بیوہ خواتین کا عالمی دن

حبیب اللہ قمر
اقوام متحدہ کی طرف سے دو دن قبل بیوہ خواتین کا عالمی دن منایا گیا ہے۔ اس دن کے منانے کا مقصد ان خواتین کے مسائل اجاگر کرنا ہے جن کے شوہر وفات پا چکے ہیں۔ بین الاقوامی میڈیا کی طرف سے جاری کر دہ ایک رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں اس وقت 258ملین خواتین بیوہ ہیں جو کہ بنیادی حقوق سے محروم ہیں اور استحصال کا شکار ہیں۔ بیوہ خواتین کے حوالے سے اگر صرف مقبوضہ کشمیر کی بات کی جائے تو وہاں 23ہزار سے زائد خواتین بیوہ ہیں۔ ایسے ہی نیم بیواں کی ایک بڑی تعداد بھی وہاں موجود ہے جن کے شوہروں کو ہندوستانی فورسز نے حراست کے دوران لاپتہ کیا ہے۔ اس لحاظ سے مقبوضہ کشمیر کی خواتین سب سے زیادہ متاثر ہیں۔
مقبوضہ کشمیر کی صورت حال اس وقت یہ ہے کہ کشمیر دنیا کی سب سے بڑی جیل بن چکا ہے جہاں بسنے والوں کی زندگیاں اور عزتیں و حقوق محفوظ نہیں ہیں۔ ہزاروں کی تعداد میں کشمیری نوجوان جیلوں، ٹارچر سیلوں اور تھانوں میں قید ہیں لیکن ان کی رہائی عمل میں نہیں آ رہی ۔ بھارتی ایجنسیوں کی درندگی کا عالم یہ ہے کہ حریت کانفرنس کے وفات پا جانے والے کارکنان کے نام پر بھی وارنٹ گرفتاری جاری کیے جارہے اور ان کے گھروں پر چھاپے مارے جارہے ہیں۔ کچھ عرصہ قبل نئی دہلی کی سپیل انویسٹی گیشن ایجنسی ایس آئی اے کی جانب سے جماعت اسلامی جموں کشمیر کے دو ارکان عبدالسلام اور محمد شفیع ڈار کے خلاف فرضی فرد جرم عائد کی گئی جبکہ محمد شفیع ڈار پہلے سے ہی وفات پا چکے ہیں۔ اس سے ہندوستانی ایجنسیوں کی معلومات اور ان کی کارکردگی کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ گزشتہ دنوں مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کے حوالے سے ایک اور ہولناک رپورٹ منظر عام پر آئی ہے کہ پانچ اگست 2019کے بعد سے جموں کشمیر سے اب تک دس ہزار سے زائد خواتین لاپتہ ہو چکی ہیں۔ بھارتی وزیر مملکت برائے داخلہ اجے مشرا نے بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان بالا راجیہ سبھا کو بتایا کہ جموں کشمیر میں 2019 سے اب تک 18 سال سے اوپر اور اس سے نیچے کی عمر کی 9 ہزار 7سو65خواتین اپنے گھروں سے لاپتہ ہو چکی ہیں۔2019 سے 2021 تک کے اعداد و شمار پریشان کن ہیں۔ ان تین برسوں میں اٹھارہ سال سے کم عمر کی لڑکیوں کے لاپتہ ہونے کے 1 ہزار1سو48کیسز سامنے آئے اور 18 سال سے زائد عمر کی 8 ہزار6سو17 خواتین لاپتہ ہوئیں۔اطلاعات کے مطابق ابھی تک ان خواتین کا کوئی سراغ نہیں ملا ہے۔
مقبوضہ جموںوکشمیر میں خواتین کی گمشدگی کی بنیادی وجہ وادی کشمیر اور جموں خطے کے مسلم علاقوں میں بھارتی فوجیوں، پیراملٹری اہلکاروں ،این آئی اے اور ایس آئی اے جیسی بدنام زمانہ ایجنسیوں خوفناک ایجنسی کے پر تشدد آپریشن اور گھروں پر چھاپوں کے دوران خواتین سمیت مکینوں کے ساتھ بہیمانہ سلوک ، گرفتاری، پوچھ گچھ اور ہراساں کرنا شامل ہے۔2019کے بعد بھارتی فوجیوں اور پیر املٹری اہلکاروں کی طرف سے کشمیری خواتین بالعموم کم عمر لڑکیوں کو ذہنی طورپر ہراساں کرنے، انہیں گرفتار اور اغوا کرنے کی بہیمانہ کارروائیوں میں تیزی آئی ہے۔بھارتی فوج غیر انسانی کارروائیوں کیلئے کسی کے آگے جواب دہ نہیں ، فوجیوں کو کالے قانون آرمڈ فورسز سپیشل پاورز ایکٹ کے تحت کشمیریوں کو قتل ، گرفتار،اغوا اور تشدد کا نشانہ بنانے کے بے دریغ اختیارات حاصل ہیں۔بھارتی حکومت بے گناہ کشمیریوں کے جعلی مقابلوں میں قتل پر فوجیوں کو ترقیوں ، انعامات اور تمغوں سے نوازتی ہے۔ اسی وجہ سے ان کے حوصلے بلند ہوتے ہیں اور وہ گھروں میں گھس کر قیمتی سامان اٹھا لے جانے سمیت خواتین اور بچوں کے ساتھ درندگی سے بھی باز نہیں آتے۔ حریت کانفرنس کے قائدین نے کشمیری عورتوں کے لاپتہ ہونے کے واقعات پر شدید ردعمل ظاہر کیا او رکہا ہے کہ ان میں سے بیشتر واقعات میں بھارتی فوج اور اس کی ایجنسیاں ملوث ہیں۔ کشمیری خواتین کو جنت ارضی کشمیر سے باہر خطوں میں لیجایا جارہا ہے۔ انسانی حقوق کے عالمی اداروں کو بھارتی راجیہ سبھا میں پیش کی گئی رپورٹ پر ایکشن لینا چاہیے اور کشمیر میں جاری بھارتی درندگی روکنے کے لیے عملی اقدامات کرنے چاہئیں۔
