CM RizwanColumn

ڈوب مرنے کے مقامات کثیرہ

سی ایم رضوان
وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے پاس جانا ہماری مجبوری تھی، اب اگر تلخ فیصلے نہ کیے تو دوبارہ آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا۔ کوئٹہ میں کسان پیکیج کے دستخط کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ان کا یہ کہنا دراصل موجودہ مہنگائی اور عام پاکستانی کی زندگی اجیرن کر دینے کے حالیہ حکومتی اقدامات اور بجٹ کے ذریعے ڈھائے گئے مظالم کا جواب، جواز اور بہانہ پیش کرنا تھا اور ساتھ ہی انتہائی فنکاری سے انہوں نے کہا کہ وفاق بلوچستان سے مل کر صوبے کے 28ہزار ٹیوب ویلز کو شمسی توانائی پر منتقل کرے گا، اس منصوبے پر 55ارب روپے کی لاگت آئے گی جس میں 70فیصد وفاق اور 30فیصد بلوچستان حکومت ادا کرے گی۔
اور یہ بھی کہہ دیا کہ ٹیوب ویلز کے شمسی توانائی پر منتقل ہونے سے کسان خوشحال ہو جائے گا۔ قارئین! یہ وہ فقرہ ہے جو ہر چھوٹا بڑا حکمران ہمیشہ سے بولتا آیا ہے مگر کبھی بھی یہ خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوا ہے اور موجودہ حکومت کے لچھن دیکھ کر بھی یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ آئندہ بھی کسان کبھی خوشحال نہیں ہو گا، انہوں نے یہ بھی کہا کہ وفاق نے دس سال میں ٹیوب ویلز کے لئے بجلی کے بلز کی مد میں 500ارب روپے دینے ہیں، ہر سال 70سے 80 ارب روپے بجلی کے بلز کی مد میں ادا کیے جا رہے ہیں لیکن بجلی کے بل ادا نہیں ہوتے جس کا بوجھ وفاق اٹھا رہا ہے۔ مطلب یہ کہ ایک طرف اس مد میں وفاق سے رقم بھجوا کر چند جیبوں میں پہنچا دی جاتی ہے اور دوسری طرف سے آئی پی پیز کے ذریعے ایک کثیر حصہ حکمرانوں اور ان کے عزیزوں کے پاس چلا جاتا ہے اور یہ سلسلہ گزشتہ کئی سالوں سے جاری ہے مگر شہباز شریف سمیت کسی بھی سابقہ حکمران نے شرم سے ڈوب مرنے کا قابل فخر کارنامہ کبھی بھی سر انجام نہیں دیا۔ یہی حقیقت تسلیم کرتے ہوئے شہباز شریف کا کہنا تھا کہ بلوچستان ترقی کی دوڑ میں پیچھے ہے خود ہی مان بھی لیا کہ جس کی کئی وجوہات ہیں، اگر 500ارب سبسڈی کا پیسہ بلوچستان کی ترقی، خوشحالی پر لگا ہوتا تو آج یہاں ترقی ہوتی۔ وزیراعظم شہباز شریف کا مزید کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے پاس جانا مجبوری تھی، قرضوں نے ہماری نسلوں کو بھی گروی رکھ دیا ہے، قرضوں سے جان چھڑانے کے لئے وفاق، صوبے اور متعلقہ ادارے کام کریں گے تو آنے والی نسلیں دعائیں دیں گی، اگر تین سال بعد دوبارہ آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑا تو ہمارے لئے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔ حالانکہ اس ڈوب مرنے کے ان کے لئے اور بھی بہت سے مقامات ان کو مہیا ہیں۔ سب سے بڑی بات تو یہ ہے کہ وہ اس بار اس امر پر کیوں ڈوب نہیں مرتے کہ تیسری بار حکومتیں لے کر بھی وہ کچھ نہیں کر پا رہے کہ صرف شریف خاندان 80 کی دہائی سے محنت کر رہا ہے مگر ملک کا بیڑا پار نہیں ہو سکا اور رونا آج بھی وہی 1992والا ہی رو رہے ہیں کہ ملک کو ایشئین ٹائیگر بنائیں گے۔
