بھکاریوں کے پاسپورٹ ضبط ہوں گے

تحریر : رفیع صحرائی
حکومت پاکستان نے 2ہزار سے زائد بھکاریوں کے پاسپورٹ بلاک کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ یہ وہ بھکاری ہیں جو حج، عمرہ اور زیارات کے لیے بیرون ممالک جاتے ہیں اور وہاں جا کر بھیک مانگنے لگتے ہیں۔ بیرونی ممالک میں بھیک مانگنے میں ملوث ان پاکستانی شہریوں کے پاسپورٹ 7سال کے لیے بلاک کیے جائیں گے۔
ذرائع کے کا کہنا ہے کہ بیرونی ممالک میں بھیک مانگنے کے لیے جانے والے ملک کی بدنامی کا باعث بن رہے ہیں جن کی وجہ سے ان کے پاسپورٹ بلاک کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
ذرائع کے مطابق لوگوں کو بھیک مانگنے کے لیے بیرونی ممالک بھیجنے والے ایجنٹوں کے پاسپورٹ بھی بلاک کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ زیادہ تر بھکاری سعودی عرب، ایران اور عراق عمرے اور مزارات کی زیارت کے لیے جاتے ہیں۔
بتایا گیا ہے کہ بیرونی ممالک میں بھیک کی غرض سے جانے والے افراد کا ڈیٹا اکٹھا کیا گیا ہے اور اس حوالے سے وزارت داخلہ اور وزارت خارجہ کی جانب سے ایک مربوط پالیسی آخری مراحل میں ہے۔ جونہی تمام پہلوں پر غور کرنے کے بعد اس پالیسی کی منظوری دی جائے گی اسی وقت ان عادی بھکاریوں اور ان کے سرپرستوں و ایجنٹوں کے خلاف کارروائی شروع کر دی جائے گی۔
آپ کو یاد ہو گا کہ گزشتہ سال ستمبر میں سمندر پار پاکستانیوں کی وزارت کی جانب سے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سمندر پار پاکستانیوں کے سامنے یہ انکشاف کیا گیا تھا کہ بھکاریوں کو بڑی تعداد میں غیرقانونی ذرائع سے بیرون ملک اسمگل کیا جاتا ہے۔ وزارت کے سیکرٹری نے سینیٹ پینل کے سامنے انکشاف کیا تھا کہ بیرون ملک پکڑے گئے بھکاریوں میں سے 90فیصد کا تعلق پاکستان سے ہے۔ انہوں نے کہا کہ عراقی اور سعودی سفیروں نے اطلاع دی ہے کہ ان گرفتاریوں کی وجہ سے جیلوں میں بہت زیادہ بھیڑ جمع ہو گئی ہے۔
اس میں کوئی دو آراء نہیں ہیں کہ فی زمانہ بھیک مانگنا سب سے زیادہ منافع بخش اور محفوظ ’’کاروبار‘‘ ہے۔ کسی بھی اوسط درجے کے تاجر کے برابر ایک عام بھکاری کی آمدن ہوتی ہے۔ بھکاری کو اپنی آمدن پر انکم ٹیکس وغیرہ دینے کی فکر نہیں ہوتی۔ اسے ایک عام مزدور کی طرح جسمانی مشقت نہیں کرنا پڑتی البتہ اس کی آمدن عام مزدور سے کئی گنا زیادہ ہوتی ہے۔ مرحوم عالم لوہار نے اپنی ایک جگنی میں گایا تھا۔
اوکھی رمز فقیری والی چڑھ سولی تے بہنا
در در دے ٹُکّر منگنے تے مائیے بَھینے کہنا
( فقیری بہت مشکل کام ہے۔ در در جا کر احترام کے ساتھ خواتین کو ماں بہن کہہ کر روٹی مانگنی پڑتی ہے۔ یہ عمل پھانسی چڑھنے کے مترادف ہوتا ہے کیونکہ دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلا کر عزتِ نفس کی قربانی دینا پڑتی ہے)۔
