غیر ذمہ داری کی انتہا

علی حسن
سکھر بیراج صوبہ سندھ میں 86لاکھ ایکڑ زرعی زمین کو آبپاشی کا پانی فراہم کرتا ہے۔ گزشتہ ہفتہ اس کے 66گیٹوں میں سے ایک گیٹ 47یکا یک گر کر بہہ گیا۔ آبپاشی حکام اور حکوم ت کے لئے ایک نیا مسئلہ کھڑا ہو گیا۔ سکھر بیراج کو اگر کوئی بھی نقصان ہوتا ہے تو سندھ میں زراعت کو وقتی طور پر بڑا نقصان ہو سکتا ہے۔ بیراج نارا کنال، روہڑی کنال، خیر پور ایسٹ کنال، ویسٹ کنال، دادو شمالی کنال، رائس کنال، این ڈبلیو کنال کو مختلف علاقوں میں کاشتکاری کے لئے پانی فراہم کیا جاتا ہے۔ حکومت نے اپنی ساری قوت اس ایک گیٹ کو بحال کرنے پر صرف کر دی ہے۔ کم از کم چار ارب روپے خرچ کا تخمینہ لگایا گیا ہے۔ یہ تو قدرتی عمل تھا کہ ایک چینی کمپنی پہلے سے بیراج پر کچھ اور کام میں مصروف تھی۔ اسی کمپنی نے ورلڈ بینک کی طرف سے دئیے گئی کام کے سبب بیراج کا ماضی میں دو دفعہ جائزہ لے چکی ہے۔ کمپنی نے حکومت پاکستان کو 2018سے دو مرتبہ متنبہ کیا تھا کہ بیراج پر توجہ دی جائے اور اس کے تمام دروازوں توجہ دی جائے اور ان کی دیکھ بھال کا انتظام کیا جائے۔ 1982سے 2019 تک بیراج کے مختلف گیٹ کسی نہ کسی وجہ کی بنا پر تبدیل کئے جا چکے ہیں۔ بیراج ہو یا کوئی اور تنصیب، خصوصا غیر ملکی کمپنی ایک مینول فراہم کرتی ہیں جس میں الف سے ی تک تمام معلومات اور ان کی دیکھ بھال ، ان کی سالانہ مرمت وغیرہ کا پورا ہدایات نامہ دیا جاتا ہے۔
محکمہ آبپاشی ہو یا کوئی اور محکمہ، اس کا مسئلہ یہ ہے کہ وہ مشینوں وغیرہ کے ساتھ آنے والے مینول کو الماری میں رکھ کر بھول جاتے ہیں۔ بیراج میں بھی یہ ہی ہوتا ہے۔ افسران کوئی وجہ نہیں دیتے ہیں۔ محکمہ صحت میں مہنگی ترین مشینیں ڈبوں میں بند رکھی ہوئی ہیں اور اسی میں رکھے رکھے خراب ہو جاتی ہیں، کوئی کھول کر دیکھتا بھی نہیں ہے کہ ان کو کیسے استعمال کیا جا نا ہے۔ بیراج میں افسران کو سارا زور اپنی من پسند نہروں میں پانی فراہم کرنے پر ہوتا ہے۔ بیراج کو کم از پندرہ بیس سال سے اسی کام پر رکھا ہوا ہے۔ پانی کی فراہمی کے انجینئر تو بہت ہیں لیکن بیراج کی دیکھ بھال کی ذمہ داری قبول کرنے کے لئے کوئی افسر تیار ہی نہیں ہوتا ہے۔ بہت کم افسران نے مینول کھول کر دیکھا ہوگا کہ بیراج کے گیٹوں کی دیکھ بھال کب اور کیوں کر ہونا ضروری ہے۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ گیٹ گر کر بہہ گیا ہو۔ ماضی قریب میں کم اس کم چار بار ایسا ہو چکا ہے اسی کے بعد ورلڈ بینک کی مدد سے چینی کمپنی کی خدمات حاصل کی گئیں تاکہ وہ مکمل جائزہ لے کر بتائے کہ بیراج کو کس طرح محفوظ رکھا جا سکتا ہے۔ محکمہ آبپاشی کے ایک ایک افسران کے اثاثوں کو جائزہ لیا جائے تو حیران کن تفصیلات سامنے آنے کی توقع ہوتی ہے۔