بھارت کی مودی سرکار نے نولاکھ ہندوستانی فوج کو استعمال کرتے ہوئے جموں کشمیر کودنیا کا سب سے بڑا ٹارچر سیل بنا دیا ہے جس کے چپے چپے پر بھارتی فوجیوں کا راج ہے۔ کشمیر ی قوم پچھلے پانچ سال سے مسلسل سخت محاصرے میں ہے۔ جنت ارضی کشمیر میں تعینات نو لاکھ سے زائد بھارتی فورسز اہلکار کشمیریوں پر بدترین مظالم ڈھا رہے ہیں۔ ہزاروں کشمیری اس وقت جیلوں اور عقوبت خانوں میں بند ہیں، این آئی اے، ایس آئی اے ، ای ڈی جیسے بدنام زمانہ بھارتی تحقیقاتی اداروں نے سینکڑوں آزادی پسند رہنماں اور کارکنوں کی جائیدادیں ضبط اور مسمار کی ہیںجس کاواحد مقصد کشمیریوں کو ڈرانا دھمکانا اور انہیں سر تسلیم خم کرنے پر مجبور کرنا ہے۔ یہ وہی استعماری پالیسی ہے جو اسرائیل نے فلسطین میں اپنا رکھی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں خواتین پر بھارتی فوج کی بربریت اور ظلم و ستم دن بدن بڑھتا جا رہا ہے۔ خواتین کو خاص طور پر قابض فورسز کے ہاتھوں بار بار اغوا، جنسی تشدد اور غیر قانونی نظر بندی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں بیوہ خواتین اور انکے بچوں کو سخت مسائل درپیش ہیں ۔ کشمیری قائدین کہتے ہیں کہ خواتین کے ساتھ ناانصافیوں اور بیوہ خواتین کے انسانی حقوق بارے میں اقوام متحدہ کی توجہ چاہتے ہیں ۔بیوہ خواتین کے عالمی دن کے حوالے سے مظفر آباد میں ایک سیمینار کا بھی انعقاد کیا گیا ہے۔ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ بھارت کے زیر قبضہ جموں کشمیر میں گزشتہ ساڑھے تین دہائیوں سے خواتین کو بدترین ریاستی جبر کا سامنا ہے ۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں 1989سے اب تک 22000ہزار سے زائد خواتین کے شوہروں کو بھارتی قابض فوجیوں نے شہید کرکے انہیں بیوہ بنا دیا ہے جبکہ بھارت کے دہشت گرد فوجیوں نے 2700سے زائد کشمیری خواتین کے شوہروں کو گھروں سے اغوا کرکے لاپتہ کردیا ہے اوریہ خواتین نیم بیوگی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے مقررین کا کہنا تھا کہ دنیا میں امن ، انصاف اور آزادی کے دعویدار ممالک اور ادارے یہ سب کچھ دیکھ کر بھی خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں ۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کی ہزاروں خواتین کی زندگیوں کو تباہ کرنے والی بھارتی حکومت اور قابض فوجیوں کو عالمی عدالت انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کیا جانا چاہیے ۔ سیمینار کے شرکا نے ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ایشیا واچ سمیت انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں سے مطالبہ کیا کہ وہ کشمیر کی ان سینکڑوں نیم بیوہ خواتین کے شوہروں کو بازیاب کرانے کے لئے بھارتی حکومت پر دبا ڈالیں جن کو اغوا کر کے لاپتہ کیا گیا ہے۔ اقوامِ متحدہ ، یورپی یونین اور او آئی سی سمیت عالمی اداروں کو بھی چاہیے کہ وہ بھارت کوکشمیری خواتین پر جنسی حملوں ، تشدد اور گرفتاریوں کو جنگی ہتھیار کے طور استعمال کرنے سی روکیں ۔ انہوں نے بھارت کی مختلف جیلوں میں نظربند سیدہ آسیہ اندرابی ، ناہیدہ نسرین ، فہمیدہ صوفی اور دیگر کشمیری خواتین کی رہائی کے لئے اقدامات کرنے پر زور دیا۔ سیمینار سے پاسبان حریت کی شعبہ خواتین کی سربراہ مہناز قریشی ، رفعت فاروق شیخ ، اقراء اعوان ، فاطمہ غزالی اور دیگر نے خطاب کیا۔