پاکستان

شہباز حکومت نے صرف حکومتی دفاتر چلانے کے لیے 839 ارب روپے ایک طرف کر لیئے

ایک جانب حکومت کا کہنا ہے کہ قومی خزانہ مکمل طور پر خالی ہے۔ دوسری طرف ٹیکسوں کی بھرمار ہے۔ ایسے میں حکومت اپنے دفاتر چلانے کے لیئے ایک ہزار ارب کے قریب رقم مختص کیئے ہوئے ہے۔ یہ انکشاف کیا ہے سینئر صحافی جاوید چوہدری نے اپنے کالم میں۔ کالم بعنوان مبارک ہو میں وہ لکھتے ہیں کہ آپ اگر بجٹ کا ڈاکومنٹ پڑھیں تو اس میں آپ کو ’’رننگ آف دی سول گورنمنٹ‘‘ کے سامنے 839 ارب روپے لکھا ملے گا‘ یہ رقم پچھلے سال 714ارب روپے تھی گویا اس میں بھی 14فیصد اضافہ کر دیا گیا‘ وفاقی حکومت میں 36 وزارتیں‘ چار درجن ڈویژن اور 400 منسلک ادارے ہیں‘ ہم نے 2014 میں اٹھارہویں ترمیم کے بعد 17 وزارتیں صوبوں کے حوالے کر دی تھیں۔

اس کے بعد اصولی طور پر وفاق سے 17 وزارتیں اور ان سے منسلک ادارے اور ڈویژنز ختم ہو جانی چاہیے تھیں لیکن دس سال گزرنے کے باوجود یہ آج بھی قائم ہیں‘ حکومت صرف ان کو بند کر کے سول گورنمنٹ کے اخراجات کو 839 ارب سے 439 ارب روپے پر لا سکتی ہے مگر یہ کام نہیں ہو رہا‘ کیوں نہیں ہو رہا؟ سیدھی بات ہے حکومت اگر یہ کرے گی تو پھر یہ اعظم نذیر تارڑ‘ عطاء تارڑ اور رانا تنویر کو کہاں کھپائے گی؟ وفاقی حکومت کے 20 اضافی وزراء کیا کریں گے؟ چناں چہ حکومت اپنی انا کی تسکین اور اپنے ساتھیوں کو نوازنے کے لیے ہر سال چار سو ارب روپے بھٹی میں جھونک دیتی ہے۔

حکومت بار بار دعویٰ کرتی ہے‘ عوام ٹیکس نہیں دیتے اور ہمارے پاس اگر ٹیکس جمع نہیں ہو گا تو ہم عوام کی خدمت کیسے کر سکیں گے وغیرہ وغیرہ جب کہ حقیقت یہ ہے 2010سے لے کر 2024 تک گزشتہ 14برسوں میں ٹیکس کولیکشن میں 973 فیصد اضافہ ہوا‘ 2010 میں ہرپاکستانی خاندان 54 ہزار روپے سالانہ حکومت کو دیتا تھا ‘ یہ اب ہر سال ساڑھے چار لاکھ روپے حکومت کو ادا کر رہا ہے اور اس کے باوجود حکومت کی تسکین نہیں ہو رہی‘ ہم ہر سال ہزار ارب روپے سے زیادہ رقم200 بیمار کارپوریشنز میں جھونک دیتے ہیں‘ آخر اس ملک کو پی ٹی وی‘ پی آئی اے‘پی ایس او‘ اسٹیل مل‘ پاکستان ریلوے اورسوئی سدرن اور ناردرن کی کیا ضرورت ہے؟اگر زراعت کے محکمے صوبوں کے پاس ہیں تو ہم نے نیشنل فوڈ سیکیورٹی اینڈ ریسرچ کی وزارت کیوں بنا رکھی ہے اور یہ اربوں روپے سالانہ کیوں ضایع کرتی ہے؟۔

جواب دیں

Back to top button