حکومت نے ٹیکس ریونیو نہ بڑھایا تو بار بار آئی ایم ایف کے پاس جانا پڑے گا

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا کہنا ہے کہ ’اگر ہم اپنے ٹیکس محصولات میں اضافہ نہیں کرتے ہیں تو یہ ہمارا آخری آئی ایم ایف پروگرام نہیں ہوگا۔‘
برطانوی جریدے فنانشل ٹائمز کو سیے جانے والے ایک حالیہ انٹرویو میں پاکستان کے وزیرِ خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہ ’اس ماہ آئی ایم ایف کے ساتھ سٹاف لیول معاہدے تک پہنچنے کے لیے حکومت پر اُمید ہے۔‘ تاہم حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے اس معائدہ کا تخمینہ 6 سے 8 ارب ڈالر لگایا تھا۔ محمد اورنگزیب کا کہنا تھا کہ ’اگر ہم اپنے ٹیکس محصولات میں اضافہ نہیں کرتے ہیں تو یہ ہمارا آخری آئی ایم ایف پروگرام نہیں ہوگا۔‘
واضح رہے کہ گزشتہ ماہ جون میں قوم سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا تھا کہ ’جس طرح 2017 میں میاں نواز شریف نے آئی ایم ایف کو خیر آباد کہ دیا تھا انشا اللہ یہ جو (آئی ایم ایف کا) پروگرام ہم لینے جا رہے ہیں یہ پاکستان کی تاریخ میں آخری پروگرام ہوگا اور اُس کے بعد ہم انشا اللہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوں گے۔‘
وفاقی وزیرِ خزانہ کا فنانشل ٹائمز کو دیے جانے والے انٹرویو میں کہنا تھا کہ ’ملک کا انحصار درآمدات پر ہے جس کی وجہ سے قرضوں کی ادائیگی کے لیے مزید قرض لینا پڑتا ہے۔‘
وفاقی وزیرِ خزانہ نے مزید کہا کہ ’ہمیں قرضوں کی ادائیگی کی صلاحیت پیدا کرنے کی ضرورت ہے، جب تک معیشت درآمد پر مبنی رہے گی، ہمارے پاس ڈالر ختم ہوتے رہیں گے۔‘
انھوں نے یہ بھی کہا کہ ’لوگ رشوت، کرپشن اور ہراسانی کے ڈر سے ایف بی آر پر اعتماد نہیں کرنا چاہتے۔‘
وفاقی وزیرِ خزانہ کا کہنا تھا کہ ’ہمارے پاس اپنے پروگرام کے لئے پانچ سال نہیں ہیں۔ ہمیں اگلے دو سے تین مہینوں میں اپنی مثبت کارکردگی دکھانا پڑے گی۔‘
اس سے قبل نئے مالی سال 2024-25 کا بجٹ پیش کرتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا کہنا تھا کہ ’آئی ایم ایف پروگرام میں تاخیر نئے مالی سال کے اہداف کے حصول میں مُشکلات پیدا کر سکتی تھی۔‘