ColumnHabib Ullah Qamar

شہید برہان وانی اور تحریک آزادی کشمیر

حبیب اللہ قمر
کشمیری کمانڈر برہان مظفر وانی کی بھارتی فوج کے ہاتھوں شہادت کو آٹھ برس گزر چکے ہیں۔ 8جولائی کو کشمیر سمیت دنیا بھر میں ان کا آٹھواں یوم شہادت منایا جا رہا ہے۔ اس دوران حریت کانفرنس کے قائدین کی اپیل پر پورے کشمیر میں ہڑتال اور احتجاجی مظاہرے کئے جائیں گے۔ بھارت سرکار کو اچھی طرح معلوم ہے کہ کشمیری عوام شہداء سے خصوصی محبت رکھتے ہیں اور کسی شہید کا جنازہ ہو یا کسی کا یوم شہادت منایا جارہا ہو تو پورا کشمیر اس حوالہ سے منعقدہ پروگراموں میں امڈ آتا ہے اس لئے برہان وانی کا یوم شہادت آتے ہی بھارتی فوج نے پورے کشمیر کو فوجی چھانی میں تبدیل کر رکھا ہے اور سرگرم کشمیریوں کو حراست میں لیکر تھانوں میں بند کیا جارہا ہے۔ بھا رتی فوج نے وادی کشمیر کے حساس علاقوں میں خاص طور پر اضافی نفری تعینات کر دی ہے۔ مقامی کشمیریوں کے گھروں پر چھاپوں کے دران توڑ پھوڑ اور قیمتی اشیاء کو نقصان پہنچانے کے واقعات پیش آرہے ہیں۔ برہان وانی کے یوم شہادت پر ان کی رہائش گاہ پر کشمیریوں کی آمد کا سلسلہ جاری ہے۔ کشمیری قوم کی یہی وہ شہداء سے عقیدت و محبت ہے کہ بھارتی فوج اور حکومت اس پر سخت نالاں ہیں ، انہی وجوہات کی بنیاد پر کچھ عرصہ قبل اس امر کا فیصلہ کیا گیا کہ کشمیری شہداء کی لاشیں ان کے اہل خانہ کے حوالے نہ کی جائیں تاکہ کشمیری عوام دور دراز کے علاقوں سے شہداء کی نماز جنازہ میں شریک نہ ہو سکیں۔ بھارتی فورسز کی جانب سے بی جے پی سرکار کو درخواست کی گئی تھی کہ وہ شہداء کی لاشوں کو خاموشی سے دفنا دے کیونکہ جب لاکھوں لوگ جنازوں میں شریک ہوتے ہیں اور لوگوں کی وارفتگی کا عالم دیکھتے ہیں تو بہت سے پڑھے لکھے نوجوان کشمیری مجاہدین کی صفوں میں شامل ہو کر ہندوستانی فوج کیخلاف برسرپیکارہو جاتے ہیں۔ فورسز اہلکاروں کے اس مطالبہ کے بعد بھارتی فوج کی جانب سے چند ایک شہداء کو راز داری سے دفن بھی کیا گیا تاہم سوشل میڈیا پر تصاویر اپ لوڈ ہونے سے یہ بھید کھل گیا اور ہزاروں کشمیریوں نے شہداء کا جسد خاکی اہل خانہ کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا جس پر یہ سلسلہ زیادہ دیر تک چل نہیں سکا۔
دنیا گواہ ہے کہ اکیس سالہ برہان وانی کی شہادت نے تحریک آزادی کشمیر میں ایک نئی روح پھونک دی ہے اور کشمیر کی سبھی سیاسی و مذہبی جماعتیں اور عوام جس طرح آج متحد نظر آتے ہیں اس سے پہلے کبھی ایسی صورتحال پیدا نہیں ہوئی یہی وجہ ہے کہ بھارت سرکار سخت بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔ بھارتی آرمی چیف، وزیر دفاع اور دیگر جرنیلوں و عسکری ماہرین کی طرف سے کشمیر کے دورے آئے دن کا معمول بن چکے ہیں۔ برہان وانی کی نماز جنازہ میں تین لاکھ سے زائد افراد نے شرکت کی۔ کرفیو کی پابندیاں توڑتے ہوئے لاکھوں افراد سڑکوں پر آئے تو بھارتی فوج نے اپنے تئیں مظاہروں پر قابو پانے کیلئے جنازہ کے شرکاء پر اندھا دھند گولیاں برسا دیں جس سے مزید کئی کشمیری شہید ہو گئے۔ ہندوستانی فورسز کی اس درندگی پر پورے کشمیر میں آگ بھڑک اٹھی اور ہر گلی محلہ سے نوجوان سڑکوں پر نکل کر بھارتی فوج کیخلاف غم و غصہ کا اظہار کرنے لگے۔ اس وقت بھی صورتحال یہ ہے کہ کشمیر میں تحریک آزادی پورے عروج پر ہے۔ بھارتی فوج ہر قسم کے وسائل اور صلاحیتیں صرف کرنے کے باوجود جدوجہد آزادی کشمیر پر قابو پانے میں کامیاب نہیں ہو سکی ۔ بھارتی فورسز نے پیلٹ گن، پاوا شیل اور دیگر مہلک ہتھیار استعمال کر کے دیکھ لئے۔ سینکڑوں کشمیر یوں کی آنکھوں کی بینائی چلی گئی ، ہزاروں زخمی ہوئے، کشمیری تاجروں کو اربوں روپے مالیت کا نقصان اٹھانا پڑا، ان کی فصلیں اور املاک تباہ کر دی گئیں لیکن کشمیریوں کے جذبہ حریت میں کوئی کمی نہیں آئی۔ وہ روزانہ اپنے جگر گوشوں کی لاشیں اٹھاتے اور پاکستانی پرچموں میں لپیٹ کر دفن کرتے ہیں۔ سبز ہلالی پرچم کشمیر میں ایسے نظر آتے ہیں جیسے لاہور، کراچی، اسلام آباد اور دیگر شہروں میں لہرائے جارہے ہوں۔
