خونی رشتوں سے فرد پریشان کیوں؟

تجمل حسین ہاشمی
کئی ایسے افراد کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں جو اپنے بہن بھائیوں اور خاندان کیلئے کسی بھی طرح کی قربانی کی پروا نہیں کرتے تھے۔ وہ ان کیلئے سب کچھ کر گزرتے تھے۔ ایسی زندہ دلی کو اس کی اپنی فیملی بیوقوفی سمجھتی تھی اور ہے۔ ہمارے ہاں معاشرہ کا طرز زندگی دوسرے معاشروں سے کافی مختلف ہے۔ ہمارے ہاں گھر کا ایک فرد کمائے گا اور پوری فیملی بیٹھ کر کھائے گی۔ وہی اچھے اور برے کا ذمہ دار ٹھہرایا جاتا ہے۔ گھر کے ہر فرد کی ضرورت کا اسی کو احساس ہے۔ میں کئی ایسے افراد سے مل چکا ہوں جو اپنے اس عمل پر افسوس کرتے ہیں۔ کل ایک انکل سے ملاقات ہوئی، کافی کمزور نظر آئے۔ ساری زندگی باہر ممالک میں کمائی کی اور اپنے رشتہ داروں، دوستوں کو ادھار دیا۔ لاکھوں روپے سب ملکر ہڑپ کر گئے۔ انکل کو پریشان حال دیکھ کر دل دکھی ہوا۔ باہر سے واپس آ کر خود کو کوستے ہیں۔ اپنے بچوں سے باتیں سنتے ہیں۔ ایسی صورت حال کے ذمہ دار کوئی دوسرے نہیں اپنے ہی خونی ہیں۔ اکثر لوگ اپنے بھائیوں اور رشتہ داروں کے رویوں سے دل برداشتہ ہیں۔ معاشرتی رویوں اور اپنوں کے ظلم کا شکار ہونیوالے ایک دوست نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اپنی کہانی سنائی۔ وہ کراچی آیا، کاروبار شروع کیا۔ اللہ نے ترقی دی، انتہائی ایماندار، محنتی، والدین کی خدمات کرنے والا، رشتوں کی لاج رکھنے والا۔ اپنے بڑے بھائی اور بھابی کے پاس رہتا، سارا دن محنت کرتا۔ اپنے دوسرے بھائیوں کیلئے کوشاں رہتا۔ ان کیلئے روزگار کا بندوبست کیا۔ اپنے کاروبار میں حصہ دار بنایا۔ وقت کے ساتھ کاروبار بڑی تیزی سے پھیل رہا تھا۔ دوسرے شہروں سے آئے مزدور اس کے پاس اپنی امانتیں رکھواتے تھے۔ وہ اپنا پیسہ، پلاٹ اور نقدی سب اپنے بھائی کو دیتا رہا۔ سارے پلاٹس اپنے بھائی کے نام کرتا رہا۔ وہ شادی کے قابل ہوا تو والدین نے اس فیصلے کا اختیار بھی اپنی بہو کو دیا۔ بھابی اس کی روزانہ کی آمدن سے خوب واقف تھی۔ وہ یہ خوب جانتی تھی کہ دوسری عورت کے آنے سے سارے معاملات اس کے ہاتھ سے نکل جائیں گے۔ حالات ویسے نہیں رہیں گے۔ بھابھی اس کا رشتہ اپنوں میں کرنا چاہتی تھی لیکن وہ اس شادی سے انکاری ہوگیا۔ اس نے بغاوت کرلی۔ خاندان سے باہر شادی کرلی لیکن اس کا کاروبار بھائیوں کے ساتھ اس عرصہ تک چلتا رہا۔ بھروسہ انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتا۔ چند سالوں تک وہ بھائی اکٹھے رہے۔ آپ یوں کہہ لو، بھائی کے بچوں نے اپنی اعلی ٰ تعلیم مکمل کرنے کے فوراً بعد بھائی نے کاروبار الگ کرنے کا فیصلہ کرلیا اور اس کے حصہ میں وہ کچھ آیا جو اس کے ہاتھ میں تھا۔ دو چار معززین حق نہ بول سکے کیوں کہ ان کے بھی اپنے مفادات تھے۔ اس کو خاندان سے باہر شادی کرنے کی سزا دیدی گئی۔ اس کے بچے بہت چھوٹے تھے۔ پوری مارکیٹ میں اس کی عزت تھی۔ سارا قرضہ اس کے ذمہ ڈال
دیا گیا۔ ساری جمع پونجی اس سے پہلے ہی لے لی گئی، وہ کچھ نہ کر سکا۔ اس کی بیوی روتی رہی۔ غیر ہونے پر کسی رشتہ دار کے کان پر جوں تک نہیں رینگی ۔ اس کے اپنے خون نے اس کو زمین پر کھڑا کر دیا۔ کروڑوں کمانے والا انسان اب گاہک کا انتظار کرتا ہے۔ سو سو روپے کیلئے مشکل میں ہے۔ وہ اپنے ماضی کے فیصلوں پر پشیمان ہے۔ موٹے آنسووں کے ساتھ اللہ سے معافی کا طالب ہے۔ ساری زندگی کی کمائی اپنے بھائیوں کے سکون، ان کی راحت کیلئے لگا دی لیکن جب اس کے اپنے بچوں کے سکون کی باری آئی تو اس کے پاس کچھ نہیں تھا، اس کی اولاد کے سامنے اس کو صرف چند الفاظ کہہ کر فارغ کر دیا کہ تم اپنے کئے کے خود ذمہ دار ہو، یہ سب کچھ تو ہم نے اپنی محنت سے کمایا ہے، تم جانو تمہارا کام جانے۔ بظاہر ایسی باتیں سننے اور پڑھنے والوں کو بے معنی لگیں گی لیکن ایسی صورت حال جس پر گزرتی ہے وہ بہتر جانتا ہے۔ پھر اپنوں کے ساتھ معاملات کو کیسے چلایا جائے؟ اس میں پریشانی والی کوئی خاص بات نہیں، بس دو چار باتوں کا خیال رکھیں گے تو یقیناً ایسی صورت حال سے محفوظ رہا جاسکتا ہے۔ ہمارے ہاں معاشرہ میں اس طرح کا طرز زندگی پایا جاتا ہے، اسی لئے تو انسانی رویوں میں تلخیاں ہیں جو بعد میں رشتوں میں ٹوٹ پھوٹ کا باعث بنتی ہیں۔ زندگی گزارنے کے دو چار بہترین اصول ہیں۔ اگر ہر فرد ان پر چلنا شروع کر دے تو یقیناً رشتوں میں تلخیاں نہیں ہوں گی۔ سب سے پہلے تعلق کو دو حصوں میں تقسیم کر لیں۔ تعلق کا ایک حصہ معاملات اور دوسرا حصہ اخلاقیات ہے۔ زندگی کو جب ان دو اصولوں پر چلائیں گے تو آسانی ہوگی۔ جب بھی معاملات کریں تو لکھت پڑھت ضرور کریں۔ لکھا ہوا باپ بیٹے میں بھی ہونا چاہئے۔ لیکن ہمارے معاشرہ میں لکھنے کو معیوب تصور کرتے ہیں، پھر بعد میں ایک دوسرے سے جنگ کرتے ہیں۔ بددعائیں دیتے ہیں۔ رشتے ختم ہو جاتے ہیں۔ دوسرا اہم حصہ اخلاقیات کا ہے، جس کی کسی کو سمجھ نہیں ہے۔ ہمارے ہاں لیں دین کو بھی اخلاقیات میں شامل کرتے ہیں جس کی وجہ سے نقصان کھاتے ہیں۔ ساری زندگی ان کے پاس پچھتاوے کے علاوہ کچھ باقی نہیں رہتا۔