فرنگی کے ملک میں پینے کا پانی

علی حسن
لندن سے حال ہی میں آئے ہوئے ایک پاکستانی دوست کے ساتھ ہم کھانا کھا رہے تھے۔ دوران گفتگو جیسا اکثر پاکستانیوں کے ساتھ ہوتا ہے، وہ پاکستان کے حالات کا رونا روتے ہیں۔ ہم بھی ان ہی حالات کا ماتم کر رہے تھے۔ لندن والے دوست نے بوتل کے پانی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ لندن میں تو ہم تسلی کے ساتھ نلکے کا پانی پیتے ہیں۔ نلکے کا پانی اتنا ہی صاف ستھرا ہوتا ہے جتنا بوتل کا پانی اور کوئی بھی شخص اطمینان کے ساتھ اسے پی سکتا ہے۔ لندن کی شہری بوتل والا پانی کم تعداد میں پیتے ہیں۔ نلکے کا پانی تو ایک زمانے میں ہم پاکستانی بھی پیا کرتے تھے ۔ میرے گھر میں میری ماں رات کو مٹکے کو نلکے کے پانی سے بھرتی تھیں اور اس میں پھٹکری کا ایک پھیرا لگاتی تھیں ۔ آنگن میں یہ مٹکا رات بھر رکھا ہوا ہوتا تھا، دوسرے دن صبح سے سارے گھر والے یہ پانی ہی پیا کرتے تھے۔ آج ہم ہیں کہ نلکے کا پانی کسی صورت میں پی ہی نہیں سکتے۔ بوتل کا پانی پیئیں گے۔ پلاسٹک کے بنے ہوئے کین کا پانی پیئیں گے۔ معروف کمپنیوں کے پانی کے علاوہ پانی کی پانی کے بارے میں ہمیں خبر ہی نہیں ہوتی کہ یہ پانی قابل اعتماد اور قابل استعمال ہی بھی یا نہیں۔ ہم کیوں کہ مجبور ہیں کہ ہمارے پاس پینے کے پانی کا کوئی متبادل انتظام نہیں ہے اس لئے ہم اس غیر تصدیق شدہ پانی کو استعمال کرتے ہیں اور اسی پر بھروسہ کرکے اپنی پیاس بھجاتے ہیں۔ نہروں کا غیر شفاف اور آلودہ پانی پینے سے لوگ پیٹ کی بیماریوں کے علاوہ گردوں اور جگر کی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں اور طویل دورانیہ کے مہنگے علاج میں پھنس جاتے ہیں۔ حکمران پانی کو پینے کے قابل کرنے، شفاف بنانے اور بہتر کرنے کی بجائے علاج پر زور دیتے ہیں۔
قیام پاکستان کے بعد سے ہمارے ذہنوں میں یہ بات ٹھونس دی گئی ہے کہ فرنگی ہماری ساری دولت اور اثاثے سمیٹ کر برطانیہ لے گیا اور ہمیں کنگال کر گیا۔ یہ الزام ممکن ہے درست ہو لیکن وہ انگریز جس نے ہمیں تعلیم سے روشناس کیا، جس نے سڑکیں تعمیر کر کے دیں، جس نے سفر کے لئے ریل کی پٹری بچھائی اور ریل چلائی، شہروں کے طول و عرض میں سفر کے لئے بسیں چلائیں۔ ہمارے شہروں میں بسوں کو تباہ و برباد کر دیا گیا جبکہ ان کے ہاں پبلک ٹرانسپورٹ کا بہترین نظام موجود ہے۔ شائد انگریز نے ہمارے نظام ٹرانسپورٹ کو تباہ کیا۔ روشنی کے لئے بجلی کا انتظام کیا، جس نے انصاف کے لئے عدالتی نظام قائم کیا، جس نے امن و امان کے قیام کے لئے پولس مقرر کی، وغیرہ ۔ غرض وہ ساری سہولتیں جن سے ہم آج مستفید ہو رہے ہیں، فرنگی نے ہی پیدا کیں۔ فرنگی تو چلا گیا لیکن اس کی سہولتوں کے بچھائے ہوئے جال برقرار ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ہمارے حکمران اسے بہتر نہیں بنا سکے۔ پائپ لائن کے ذریعہ پانی کی فراہمی کا نظام اس نے ہی قائم کیا تھا۔ پھر کیا ہوا کہ فرنگی نے تو اپنے ملک میں آج بھی پینے کے لئے نلکے کے پانی کو اس قابل کیا ہوا ہے کہ اس کے شہری فخر سے کہتے ہیں کہ لندن میں نلکوں کا پانی اتنا ہی بہتر ہے جتنا بوتل کا پینے کا پانی۔ ہمارے ملک میں تو بوتل کے مہنگے پانی پر بھی اعتبار نہیں کیا جاسکتا ہے۔ کیا فرنگی قابل اعتبار نہیں تھا یا اس کے خلاف پروپیگنڈا نا قابل یقین ہے۔ یا یہ پروپیگنڈا ہمارے حکمرانوں کی ایک چال ہے کہ عوام کو انگریزوں کے خلاف بد ظن کر کے اپنی ناکامیوں، کوتاہیوں اور چوریوں پر پردہ ڈالا جائے۔ ہمارے ملک میں آج بھی ایسے تعلیم یافتہ لوگ ہیں جو سمجھتے ہیں کہ ہماری غیر مکمل تعلیم اور تربیت کے باوجود انگریز کو بر صغیر سے جانا نہیں چاہئے تھا۔
انگریز کے ہاں تو نلکوں کا پانی ہر وقت قابل استعمال ہے۔ کیا ہمارا حکمران طبقہ اپنے گھروں میں لگے ہوئے نلکوں کا پانی تسلی کے ساتھ پی سکیں گے۔ پورے ملک میں بجلی کی فراہمی میں ایک منٹ کا تعطل بھی نہیں ہوتا ہے۔ کیا فرنگی ہماری بجلی بھی لے گیا جس کی وجہ سے ہمارے عوام کو کہیں کہیں تو سولہ اور اٹھارہ گھنٹے تک بجلی کے بغیر رہنا پڑتا ہے۔ اتنے بڑے وقفے کے تعطل نے عام لوگوں کے کاروبار کو بری طرح نقصان زدہ کر دیا ہے اور ان کا جینا دوبھر کر دیا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ ملک بھی کے تمام صنعتی کارخانوں کی پیدا وار کو تباہ کر دیا ہے۔ بر آمد کا حجم بہت مختصر ہو گیا ہے۔
تعجب کی بات یہ ہے کہ اعلیٰ سرکاری عہدیداروں کے دفاتر اور گھروں کی بجلی میں ایک منٹ کا تعطل بھی پیدا نہیں ہوتا ہے۔ ان کے لئے سرکاری خرچ پر ایسا انتظام کیا گیا ہے کہ بجلی کا جھٹکا بھی نہ آئے۔ اس ملک میں پاکستان کے آئین کے مطابق تمام انسان برابر کی حیثیت کے حامل اور حقدار ہیں تو صدر پاکستان ، وزیر اعظم ، تمام وزراء کو فراہم کی جانے والی بجلی میں بھی اتنا ہی تعطل ہونا چاہئے جتنا ایک عام شہری کے لئے ہوتا ہے۔ انہیں بھی تو احساس ہو کہ بجلی کی فراہمی میں تعطل کے دوران آنے والا پسینہ دماغ کی چولیں ہلا دیتا ہے ۔ انہیں بھی تو اس تجربہ سے گزرنا چاہیے۔
صحت کا نظام، تعلیم، علاج و معالجہ، روز گار ، سوشل ویلفیئر پروگرام کا نظام پاکستان میں برائے نام ہے اور جو ہے بھی وہ افسران کی لوٹ مار کی نظر ہو جاتا ہے۔ صدر پاکستان آصف علی زرداری کی ٹرانسپورٹ فلیٹ کا بجٹ چوالیس کڑوڑ روپے رکھا گیا ہے۔ عوام کے لئے شہروں کے اندر اور ایک شہر سے دوسرے شہر تک سفر کرنے کی کوئی سرکاری سہولت نہیں ہے۔ سابق صدر عارف علوی کی سفری گاڑیوں کا کل بجٹ نو کروڑ روپے تھے۔ ترکیہ کے وزیر اعظم طیب اردگان نے اعلان کیا ہے کہ 65 برس کی زائد عمر کے شہریوں کے لئے ایک گھر، فری میڈیکل انشورنس، تین سو ڈالر ماہانہ خرچہ تمام زندگی کے لئے، اور ایک حج حکومت کے خرچہ کی سہولتیں ہوں گی۔ اپنے معمر شہریوں کے لئے کئی منفعت بخش سہولتوں کا اعلان کیا ہے۔ پاکستان میں معمر شہری ہر قسم کی سہولت سے محروم دھکے کھاتے پھرتے ہیں۔ یہاں تمام سہولتیں حکومت کی طرف سے مراعات یافتہ لوگوں کے لئے ہوتی ہیں۔ تمام ذمہ دار اور با اختیار لوگوں کو چاہئے کہ اپنی سہولتوں اور مراعات کا کچھ حصہ عام شہریوں کی طرف منتقل کرنا پڑے گا۔ حکمران طبقہ جب تک اپنی سرکاری سہولتوں سے دست بردار نہیں ہوگا، شہریوں کے لئے سہولتوں کا بھرپور انتظام نہیں کیا جائے گا اس وقت تک ملک میں افراتفری ، خلفشار جیسی صورت حال ہی برقرار رہے گی۔