وہ سادہ دور تھا۔ سادہ لوگ اور قناعت پسند فقیر ہوتے تھے جو اپنے پیٹ کی آگ بجھانے کے لیے روٹی یا آٹا مانگا کرتے تھے۔ اب ماڈرن دور ہے۔ بھیک مانگنا باقاعدہ ایک منفعت بخش پیشہ بن چکا ہے۔ بڑے بڑے بااثر لوگ اس پیشے سے منسلک ہیں جنہوں نے اپنے اپنے بھکاریوں کی ٹیمیں بنائی ہوئی ہیں۔ کچھ ان بھکاریوں کی سرپرستی کر کے اور پولیس وغیرہ سے انہیں تحفظ فراہم کر کے لاکھوں روپے مہینہ وصول کر رہی ہیں۔ بھیک مانگنا پہلے مجبوری تھی اب آرٹ بن گیا ہے۔ جو بھکاری جتنا بڑا اداکار ہو گا اس کی کمائی اتنی ہی زیادہ ہو گی۔ بھیک اب خیرات نہیں رہی، اداکاری کا معاوضہ بن گئی ہے۔
چند سال پہلے تک دیہی علاقوں کے بھکاری رمضان کے مقدس مہینے میں بڑے شہروں کا رخ کیا کرتے تھے۔ مسجدیں اور مارکیٹیں ان کے خاص ٹارگٹ ہوا کرتے تھے۔ وہ ایک مہینے میں بھیک سے اتنا کما لیتے تھے جو سال بھر کے لیے کافی ہوتا تھا۔ یہ الگ بات کہ وہ سال کے باقی گیارہ مہینے بھی بھیک ہی مانگا کرتے تھے۔
اب بھکاریوں نے اپنے پیشے پر انویسٹمنٹ کرنا شروع کر دی ہے۔ لاکھوں روپے خرچ کر کے سعودی عرب، ایران اور عراق پہنچ جاتے ہیں۔ لوگ حج، عمرہ اور زیارتوں کے مقدس سفر میں ہوتے ہیں۔ ان کے دل بہت نرم ہو چکے ہوتے ہیں۔ ذرا سی کوشش سے ان کی جیبوں سے رقم نکلوانا آسان ہوتا ہے۔ اب حکومتِ پاکستان نے ان کی روزی پر لات مارنے کا منصوبہ بنا لیا ہے۔
دیکھا جائے تو بھیک مانگنا ہماری قومی شناخت بن چکا ہے۔ ملک میں سیلاب یا زلزلہ آ جائے تو حکومت پوری دنیا کے آگے امداد کے لیے ہاتھ پھیلا دیتی ہے۔ کرونا کے دنوں میں ہمیں ویکسین تک بھیک میں دی گئی۔ آئی ایم ایف کا کشکول ہم ستر سالوں میں نہ توڑ سکے۔ دوسری طرف ایک کروڑ پاکستانی خاندانوں کو بے نظیر انکم سپورٹ کے نام پر ہم نے بھیک لینے والوں کی قطاروں میں سرکاری طور پر کھڑا کر دیا ہے۔ ایک کروڑ خاندانوں کے قریباً پانچ کروڑ افراد سرکاری بھیک پر گزارا کر رہے ہیں۔ پیشہ ور بھکاریوں کی بات کی جائے تو ہماری کل آبادی 24کروڑ میں سے 3کروڑ 80لاکھ افراد پیشہ ور بھکاری ہیں۔ گویا 24کروڑ میں سے 9کروڑ افراد کا گزارا بھیک پر ہے۔
دو ہزار انٹرنیشنل بھکاریوں کے پاسپورٹ ضبط کرنا مسئلے کا حل نہیں ہے۔ مسئلے کا حل یہ ہے کہ ملک کے اندر بھی بھیک پر مکمل پابندی عائد کی جائے۔ جہاں کوئی بھکاری نظر آئے بلدیہ والے اسے پکڑیں، اس کے ہاتھ میں جھاڑو دیں اور سڑکوں کی صفائی پر لگا دیں۔ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام معیشت پر بہت بڑا بوجھ ہے۔ اسے فی الفور ختم کر کے اس فنڈ کے لیے مخصوص کی گئی رقم سے ملک بھر میں کارخانے، فیکٹریاں اور صنعتیں قائم کی جائیں۔ اس سے بے روزگاری کا خاتمہ بھی ہو گا اور مصنوعات ایکسپورٹ کر کے قیمتی زرِ مبادلہ بھی ملک میں لایا جا سکے گا۔ دنیا میں بدنامی کے ڈر سے اپنے چند ہزار بھکاریوں پر سختی اور کروڑوں بھکاریوں کی سرکاری سرپرستی مستحسن کام نہیں ہے۔