افسران کو یہ تسلیم کرنا چاہئے کہ ان کی غیر ذمہ داری کی وجہ سے بیراج کو شدید مالی نقصان پہنچا ہے۔ بیراج کا دروازہ خود بخود تو اکھڑ کر نہیں گر سکتا ہے۔ کسی سے اسے اکھاڑا بھی نہیں ہوگا لیکن وہ مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے اس حیران کن صورت حال سے دوچار ہوا ہے۔ بیراج کے ڈھانچہ کو بچانے کے لئے اور صوبہ سندھ میں کاشت کاری کے لئے مطلوبہ پانی کی فراہمی کا انتظام کرنے کے لئے حکومت چوکنا ہوئی تھی۔ اسی لئے جنگی بنیادوں پر چینی کمپنی کو ذمہ داری دی گئی کہ وہ پہلے دروازے کو بحال کر نے کا کام سر انجام دے تاکہ بیراج سے جو بنیادی کام لینا ہے وہ تو شروع ہو۔ بیراج کو بنیادی کام کاشت کاری کے لئے پانی کا فراہمی کا ہوتا ہے۔ جس قسم کی غیر ذمہ اری کا مظاہرہ پاکستان میں ایک عام سے بات اس لئے ہوگئی ہے کہ واقعہ رونما ہونے کے بعد لیپا پوتی کی حد تک نام نہاد تحقیقات کی جاتی ہے اور ذمہ دار اہل کاروں اور افسران کی رسی دراز کر دی جاتی ہے۔ انہیں قرار واقعی سزا دینے کی بجائے ملازمت پر ہی بحال رکھا جاتا ہے ۔ اگر حکومت سکھر بیراج جیسی اہم تریں تنصیبات کو محفوظ رکھنا چاہتی ہے تو اسے اپنے بڑے اور چھوٹے ملازمین کے خلاف کارروائی کر کے خود ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
یہ افسوس ناک خبر بھی پڑھیں اور سر دھنیں۔ یہ کیسی ذمہ داری ہے، یہ کیسی ایمانداری ہے کہ حراست میں لئے گئے افراد کا قیمتی سامان پولس کے ایک کانسٹبل نے بازار میں فروخت کر دیا۔ راولپنڈی پولیس کے اہلکار کی جانب سے 9 مئی کے گرفتار ملزمان کا قیمتی سامان بیچے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ اہلکار نے 9مئی کے گرفتار ملزمان کا قیمتی سامان بیچ دیا، انکوائری میں کانسٹیبل صداقت پر 9مئی کے ملزمان کا سامان بیچنے کا الزام ثابت ہوگیا ہے۔ تھانہ نیو ٹائون پولیس نے 9مئی کے مقدمے میں 33ملزمان کو گرفتار کیا تھا، گرفتار 33ملزمان نے ضمانت کے بعد سامان واپس نہ ملنے پر اے ٹی سی سے رجوع کیا تھا۔ انسداد دہشت گردی عدالت نے اعلیٰ پولیس افسران کو معاملے کی انکوائری کا حکم دیا تھا، انکوائری میں ملزمان سے قیمتی اشیا لے کر مارکیٹ میں فروخت کرنے کا الزام ثابت ہوگیا۔ ملزمان کی قیمتی اشیاء میں موبائل فونز، قیمتی گھڑیاں، سونے کی اشیاء شامل تھیں، ملزمان کے پاسپورٹ، گاڑیوں کی رجسٹریشن بکس اور اے ٹی ایم کارڈز بھی غائب کیے گئے۔