ہندوستانی حکومت اور فوج کیخلاف نفرت کا ایک طوفان ہے جو ہر کشمیر ی بچے، بوڑھے اور نوجوان کے دل میں ہے۔ اس سار ی صورتحال نے ہندوستانی حکام، فوج اور عسکری اداروں کو سخت تشویش میں مبتلا کر رکھا ہے۔ بی جے پی کی نریندر مودی حکومت کی جانب سے کشمیریوں کی دن بدن مضبوط ہوتی جدوجہد آزادی کو کچلنا اس وقت سب سے بڑا چیلنج بن چکا ہے۔ کشمیریوں کا حریت پسندوں کے تحفظ کیلئے اپنی جانوں پر کھیل جانا معمول بن چکا ہے۔ جہاں کہیں کشمیری مجاہدین گھیرا میں آتے ہیں مرد و خواتین، بچے اور بوڑھے ہزاروں کی تعداد میں سڑکوں پر نکل کر بھارتی فورسز پر پتھرائو کرتے ہیں اور عسکریت پسندوں کے تحفظ کیلئے اپنی جانیں قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا جاتا۔ کشمیر کے یہ حالات دیکھ کر بھارتی عسکری حکام نے بوکھلاہٹ میں کشمیریوں کو کھلی دھمکی دی کہ اگر وہ کشمیری مجاہدین کے تحفظ کیلئے بھارتی فوج کا محاصر ہ توڑنے کی خاطر پتھرائو سے باز نہ آئے تو پتھر کا جواب گولی سے دیا جائے گا اور ایسا کرنے والوں کے ساتھ باغیوں کی طرح نمٹا جائے گا لیکن یہ دھمکیاں کسی کام نہیں آئیں۔ کشمیر کے عملی حالات یہ ہیںکہ جہاں کہیں کوئی کشمیر ی مجاہد گھیرائو کے دوران شہید ہو تا ہے تو دوسرے علاقوں کے لوگ مقامی کشمیریوں کو طعنے دیتے ہیں کہ تم گھروں سے کیوں نہیں نکلے اور یہ مجاہدین شہید کیسے ہو گئے؟۔ اس وقت کشمیر کا ہر فرد تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہا ہے۔ کشمیر کے ہر گلی کوچے سے اللہ اکبر اور پاکستان سے رشتہ کیا لاالہ الااللہ کی صدائیں بلند ہو رہی ہیں۔
بھارت سرکار کی جانب سے جموں کشمیر کی خصوصی حیثیت والی دفعات ختم کرنے کے بعد کشمیری لیڈر میر واعظ عمر فاروق، محمد یٰسین ملک، مسرت عالم بٹ، ڈاکٹر محمد قاسم، سیدہ آسیہ اندرابی، فہمیدہ صوفی، ناہیدہ نسرین، شبیر احمد شاہ و دیگر کو بھی گرفتار کر کے جیلوں میں ڈال دیا گیا ہے جہاں انہیں ناقص غذائیں دی جاتی ہیں اور کسی کو ملنے کی بھی اجازت نہیں دی جاتی۔ بھارتی تحقیقاتی ادارہ این آئی اے کشمیری قائدین کیخلاف مقدمات اور انہیں جیلوں میں ڈالنے جیسے اقدامات کو جنگی ہتھیار کے طور پر استعمال کر رہا ہے اور حریت لیڈروں کو بلیک میل کرنے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ کشمیری میڈیا میں یہ خبریں شائع ہو رہی ہیں کہ بھارتی حکومت اور فوج نے منصوبہ بندی کی ہے کہ جو مقامی کشمیری لیڈر اس وقت قید میں نہیں ہیں، ان پر بھی مختلف نوعیت کے جھوٹے الزامات لگا کر ہندوستانی جیلوں میں ڈالا جائے تاکہ وہ کشمیری قوم کی قیادت نہ کر سکیں اور تحریک آزادی پر قابو پایا جائے لیکن حقیقت یہ ہے کہ بھارتی فوج اور مودی سرکار جس قدر ایسی حرکتیں کر رہی ہے کشمیری عوام میں اسی قدر جذبات پروان چڑھ رہے ہیں اور وہ سڑکوں پر نکل کر بھارتی ظلم و دہشت گردی کیخلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ دیکھا جائے تو برہان وانی کی شہادت کو آٹھ برس گزر چکے ہیں لیکن بھارتی ظلم و دہشت گردی کیخلاف آج بھی احتجاج اسی طرح جاری ہے۔ بھارتی جرنیل اعلانیہ اس بات کا اقرار کر رہے ہیں کہ کشمیر عملی طور پر بھارت کے ہاتھ سے نکل چکا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ بھارت سرکار کشمیر میں مکمل طور پر ناکا م ہو چکی ہے۔ ان حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پاکستان اپنی کشمیر پالیسی مزید مضبوط بنائے اور کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کا کھل کر ساتھ دیا جائے۔ اس سلسلہ میں تمام بین الاقوامی فورمز پر بھی مضبوط آواز بلند کرنے کی ضرورت ہے تاکہ کشمیریوں کی جدوجہد آزادی نتیجہ خیز ہو سکے۔

جواب دیں

Back to top button