گو کہ اس وقت وزیراعظم سمیت دیگر سٹیک ہولڈرز کی طرف سے بھی ملک کے سیاسی اور ریاستی معاملات کو درست سمت میں لانے کی کوششیں جاری ہیں تاہم پی ٹی آئی سمیت ماضی کی حکومتوں نے مسائل کو اتنا سنگین اور پیچیدہ بنا دیا ہے کہ اس صورتحال کو دیکھ کر شرم آتی ہے. اس وقت ملک کو جو بڑے چیلنجز درپیش ہیں ان میں معاشی بحران کا خاتمہ، سکیورٹی کے مسائل گورننس کے ایشوز اور سر اٹھاتی دہشت گردی سرفہرست ہیں تاہم پاکستان کو ایک سنگین مسئلہ ان منفی عناصر اور گروپس کی پروپیگنڈا مہم کا بھی درپیش ہے جو ایک مخصوص سیاسی پارٹی کے علاوہ بعض پاکستان مخالف غیر ملکی قوتوں کی ایک منظم اور اسپانسرڈ پراجیکٹ کے طور پر عوام بالخصوص نئی نسل کو غلط اور گمراہ کن معلومات کی بنیاد پر چلائی جا رہی ہے اور شہباز اور مریم حکومت بے بس بھی ہیں اور بے سروپا اقدامات کر رہی ہیں۔ جہاں تک سکیورٹی معاملات کا تعلق ہے گو کہ حالات اب کافی کنٹرول میں ہیں اور اس کی وجہ فورسز کی مسلسل کارروائیوں کو جاری رکھنا ہے مگر بعض سیاسی عناصر آپریشن عزم استحکام کی کھلم کھلا مخالفت کر کے انتظامی سٹریٹجی کو کمزور کر رہے ہیں۔ خیبر پختون خوا میں فورسز نے جہاں متعدد حملوں کو ناکام بنایا وہاں متعدد حملہ آوروں کو نشانہ بھی بنایا. ان کارروائیوں میں فورسز کے متعدد جوانوں نے جانوں کی قربانی دی. متعدد اضلاع کی بگڑتی صورتحال پر قابو پانے کی کامیاب کوشش کی گئی مگر پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت کی متضاد ڈائریکشن کسی بھی وقت اس مسئلے کو گھمبیر کر سکتی ہے۔ اقتصادی بحران ان تمام معاملات کو دوآتشہ کر رہا ہے اور تاحال موجود ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپیہ استحکام کی منزل سے کوسوں دور ہے اور غیر پیداواری اخراجات میں کمی لانے کی عملی کوششیں بھی موہوم ہیں.
خیبر پختونخوا کو حسب سابق ایک بار پھر اقتصادی بحران کا سامنا ہے۔ پاکستان کے خلاف جاری منظم منفی پروپیگنڈا پر خصوصی توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت ہے گو کہ اس وقت بھی ریاستی بیانیہ حقائق کی بنیاد پر ایک کائونٹر اسٹریٹجی کے تحت کافی موثر انداز میں آگے بڑھتا دکھائی دینے لگا ہے مگر
سوشل میڈیا، فیک نیوز جیسے منفی پروپیگنڈے بھی ایک خطرناک مشین کی شکل اختیار کر کے ساتھ ہی ساتھ کام کر رہے ہیں۔ اس پر نہ صرف یہ کہ سخت چیک اینڈ بیلنس رکھنے کی ضرورت ہے بلکہ ایک جینوئن اور منظم کائونٹر اسٹریٹجی بنانے کی ضرورت ہے تاکہ نئی نسل کو اس منفی پروپیگنڈا کے اثرات سے بچایا جا سکے۔
یہ امر بھی اہم ہے کہ جب کسی ملک کے عام گلی محلوں سے عام لوگوں کے ساتھ رہائش پذیر دہشت گرد گرفتار ہوں اور جب عام شہریوں کے ساتھ ساتھ اہم اداروں کے افسران اور معروف ہستیوں کے قاتل بھی قانون کی گرفت میں نہ آ سکیں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اس ملک کو قانون کے نفاذ میں سنگین مسائل درپیش ہیں۔ ہم سب کے لئے بالعموم اور ہمارے حکمران طبقے کے لئے بالخصوص شرم سے ڈوب مرنے کا مقام ہے کہ پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے متعدد ادارے موجود ہیں جن میں پولیس سمیت خفیہ ادارے، سکیورٹی فورسز بھی شامل ہیں مگر پولیس جو کہ قانون نافذ کرنے کے حوالے سے ریاست کی سب سے بڑی کارگزار اور مرکزی نمائندہ ہے وہ خود سب سے زیادہ بے عملی اور عدم توجہی کا شکار ہے۔ گزشتہ روز کراچی میں سی ٹی ڈی آفیسر علی رضا کی ٹارگٹ کلنگ ایک چونکا دینے والا واقعہ ہے جس کے فوری ازالہ کی ضرورت ہے۔ اس کے ذمہ داروں اور سہولت کاروں کی بازیابی اور سزا اس حوالے سے اہم ہے کہ اس وقت دہشت گردوں کو ایک واضح پیغام جانا چاہیے کہ وہ جتنے بھی منظم اور خطرناک ہوں حکومت ان کو نیست و نابود کرنے کی طاقت اور لیاقت رکھتی ہے۔ ملک بھر میں جرائم کی بڑھتی ہوئی شرح، دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے واقعات، دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی اور طالبان کی طرف سے مجرمانہ واقعات پاکستانی پولیس کی کمزور حالت کی بڑی وجوہات میں سے چند ایک ہیں۔ پولیس کو مستحکم کرنے کے لئے اس میں سیاسی و انتظامی مداخلت کو کم کرنا بھی انتہائی ضروری ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس مداخلت کے باعث قانون نافذ کرنے والے ادارے آزادانہ طور پر کام نہیں کر سکتے خاص طور پر پولیس کی کارکردگی متاثر ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ پولیس کے اندر پیشہ ورانہ صلاحیتوں اور اہلیتوں کی کمی بھی ایک اہم وجہ ہے۔ اداروں کے مابین پیشہ ورانہ رقابت، استعدادی تعمیر کا فقدان اور معاشی و تکنیکی ضروریات کی عدم فراہمی بھی شامل ہیں۔ بین الاقوامی اداروں کی طرف سے آنے والے فنڈز بھی پولیس تک پہنچنے سے پہلے ہی دفاعی شعبے کی نذر ہو جاتے ہیں. یہ پاکستانی پولیس کی ناکامی کی کئی وجوہات میں سے چند ہیں۔ دہشت گردی کے خاتمے کے لئے اب تک پیش کی گئی سفارشات میں سرفہرست بنیادی سطح پر تھانوں میں ماہر تفتیش کاروں کی فراہمی ہے۔ ایک ایسے جامع پروگرام کی بھی ضرورت ہے جو پولیس کو کلیدی کردار دے۔ خفیہ اداروں کے مابین معلومات کے تبادلے اور دہشت گردی کی روک تھام کے لئے پولیس، آئی بی اور آئی ایس آئی کے درمیان تعاون بھی اہم کردار کا حامل ہے۔ داخلی تحفّظ کے قیام کے لئے پولیس اور مسلّح افواج کے مابین تعاون کو یقینی بنانے اور پولیس کارکردگی کو بہتر بنانے کے لئے جوانوں اور نچلی سطح کے افسران کا فوج سے پولیس میں مقرر کیا جانا بھی اہم ہے۔ بلوچستان میں پولیس اور لیویز کے مابین رقابت کو کم کرنے کے لئے زیادہ سے زیادہ مقامی افراد کو بھرتی کیا جانا بھی ضروری ہے۔
پولیس پر بڑھتی ہوئی تنقید کے ساتھ ساتھ حال ہی میں انتظامی خامیوں میں بہتری کی کوششیں بھی جاری ہیں۔ پولیس آرڈر 2002ملک میں پولیس کی کارکردگی کو بہتر بنانے کے لئے ایک تعمیری قدم تھا تاہم سیاسی دخل اندازی اور اثر و رسوخ کے نتیجے میں یہ آرڈر اپنے مقاصد حاصل کرنے میں کامیاب نہ ہو سکا جو کہ ایک کمزور سیاسی ارادے کا عکاس ہے۔ ضروری ہے کہ ایک ایسا آزاد اور قابل اعتماد نگران ادارہ قائم کیا جائے جو پولیس میں بدعنوانی اور دیگر شکایات سے نمٹ سکے کیونکہ فی الوقت کوئی احتسابی عمل وجود نہیں رکھتا۔ پارلیمان کو چاہیے کہ وہ قانون سازی کے ذریعے ایسی خفیہ کمیٹیاں ترتیب دے جو بشمول آئی بی تمام خفیہ اداروں کی نگرانی کرے لیکن اگر سرسری اور نمائشی احکام و اقدامات پر ہی اکتفا کیا جائے تو قدیم تاریخ کے ایک ایسے حکمران کی مثال موجودہ حکمرانوں پر بھی صادق آ جائے گی جو نیرو کے نام سے مشہور ہے کہ جب روم جل رہا تھا تو وہ بانسری بجا رہا تھا۔

جواب دیں

Back to top button