مریم نواز شریف کا دورہ گوجرانوالہ

تحریر : فیاض ملک
پہلوانوں کا شہر کہلانے والاگوجرانوالہ شمالی پنجاب، پاکستان کا ایک صنعتی و زرعی ڈویژن ہے، آبادی کے لحاظ سے گوجرانوالہ، کراچی، لاہور، فیصل آباد اور راولپنڈی کے بعد ملک کا پانچواں بڑا ڈویژن ہے، جس کی آبادی دو کروڑ سے زیادہ ہے، جہاں پر عمومی طور پر پنجابی، اردو وغیرہ بولی جاتی ہیں، اس کا پاکستان کی مجموعی جی ڈی پی میں حصہ 5 فیصد ہے ۔تاریخی طور پر اگر دیکھا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ گوجرانوالہ ،گجرات اور گجرخان وغیرہ علاقے گجر قوم سے منسوب رہے ہیں،گوجرانوالہ کو گوجروں نے آباد کیا جو کشمیر کے پہاڑوں پر آباد تھے اور بعد میں ایران کے شیرازی قبیلے نے اس شہر کا نام خان پور سانسی رکھا تاہم بعد میں اس کا پرانا نام بحال ہو کر گوجرانوالہ ہو گیا تھا ۔ مورخین نے اس شہر کے محل وقوع پر روشنی ڈالتے ہوئے لکھا ہے کہ پرانا گوجرانوالہ کچی کے علاقے میں آباد تھا اور شمالاً جنوباً پھیلا ہوا تھا، سکھ دوراقتدار میں کچی کو سول لائن کی حیثیت حاصل تھی کیونکہ بہت سے سکھ افسروں اور سرداروں کی حویلیاں اسی علاقہ میں تعمیر تھیں جبکہ مہاراجا رنجیت سنگھ گوجرانوالہ میں پیدا ہو اتھا لیکن اس نے اس شہرکی تعمیر و ترقی کیلئے وہ کچھ نہیں کیا جو اسے کرنا چاہیے تھا۔رنجیت سنگھ لاہور میں قبضہ کرنے تک گوجرانوالہ میں ہی رہا اور یہیں سے اپنی حکومت کا انتظام چلاتا رہا، لاہور کی فتح اور وہاں منتقلی تک گوجرانوالہ سکھ حکومت کے دار الحکومت کے طور پر معروف رہا۔ مہاراجا رنجیت سنگھ کے بعد اس کے وارث اسکے استحکام اور عظمت کو برقرار نہ رکھ سکے اور انگریزی اقتدار نے سکھ حکومت کو ہڑپ کر لیا۔ حکومت برطانیہ نے بعد میں پورے پنجاب پر قبضہ کر لیا، انگریز دورِ حکومت میں جن شخصیات نے اس شہر کی تعمیر و ترقی کے سلسلہ میں خاص کردار ادا کیا ان میں کرنل کلارک اور مسٹر آرتھر برانڈتھ خاص طور سے قابل ذکر ہیں، کرنل کلارک گوجرانوالہ کے انگریز ڈپٹی کمشنر تھے انھوں نے بعض نئی عمارات اور دروازے تعمیر کرائے اور حویلی مہاں سنگھ کو منہدم کروا نے کے بعد وہاں پر ایک مربعی بازار تیار کرایا اور اس کا نام رنجیت گنج رکھایہ بازار بڑا خوبصورت تھا۔یہی نہیں گوجرانوالہ کے ایک اور ڈپٹی کمشنر مسٹر آرتھر برانڈرتھ نے شہر کو خوبصورت بنانے کیلئے پرانی عمارات کے کھنڈروں پر کئی عمارات تعمیر کیں تھی۔ انھوں نے گوجرانوالہ میں کھیالی دروازہ ، لاہوری دروازہ اور سیالکوٹی دروازہ تعمیر کرائے، ان دروازوں میں سے سیالکوٹی دروازہ لاہوری دروازہ اور برانڈرتھ مارکیٹ اب بھی قائم ہیں لیکن کھیالی دروازہ منہدم ہو چکا ہے جس کے محض آثار ہی تلاش کیے جا سکتے ہیں،بلاشبہ رقبہ2426 مربع کلومیٹر پر پھیلا ہوا گوجرانوالہ ایک صنعتی مرکز ہے اور زرعی علاقہ بھی، یہاں پر پنکھا سازی اور کپڑا سازی مرکزی صنعت ہیں ، قارئین کرام: گزشتہ دنوں وزیر اعلی پنجاب مریم نواز شریف نے گوجرانوالہ کا پہلا دورہ کیا تھا جس میں انہوں نے موٹروے سے ملانے والی نئی ایکسپریس وے کا افتتاح کیا بلکہ گوجرانوالہ علی پور تا قادر آباد روڈ کا سنگ بنیاد رکھا،اس موقع پر انہوں نے گوجرانوالہ کیلئے چار میگا پراجیکٹس کا اعلان کیا ، جس میںچند دا قلعہ پر ٹریفک کی روانی کیلئے فلائی اوور، سرکاری سطح پر پہلا سٹیٹ آف آرٹ کارڈیک ہسپتال، پیڈز اور برن یونٹ کا قیام، گوجرانوالہ کی چھوٹی بڑی سڑکوں کی تعمیر ومرمت اور پارکس بنانے کیلئے فوری اقدامات کی ہدایت کی ، اس موقع پر کمشنر آفس میںاعلی سطحی اجلاس ہوا جس میں ریجن میں جاری ترقیاتی منصوبوں پر بریفنگ دی گئی، انہوں نے گوجرانوالہ میں فیلڈ ہسپتال اور کلینک آن وہیل کی تعداد بڑھانے کی ہدایت کی، وزیر اعلیٰ پنجاب کا چلڈرن ہسپتال اور ڈی ایچ کیو ہسپتال کا دورہ بھی کیا جہاں انہوں نے زیر تعمیر ہسپتال کی عمارت کی تزئین آرائش کا کام جلد مکمل کرنے کی ہدایت کی۔ اس موقع پر وزیر اعلیٰ مریم نوازنے کمشنر آفس میں گوجرانوالہ پولیس کی کارکردگی پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے سی پی او گوجرانوالہ ایاز سلیم کی کارکردگی کو سراہا ،انہوں نے پولیس کے سپیشل انیشی ایٹو ، خدمت مرکز ، پتنگ بازی ، منشیات کے خلاف پولیس آپریشن ، بھتہ خوری کے خاتمہ ، خواتین سے متعلق کیسز میں پولیس کارکردگی اور ایکسٹراڈیشن سیل کی بھی تعریف کی گئی ، اس موقع پر گوجرانوالہ کے پولیس تھانوں کی تعریف کرتے ہوئے مریم نواز نے کہا کہ ایسا تو میرا دفتر بھی نہیں جیسے گوجرانوالہ کے تھانے ہیں،قارئین کرام! سی پی او کے عہدے پر فائز ڈی آئی جی رانا ایاز سلیم جہاں بھی تعینات رہے وہاں کے لوگ ان کے کام کو نا بھلا سکے ،وہ مخلوق خدا کی خدمت کرنا اپنا اولین فرض گردانتے ہیں، ان کا شمار پاکستان پولیس سروس کے فرض شناس، قابل اور ایماندار افسران میں ہوتا ہے۔ رانا ایاز سلیم کا تعلق پولیس سروس آف پاکستان کے 31 ویں کامن سے ہے،پیشہ ورانہ کیرئیر کے دوران رانا ایاز سلیم پنجاب اور سندھ کے مختلف اضلاع میں اہم عہدوں پر فائض رہے، انہوں نے 2004میں بطور اے ایس پی پولیس سروس آف پاکستان جوائن کی،انہوں نے بطور اے ایس پی درخشاں ، فیروز آباد اور کھارادار کراچی کے ساتھ ساتھ سنٹرل پولیس آفس کراچی اور لاہور کے علاوہ سپیشل برانچ پنجاب میں بھی اپنی خدمات انجام دی ہیں، وہ بطور ایس ڈی پی او چنیوٹ سرکل جھنگ، ڈیفنس سرکل لاہور بھی تعینات رہے۔ انہوں نے بطور ایس پی ماڈل ٹائون لاہور اور صدر فیصل آباد بھی ذمہ داریاں نبھائی ہیں،رانا ایاز سلیم نے بطور ڈی پی اوخانیوال، ساہیوال، ننکانہ صاحب اور اٹک فرائض سر انجام دئیے، وہ ایس ایس پی ایڈمن، انویسٹی گیشن اور ٹیلی کمیونیکیشن اینڈ ٹرانسپورٹ بھی تعینات رہ چکے ہیں۔
، میرا ان کے ساتھ اس وقت سے احترام اور محبت کا رشتہ ہے جب وہ اے ایس پی ڈیفنس لاہور تعینات ہوئے تھے اور میں روزنامہ ( خبریں ) کے شعبہ کرائم رپورٹنگ سے منسلک تھا ، اس صحافتی کیرئیر میں وہ ان چند پولیس افسران میں سے ہیں جن سے میرا خلوص اور بے لوث تعلق ہے۔ انہوں نے بطور ایس ایس پی ایڈمن لاہور پولیس کی ویلفیئر کیلئے گرانقدر اقدامات کئے ،شہداء کی فیملیوں کی سہولت کی خاطر منفرد نوعیت کا سوفٹ ویئر بنا کر دینا ،شہدا کو ان کا اصل مقام دینا ، ان کی اہلکار دوست پالیسی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ انہوں نے بطور سی پی او گوجرانوالہ یہاں کے باسیوں کو پولیس ورکنگ سے روشناس کراتے ہوئے پولیس لائنز، تھانہ جات، فرنٹ ڈیسک، پولیس خدمت مرکز، پولیس تحفظ مرکز اور میثاق سینٹر کی عوامی خدمات کے حوالے گرانقدر اقدامات کئے،جس کا مقصد پولیس اور عوام کے درمیان خلیج کا خاتمہ اور پولیس کے سوفٹ امیج کو نمایاں کرنا ہے، اسی طرح قبضہ گروپوں کیخلاف کی جانے والی کارروائیوں پر گوجرانوالہ کے باسیوں کے ساتھ ساتھ اوورسیز پاکستانیوں نے بھی پولیس کی کارکردگی کو سراہا، یہی نہیں زبانی جمع خرچ کی بجائے عملی طور پر شہر سے ریکارڈ یافتہ بدمعاشوں کا صفایا اور منشیات فروشوں کے خلاف منظم کارروائیوں کو بھی عوام میں پسندیدگی کی نظر سے دیکھا گیا ، بطور سی پی او انہوں نے گوجرانوالہ پولیس میں جرائم پیشہ عناصر کی سرپرستی کرنیوالی کالی بھیڑوں کے خلاف بھی زبانی جمع خرچ کی بجائے عملی طور پر ان کے خلاف سخت محکمانہ کارروائیاں کی۔ رانا ایاز سلیم کے ان اقدام سے پولیس اور عوام کے درمیان حائل خلیج میں بھی واضح طور پر کمی واقع ہوئی ، اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ گوجرانوالہ کی تاریخ میں پہلی بار اراکین اسمبلی نے بھی شکایتیں لگانے کی بجائے اجتماعی طور پر پولیس اور سی پی او گوجرانوالہ رانا ایاز سلیم کی دل کھول کر تعریف کی، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ گوجرانوا لہ کی عوام اپنی پولیس کی مجموعی کارکردگی سے مطمئن ہے جوکہ ایک خوش آئین بات ہے۔