ColumnTajamul Hussain Hashmi

پنڈ کے چچا کی یاد میں

 

تجمل حسین ہاشمی
مجھے دو طرح کی طبیعت کے افراد سے ملنے کا تجسس رہا، ان کی زندگی کے حالات کو جاننا، سننا چاہتا ہوں کہ وہ کیسے اور کن حالات کی وجہ سے ان راستوں پر چل نکلے جن میں مشکلات کے علاوہ کچھ نہیں تھا۔ اسی طرح میرے گائوں میں بھی ایک انتہائی اہم شخصیت ہے۔ بظاہر تو چچا کے پیشہ کو اس دور میں اچھا تصور نہیں کیا جاتا تھا لیکن کیا ہوا بندہ تو خاندانی ہے۔ شوق اور جنون جب سر چڑھ جاتا ہے تو پھر بندے کو کچھ نظر نہیں آتا۔ بابا بلھے شاہ کو خاندان والے سمجھا سمجھا کر تھک گئے کہ تم سید ہو اور کسی اور کی بیعت کیسے کر سکتے ہو لیکن بابا بلھے شاہ کو کیسے سمجھ آتی۔ جب جنون ہی سر چڑھ گیا ہو۔ چچا کو بھی گانے کا شوق تھا اور آواز بھی کمال کی تھی، شادی بیاہ، درباروں پر قوالی گانے کا جنون تھا۔ کچھ عرصہ کے بعد چچا کے ساتھ ایک شی میل بھی کام کرتی تھی، جس کا میں نام بھول گیا ہوں۔ وہ چچا کے ساتھ کاشت کاری میں مددگار رہتی تھی۔ شادی بیاہ میں اپنے ڈانس سے مہمانوں کو متاثر کرتی تھی۔ چچا کی آواز میں کمال تھا۔ بہت اچھے گلوکار ہیں۔ میلوں پر قوالی سے سماں باندھ دیتے تھے لیکن کمال دیکھیں کہ چچا کی اولاد میں کسی بچہ نے ان کا شعبہ اختیار نہیں کیا اور نہ ان کے پاس اپنے والد جیسی آواز تھی۔ لیکن چچا کمال کا انسان ہے۔ باادب، تہذیب اور شرافت میں سمٹا انسان ہے۔ میں اکثر چچا کو ان کے گھر کے سامنے حقہ پیتے دیکھتا تھا۔ وہ اکیلا ہی اپنی محفل جماتا تھا۔ کسی کے ڈیرے یا حویلی نہیں جاتا بلکہ جس کو ملنا ہوتا وہ اس کے پاس چل کر جاتا تھا۔ چچا سے متعلق کئی سوال میرے دماغ میں پیدا ہوچکے تھے کیوں کہ ہم نے تو یہی دیکھا تھا کہ گائوں کے سب لوگوں ایک جگہ اکٹھے بیٹھ کر حقہ پیتے اور سارے دن کی کہانیاں، علاقائی سیاست اور فصلوں سے متعلق مشاورت کرتے تھے۔ گلیوں، محلوں کے مسائل پر خوب سیر حاصل گفتگو کرتے تھے لیکن میں نے کبھی بھی چچا کو اس محفل کا حصہ بنتے نہیں دیکھا۔ میرے دماغ میں یہ سوال بیٹھ گیا تھا کہ ایسا کیوں ہے؟ ایک دن مجھے موقع ملا اور میں نے چچا سے پوچھ لیا کہ آپ شام کو گائوں کی محفلوں میں کیوں نہیں بیٹھتے؟ مجھے کہنے لگے بیٹا انسان اپنی ہی محفل میں آباد ہے اور جانور بھی اپنے کلّے پر ہی اچھا لگتا ہے۔ آپ کی سوچیں آپ کے پاس ہیں تو کامیاب ہیں، جب آپ دوسرے کو دیتے ہیں تو پھر آباد انسان بھی بے آباد ہونے لگتا ہے۔ کہنے لگے وقت کے ساتھ آپ کو سب سمجھ آ جائیگی۔ مجھے اس وقت کافی حیرانی ہوئی کہ مجھے کون سی سمجھ آنی ہے۔ لیکن یقین کریں عمر کے آخری حصہ میں پتہ چلا کہ اپنی بیٹھک کی کیا اہمیت ہوتی ہے۔ اپنی سوچوں، فیصلوں کو اپنے دل میں رکھنے کے کتنے فائدے ہیں۔ معاشی گھٹن نے انسانی رویوں کو شدید متاثر کیا ہے۔ نفسا نفسی کی انتہا ہوگئی ہے، جن کی ذمہ داری تحفظ یا سایہ دینا تھا وہ اپنے کردار سے منحرف ہیں۔ اپنی بات کی طرف آتے ہیں۔ اپنے عزیز کو بتایا کہ چچا ایسے کہہ رہا تھا۔ میری بات سن کر وہ مسکریا اور کہنے لگا، چچا ٹھیک کہتا ہے! میں نے کہا، کیا مطلب؟ میرا عزیز مجھے کہنے لگا بھائی جی چچا کوئی ذات کا کاما نہیں ہے جو ڈیروں یا حویلی والوں کے پاس جائیگا۔ میں نے کہا، کیا مطلب؟ میرا عزیز کہنے لگا میرے بھائی چچا جٹ ہے۔ اس کی برادری جٹ ہے۔ وہ کیسے دوسرے کی حویلی میں جائیگا۔ اس کے خون میں ایک جٹ کا خون ہے۔ میں نے پوچھا کہ چچا تو شادی بیاہوں اور میلوں میں قوالی اور گانے گاتا ہے، یہ تو شعبہ ہمارے ہاں کامے کا ہے۔ میرا عزیز کہنے لگا آپ صحیح کہہ رہے ہو لیکن چچا کو بچپن ہی سے گانے کا شوق تھا، والدین کی سختی کے باوجود وہ گانے گاتا تھا لیکن ایک دن والدین نے زیادہ سختی کی تو اس نے گھر چھوڑ دیا اور اپنی زندگی الگ گزارنا شروع کردی۔ لیکن یہ بات حقیقت ہے کہ انسان کے خون میں اس کی نسل کا بڑا کردار ہوتا ہے۔ میں نے زندگی کے کئی سال گائوں میں گزارے لیکن چچا نے مشکل حالات میں بھی کبھی کسی سے مالی مدد نہیں لی۔ زمین پر کاشت کاری سے اپنے بچوں کا پیٹ پالا اور عزت کے ساتھ اپنی زندگی گزار رہے ہیں۔ اب تو چچا عمر کے آخری ایام میں ہے۔ ایسے انسان ملک کا سرمایہ ہیں۔ میں پرامید ہوں کہ چچا صحت مند ہوگا۔ کیا بتائوں ایک معروف صحافی و مصنف کا مہک ملک، جو ایک شی میل ہے، کے ساتھ انٹرویو کا بڑا چرچا ہورہا ہے۔ چرچا کیوں نہ ہوتا، سوال و جواب ایسے تھے جو مہذب اور اسلامی معاشرے میں قبول نہیں ہیں، لیکن مصنف کو کیا پرواہ ہے۔ ہمارے ہاں معاشرتی قدروں کی بڑی اہمیت ہے لیکن آج کل ان قدروں پر ضرب کاری لگائی جارہی ہے۔ گزشتہ روز ایک صحافی قادیانیوں کو اقلیت قرار دے رہا تھا اور مولانا حضرات کو ان کے ساتھ بیٹھنے کا مشورہ دے رہا تھا۔ ہمارے مصنفوں کو ایکٹو کیا جارہا ہے۔ اسلام بھی اجتماعیت کی بات کرتا ہے۔ ہر کوئی اپنی مرضی پر چلنا شروع کرے گا تو معاشرہ انسانوں کے رہنے کے قابل نہیں رہے گا۔ پیسے کی اہمیت ضرور ہے لیکن اتنی اہمیت نہ دیں کہ آپ اپنی شخصیت کو بھول جائیں۔ مصنف معاشرے کا وہ کردار ہیں جس کو لوگ سننا، پڑھنا چاہتے ہیں۔ اگر یہ بے کردار ہو جائیں گے تو پھر معاشرے کے کھڑے ہونے کی امید مت رکھیں۔

جواب دیں

Back to top button