Column

سچ ہمیشہ کڑوا ہوتا ہے

 

علیشبا بگٹی
ایک گائوں میں ایک دانشمند بزرگ رہتے تھے۔ جن کا نام حکیم بودھا تھا۔ حکیم بودھا اپنی سچائی اور دیانت داری کے لئے مشہور تھے۔ لوگ اپنے مسائل کے حل کے لئے ان کے پاس آتے اور وہ ہمیشہ انہیں سچائی کے ساتھ مشورہ دیتے۔ بعض اوقات ان کے دیئے گئے مشورے لوگوں کو ناگوار گزرتے، کیونکہ سچ ہمیشہ کڑوا ہوتا ہے۔ ایک دن ایک نوجوان جس کا نام اشرف تھا حکیم بودھا کے پاس آیا۔ اشرف کو گائوں کے بڑے لوگوں کے ساتھ کاروبار میں نقصان ہوا تھا۔ وہ جاننا چاہتا تھا کہ اسے نقصان کیوں ہوا اور آئندہ اسے کس طرح بچنا چاہئے۔ حکیم بودھا نے اشرف کی باتیں سنیں اور کہا، ’’ تمہیں سچ سننے کی ہمت ہے؟‘‘ اشرف نے جواب دیا، ’’ جی، میں سچائی سننے کو تیار ہوں۔‘‘ حکیم بودھا نے کہا، ’’ تمہاری ناکامی کا سبب تمہاری لاپرواہی اور غیر ذمہ داری ہے۔ تم نے اپنے کاروبار پر دھیان نہیں دیا اور دوسروں پر اندھا اعتماد کیا۔‘‘ ۔۔۔ اشرف کو یہ بات ذرا کڑوی لگی اور اس کا دل بوجھل ہوگیا، لیکن اس نے حکیم بودھا کی بات پر غور کیا ۔ اس نے اپنی غلطیوں کو تسلیم کیا اور آئندہ کے لئے اپنے کاروبار میں دھیان دینے کا ارادہ کیا۔ وقت گزرتا گیا اور اشرف نے اپنی غلطیوں سے سیکھ کر اپنے کاروبار کو دوبارہ منظم کیا۔ اس نے محنت، دیانت داری اور محتاط انداز سے کام کیا اور جلد ہی اس کا کاروبار ترقی کرنے لگا۔
ایک دن اشرف دوبارہ حکیم بودھا کے پاس آیا اور کہا، ’’ آپ کی کڑوی سچائی نے میری زندگی بدل دی۔ اگر آپ نے مجھے سچائی نہ بتائی ہوتی، تو میں کبھی بھی اپنی غلطیوں سے نہ سیکھ پاتا‘‘۔ حکیم بودھا نے مسکراتے ہوئے کہا، ’’ سچ کڑوا ہوتا ہے، لیکن وہی ہمیں حقیقت کا سامنا کرنے اور اپنی اصلاح کرنے کا موقع دیتا ہے۔ جو لوگ سچائی کو قبول کرنے کا حوصلہ رکھتے ہیں، وہی حقیقی کامیابی حاصل کرتے ہیں‘‘۔۔۔۔۔۔ یہ کہانی ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ سچائی چاہے کتنی ہی کڑوی کیوں نہ ہو، وہی ہماری رہنمائی کرتی ہے اور ہمیں اپنی غلطیوں سے سیکھنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔ سچ کو قبول کرنا اور اس پر عمل کرنا ہی ہمیں حقیقی کامیابی کی طرف لے جاتی ہے۔
آج کے دور میں سچ بولنا آسان نہیں۔ ایک تو سب مفاد پرستی اور مطلب پرستی میں جھوٹ بولتے ہیں۔ پھر دوسری بات یہ کہ موجودہ زمانے میں ہماری سماعتیں بھی جھوٹ در جھوٹ کی اس قدر عادی ہوچکی ہیں کہ سچ پر بھی جھوٹ کا گمان ہوتا ہے۔ اپنے اردگرد نظر دوڑائیں تو معلوم ہوگا کہ جھوٹ اور سچ آپس میں گڈ مڈ ہوگئے ہیں کہ اسے جدا کرنا مشکل ہوگیا ہے۔
درحقیقت سچائی ایسی صفت ہے جس کی اہمیت ہر مذہب اور ہر دور میں یکساں طور پر تسلیم کی گئی ہے، اس کے بغیر انسانیت مکمل نہیں ہوتی۔
ہمارے نبی حضرت محمد ٔ ہمیشہ سچ بولتے تھے، حتیٰ کہ آپؐ کو نبی و رسول نہ ماننے والوں نے بھی آپؐ کی سچائی اور امانت داری سے متاثر ہو کر آپؐ کو صادق اور امین جیسے القاب سے نوازا تھا۔ اسلام کا سب سے بڑا دشمن ابوجہل بھی تسلیم کرتا تھا کہ محمد ؐ کبھی جھوٹ نہیں بولتے۔
قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ کا حکم ہے کہ حق بات کہو۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’ ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور ہمیشہ درست بات کہو‘‘۔
حدیث ہے کہ ’’ سچی بات کہو اگرچہ کڑوی ہی کیوں نہ لگے‘‘۔ ایک اور حدیث ہے کہ ’’ سچ بولنے کی عادت بنائو کیوں کہ سچائی نیکی کی راہ دکھاتی ہے اور نیکی جنت میں لے جاتی ہے‘‘ ۔
کہتے ہیں کہ جھوٹ منافق کی نشانی ہے۔
سچ کڑوا ضرور ہوتا ہے، لیکن اس کی تاثیر بہت میٹھی ہوتی ہے۔ پھر یہ بھی تو ہے کہ سچ یاد رکھنا نہیں پڑتا، کہتے ہیں کہ ایک جھوٹ کے لیے سو جھوٹ بولنے پڑتے ہیں۔
اسٹالن کا کہنا تھا کہ ’’ ہر سچ کا ایک وقت ہوتا ہے اگر سچ وقت پر نہ بولا جائے تو وہ سچ نہیں رہتا بلکہ جھوٹ بن جاتا ہے‘‘۔
سچ کڑوا ہوتا ہے ، مگر جو قومیں سچ کی کڑواہٹ محسوس کرنے کا حوصلہ رکھتی ہیں، کامران بھی وہی ٹھہرتی ہیں۔ ہمارے ہاں البتہ سچ کہنے کا حوصلہ ہے نہ سننے کا۔ اسی لئے ہمارا معاشرہ زوال پزیر ہے۔
سچ بولنے میں دنیا اور آخرت دونوں میں عزت ملتی ہے۔ سچ بولنے والا ہمیشہ کامیاب ہوتا ہے۔ کیونکہ ’’ سانچ کو آنچ نہیں‘‘، یعنی سچ بولنے والے کو کوئی خطرہ نہیں۔
سچ کڑوا ہوتا ہے۔ کیونکہ سچ بولنا آسان ہے، مگر سننا مشکل ہے۔ سچائی ہمیشہ کڑوی ہوتی ہے، مگر یہی ہمیں درست راستہ دکھاتی ہے۔ سچائی ایک درخت کی مانند ہے، جس کی جڑیں کڑوی مگر پھل میٹھے ہوتے ہیں۔ سچائی کڑوی ہوتی ہے، مگر اس کے بغیر زندگی کی حقیقی خوشی ممکن نہیں۔ سچائی کی راہ پر چلنا مشکل ہے، مگر یہی راہ ہمیں منزل تک پہنچاتی ہے۔
سچائی دنیا کی سب سے طاقتور اور قیمتی شے ہے۔ جو انسان کو دنیا میں عزت و مرتبہ عطا کرتی ہے اور منفرد مقام دلاتی ہے۔ سچ میں دشواریوں کا آنا لازمی ہے، لیکن ہر پریشانی عارضی ہے، جلد یا بدیر اس کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ ابتداء ہی سے صدق و کذب کی جنگ چلی آرہی ہے۔ صادقین کو جب صدق کی پاداش میں تختہ دار پر چڑھایا گیا۔ تو دنیا نے ان کو ہی سلام پیش کیا اور کازبین ہمیشہ تاریخ میں ملامت زدہ ٹھہرے۔
’’ سچ‘‘ ایمان کی کسوٹی ہے۔ سچ بہادر انسان کی نشانی ہے۔ شکسپیر کہتے ہیں جس شخص کا معاملہ سچائی کی بنیاد پر قائم ہے وہ گویا نہایت ہی عمدہ اسلحے سے آراستہ ہے لیکن اسکے راستے میں نشیب و فراز بھی ہوتے ہیں ۔۔ سچائی پر ہمیشہ کھرا اترنے کے لئے بہت سی قربانیاں دینی پڑتی ہیں۔ رشتے کمزور ہوجاتے ہیں۔ دوستی دشمنی میں بدل جاتی ہے۔ کبھی منصب اقتدار سے بھی محروم ہونا پڑتا ہے۔ جلاوطن بھی ہونا پڑتا ہے۔ بلکہ سُقراط کی طرح زہر کا پیالہ تک پینا پڑتا ہے۔ گورو گوبند سنگھ نے کہا ہے کہ سچائی کی خاطر میدانِ جنگ میں لڑتے ہوئے مارے جانا سب سے بڑھیا موت ہے۔

جواب دیں

Back to top button