Columnمحمد مبشر انوار

حج 1445ھ

محمد مبشر انوار( ریاض)
کسی بھی صاحب استطاعت و حیثیت مسلمان کی یہ نہ صرف دلی خواہش ہوتی ہے کہ وہ اسلامی رکن حج کی ادائیگی کرے بلکہ استطاعت و حیثیت سے کہیں زیادہ کرم ربی کے باعث ایک سے زیادہ مرتبہ یہ فریضہ انجام دے لیتا ہے جبکہ دوسری طرف ایسے کلمہ گو بھی ہیں کہ جن کے لئے دو وقت کی روٹی کا حصول ہی زندگی بھر نہیں ہو پاتا اور وہ اس فرض کی ادائیگی کی خواہش دل میں لئے ہی دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ شمع توحید کے پروانوں کی تعداد آج دنیا میں اربوں سے تجاوز کر چکی ہے اور اللہ رب العزت نے ان اربوں مسلمانوں میں سے لاکھوں کروڑوں کو اپنی رحمت سے اتنا عطا کر رکھا ہے کہ وہ ہر سال حج کی سعادت حاصل کر سکتے ہیں لیکن فریضہ حج تو زندگی میں فقط ایک مرتبہ لازم کیا گیا ہے جبکہ اس کے علاوہ ادا کیا گیا حج نفلی عبادت کے زمرہ میں آتا ہے، کیا نفلی عبادت کی خاطر کسی کے فرض سے پہلوتہی کی جاسکتی ہے؟ یہ سوال اس لئے اٹھایا ہے کہ پاکستانیوں میں یہ غلط العام مشہور کر دیا گیا ہے کہ سعودی حکومت کی جانب سے اس کا تدارک بذریعہ اجازت حج، ایک غلط اقدام اور مسلمانوں کو فریضہ حج سے روکنے کی مذموم کوشش کے مترادف ہے، ایک انتہائی گھٹیا سوچ کے علاوہ کچھ نہیں، جس کی تفصیل عرض کرنے کی کوشش کرتا ہوں ،ممکن ہے قارئین کی اکثریت اس کو سمجھ کر اس نفرت سے باہر نکل آئے، جو چند مخصوص افراد کی وجہ سے ان کے اذہان میں گھر کر چکی ہے۔ دوران حج و عمرہ زائرین کی تعداد ہر گزرتے دن کے ساتھ بڑھ رہی ہے، بالخصوص رمضان المبارک اور ربیع الاول کے مقدس مہینوں میں عازمین عمرہ کی تعداد کم و بیش ذوالحج میں آنے والے زائرین کے برابر اور بعض اوقات بڑھ جاتی ہے، تاہم مناسک حج اور مناسک عمرہ میں بہت زیادہ فرق ہے ۔ مناسک حج کی ادائیگی، بالخصوص مئی، جون، جولائی کی سخت گرمی ، حتی کہ اگست میں بھی گرمی کی شدت اچھی خاصی ہوتی ہے تاہم تین ماہ دنیا بھر میں سخت گرمی پڑتی ہے اور ان مہینوں میں فریضہ حج کی ادائیگی ،یقینا نہ صرف ایک مشقت طلب کام ہے بلکہ اس دوران خصوصی احتیاط و انتظامات کی ضرورت ہوتی ہے۔ سعودی حکومت ( آل سعود)، جسے عرف عام میں خادم حرمین شریفین کہا جاتا ہے، مسلسل حرمین شریفین کی توسیع و آسائشوں میں جتی نظر آتی ہے اور حرمین شریفین میں گزشتہ کئی دہائیوں سے، عازمین کی بڑھتی ہوئی تعداد کو مد نظر رکھتے ہوئے، ترقیاتی و توسیعی منصوبے مسلسل روپذیر ہیں، جن کا مقصد فقط زائرین کے لئے سہولیات فراہم کرنا ہے۔ ان منصوبوں پر یقینی طور پر مالی اخراجات بھی اٹھتے ہیں اور سعودی حکومت ایک طرف اپنی آمدن کا خطیر حصہ ان منصوبوں پر صرف کرتی ہے تو دوسری طرف ان اخراجات کا کچھ حصہ، دوران حج جو سہولیات ایک نظام کے تحت ان زائرین کو فراہم کی جاتی ہیں ،زائرین سے بھی وصول کیا جاتا ہے۔ کسی بھی حکومت کے لئے یہ ممکن نہیں کہ ہر سال اتنی بڑی تعداد میں آنے والے ضیوف الرحمٰن کے لئے ،اپنے افرادی و مالی وسائل ان کی تواضع کرے، لہذا مقامی سطح پر بہت سی تنظیمیں کو اس مقدس فریضہ کی ادائیگی کے دوران حکومت کی مدد و تعاون کے لئے، چھان پھٹک کر اجازت دی جاتی ہے،جن کا کام عازمین حج کے لئے قیام و طعام کا بندوبست کرنا ہوتا ہے۔ جبکہ دوسری طرف حکومت نے بہترین انتظامات کی خاطر منصوبہ بندی کرنا ہوتی ہے،جس کا اہم اور بنیادی حصہ ،آنے والے عازمین کی تعداد کو مد نظر رکھنا ہوتا ہے،ان کی اصل تعداد کو جاننا ہوتا ہے تا کہ اس کے مطابق تمام انتظامات بخیر و خوبی کئے جا سکیں۔
ماضی میں بالعموم عازمین کا اندازہ صحیح طور پر نہیں ہوتا تھا کہ خصوصی ویزہ کے بغیر ،عازمین حج سفر کی مشکلات اٹھاتے کئی ماہ تک قافلوں کی صورت حجازکی جانب رواں دواں دکھائی دیتے اور بسا اوقات ایسا بھی ہوتا کہ حاجیوں کے ان قافلوں کو راستے میں لوٹ لیا جاتا،زائرین کو قتل تک کر دیا جاتا۔حجاز مقدس میں تجارت کی شکل بے ہنگم سی ہوتی ، جسے جہاں جگہ ملتی ڈیرے ڈال لیتے،کہیں کوئی منظم انتظامات کی جھلک نہیں ملتی اور اکثر اوقات دوران حج کئی ایک حادثات رونما ہو جاتے ،جس میں عازمین حج کا نقصان تو ہوتا ،سعودی حکومت کی بدنامی الگ ہوتی گو کہ اس میں بھی سعودی حکومت کا قصور اتنا نہ ہوتا جتنا اس پر تبری بھیجا جاتا۔ ماضی میں ایسے کئی ایک واقعات آج بھی عوام کے ذہنوں میں موجود ہوں گے کہ جہاں یہ خبریں بالعموم دیکھنے کو ملتی کہ منی/مزدلفہ میں آگ بھڑگ اٹھی اور کئی ایک حاجی اس آتشزدگی کا شکار ہو گئے،جس پر مسلکی اختلاف کے باعث،پاکستان سے بالخصوص علماء حضرات اور عوام الناس سعودی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے۔راقم الحروف کو سعودی عرب میں سکونت اختیار کئے تقریبا ربع صدی گذر چکی،اس دوران اللہ رب العزت نے جہاں عمرہ کی ان گنت سعادت کا موقع فراہم کیا ،وہیں تین مرتبہ حج کی سعادت بھی عطا کی،تاہم اس کے باوجود اللہ رب العزت سے ہمیشہ یہی دعا کی کہ ان ٹوٹی پھوٹی عبادات کو اپنے رحم و کرم سے قبول فرما،مجھے ان عبادات سے زیادہ اللہ کا رحم عزیز ہے کہ بندہ بشر،جس کا خمیر خطا سے اٹھایا گیا ہے،کسی بھی لمحہ کوئی ایسا خیال دانستہ یا نا دانستہ ذہن کے کسی کونے کھدرے میں نہ جا سمایا ہو،جس کے باعث روز محشریہ عبادات اس گنہگار کے منہ پر دے ماری جائیںلہذا ہمیشہ یہی دعا رہی کہ جو عبادت بھی کی ہے،اس میں کمی یا خامی سے صرف نظر کرکے،اے رب کریم اپنی بارگاہ میں قبول فرما۔دو مرتبہ حج کے دوران یہ مشاہدہ بذات خود کیا کہ عازمین حج بالعموم،جو سستے پیکیج میں جاتے ،ان کے لئے کسی قسم کا کوئی خیمہ یا دیگر سہولیات میسر نہیں ہوتی تھی،ایسے حجاج کرام کو منی میں سڑکوں کے کنارے چٹائیاں بچھائے،سر پر کوئی کپڑا تانے ،سڑک پر ہی ذاتی چھوٹے سے چولہے و سلنڈر رکھے ،کھانا پکاتے تک دیکھا اور انہی میں سے کسی نہ کسی کی لاپرواہی کے باعث،حج کے دوران حادثات ہوتے رہے ،جس کی خفت و شرمندگی و تنقید سعودی حکومت برداشت کرتی۔ خدانخواستہ پاکستانی حکمران ہوتے تو یقینا معاملات اس سے بھی زیادہ تنزلی کا شکار ہوتے کہ انہیں عوام الناس کی تکالیف کا قطعا کوئی احساس دکھائی نہیں دے رہا اور وہ ایسے معاملات کو ذاتی آمدن کا ذریعہ سمجھتے ہیں،جو انتظامات بھی کرتے،اس کا مقصد ذاتی تجوریوں کو بھرنا ہی نظر آتا جبکہ جن کو ٹھیکے دئیے جاتے،وہ بھی برائے نام کام کرتے اور زیادہ توجہ زائرین کی جیبیں کاٹنے پر ہوتی۔جس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ عوام الناس بے بسی و شرمندگی سے حکمرانوں کو سوائے بددعائیں دینے یا اپنے نصیب پر کڑھنے کے کچھ نہ کرسکتی کہ تدارک کرنے والے تمام ارباب اختیار آپس میں گٹھ جوڑ کئے دکھائی دیتے ہیں ۔اس پس منظر میں سعودی حکومت کیا اقدامات کرتی؟کیا اس سارے سلسلے کو ایسے ہی چلنے دیتی یا اس میں کوئی بہتری لاتی،کوئی منظم انتظامات کرتی یا ان مسائل پر غوروخوض کرکے عازمین حج کے لئے سہولیات فراہم کرتی؟اولا اس عرصہ میں سعودی حکومت کی جانب سے ،حج کی ادائیگی کے لئے حج کی اجازت ،پرمٹ،تصریح ایک لازمی دستاویز ہے،جس کی عدم موجودگی میں حج ادا کرنے والے کو دوران حج تو کچھ نہیں کہا جاتا البتہ اس کے تمام تر کوائف حاصل کر لئے جاتے ہیں اور بعد ازاںاس کے خلاف تادیبی کارروائی کی جاتی ہے۔تقریبا ایک دہائی تک،اس اجازت نامے کی تشہیر ،ہر سطح پر کی گئی اور عوام الناس کو یہ باور کرایا گیا کہ بلا اجازت حج سے گریز کریں کہ یہ غیر قانونی عمل ہے، تاہم اس پر پھر مسلکی اختلاف کی بنیاد پر، سعودی حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا جاتا رہا لیکن حقیقت یہ ہے کہ سعودی حکمران اپنے عزائم میں پختہ اور ضیوف الرحمٰن کی خدمت میں ایک قدم آگے کی جانب بڑھتے رہے ہیں۔ عوام کو یہ شعور دیا جاتا رہا ہے اور ان کے اذہان میں یہ بات بٹھائی جاتی رہی ہے کہ وقت کی ضرورت کے مطابق سعودی حکومت بتدریج اپنے لائحہ عمل پر عمل پیرا ہو گی گو کہ ابتداء میں ہی اس پر شدید سختی کے ساتھ عمل درآمد نہیں کروایا گیا، جو کسی بھی نئے قانون کی عملداری کے لئے ضروری ہے لیکن اس کا احساس، اس کا شعور بخوبی عوام الناس تک پہنچا دیا گیا۔ تقریبا دو دہائیوں سے زائد اس قانون کی تشہیر کرنے کے بعد، آج سعودی حکومت اس پر سختی سے عملدرآمد کرا رہی ہے، ذوالقعدہ کا مہینہ شروع ہوتے ہی، وزارت حج، وزارت داخلہ و دیگر کئی وزارتوں کے جانب سے موبائل فون پر مسلسل پیغام رسانی جاری رہی کہ ’’ لا تصریح لا حج‘‘ جس کا مطلب یہ تھا کہ بغیر اجازت حج نہیں ہو سکتا، جس کی سزا، چھ ماہ قید اور پچاس ہزار ریال جرمانہ ہو سکتا ہے۔ ( جاری ہے)

جواب دیں

Back to top button