتِ کردار نہیں
جرات و عزم و عزیمت نہیں، ایثار نہیں
کودتا کون ہے؟ امڈے ہوئے طوفانوں میں
کون گھر بار لٹاتا ہے بیابانوں میں؟
اسلامی مہینے کا آغاز اور تمام بھی عجیب ہے۔ اس کی ابتداء قربانی سے ہوتی ہے اور انتہا بھی قربانی ہی پر ہوتی ہے۔ مسلمانانِ عالم کے لئے اس میں حکمت ہے کہ وہ قربانیوں کے لئے اول و آخر ہمہ وقت تیار رہیں مگر یہ ضروری ہے کہ ان کی تیاری تقویٰ پر استوار ہو۔ اسی لئے محسن نقوی نے کہا تھا!
سامان عاقبت اسی تدبیر سے کریں
آغاز سال نو غمِ شبیر سے کریں

جواب دیں

Back to top button