عید گزر گئی مگر

تحریر : سید عارف نوناری
دنیا بھر میں ہر سال عید منائی جاتی ہے اس سال بھی عید منائی گئی لیکن کیا ہم عید منانے اور قربانی کرنے کے بعد اپنے اعمال کی طرف دیکھتے ہیں کہ ہم نے پورے سال میں ملک و قوم کے لئے کیا کیا اور ملک کی ترقی اور خوشحالی میں حصہ ڈالنے کے علاوہ کتنے افراد کی مدد کی اور کتنی نیکیاں آخرت کے لئے کمائی ہیں نہ ہم سوچتے ہیں نہ سیاسی افراد ‘نہ بیوروکریسی اور نہ معاشرہ کے افراد اس پر غور کرتے ہیں عید کے دن جب میں صبح اٹھا تو عید کی نماز میں تھوڑا سا وقت باقی تھا باہر نکلا تو ہر طرف قربانی کے جانور بندھے ہوئے تھے اور عید کی نماز فورا ہر کوئی جلدی پڑھنے کی جلدی میں تھا کہ قربانی کرکے گوشت تقسیم کرنے میں پہل کی جائے قربانی کی حقیت اور قربانی کے اصل مقاصد ہم سے بہت دور ہیں احتساب کے عمل سے ہم گزرا نہیں چاہتے ہیں اور سال بھر کی نیکیوں کا حساب رکھنے کے ہم قائل نہیں سارا سال ہمیں یہ نہیں بتا ہوتا کہ ہمارے ہمسایہ کا کیا حال ہے بلکہ ہم جانتے نہیں ہوتے کہ ہمسایہ کون ہے اور کیا کام کرتا ہے اس کے دکھ و درد میں شریک ہونا دور کی بات ہم سارا سال اس کو پوچھتے تک نہیں کہ بھائی کوئی مشکل ہو تو شیئر کر لیا کرو اور جب عید آتی ہے تو قربانی بھی دکھلاوے کی کرتی ہیں پورا سال غریب کا احساس اور بے سہارا لوگوں کی مدد کا خیال تک نہیں آتا عید سے قبل ملک کا بجٹ بھی پیش ہوا اور اب منظور بھی ہو جانا ہے ملک کے وزیراعظم نے اس عید پر یہ بھی وعدہ کیا ہے کہ یہ قرض آئی ایم ایف سے آخری قرض ہے جبکہ ملک کا ہر فرد 2لاکھ 80ہزار کا مقروض ہے ہمارا نظام پچھلی عید سے بھی بدتر ہو گیا ہے اور اب افراد کی بقا کا سوال ہمارے سامنے ہے، اس عید پر ہم نے سعودی عرب میں حج کے دوران بے یار مددگار ہزاروں شہید اور لاشے بھی دیکھے جو حج کے دوران پاکستان اور سعودی عرب کی حکومت نا اہلی کی وجہ سے سعودی عرب کی سڑکوں اور کوڑے دانوں کے پاس پڑے رہے اور ہم خون کے آنسو روتے رہے کہ یا خدایا یہ تو تیرے گھر حج کی سعادت حاصل کرنے کے لیے گئے تھے ان کی موت کے بعد بھی ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔
حج الوادع کا خطبہ دین اسلام کا نچور ہے، جس سے ملک کے حکمرانوں کو رہنمائی حاصل کرنی چاہیے مجھے ایک حضورؐ کا فرمان یاد آگیا جو انسؓ سے روایت ہے، نبی کریمؐ مدینہ میں تشریف لائے، اس زمانے میں مدینہ والوں کے دو دن تھے، جس میں وہ خوشیاں مناتے اور کھیلتے تھے، آپؐ نے لوگوں سے پوچھا یہ دو دن کیسے ہیں، صحابہؓ نے عرض کیا ان ایام میں ہم دور جاہلیت کے اندر خوشیاں مناتے اور کھیلتے تھے، رسول کریمؐ نے فرمایا خداوند تعالیٰ نے تمہارے ان دنوں کو دو بہترین دنوں میں تبدیل کر دیا ہے، عید قربان اور عیدالفطر کے دنوں میں۔
تو بات ہورہی تھی عید کو کیسے گزارا جائے عید کے دن گزرنے کے بعد ہم تمام مساکین اور حقداروں، یتیموں کو بھول جاتے ہیں، اسمبلیوں میں سارا سال لڑائی جھگڑے اور الزامات کی بوچھار ہوتی رہتی ہے۔ پارلیمانی روایات کہیں نظر نہیں آتی ہیں اور سیاست دان عید پر ووٹر ان کو ملتے ہیں اور پھر پورا سال غائب ہو جاتے ہیں۔ ووٹ کو مقدس امانت تو خیال کرتے ہیں لیکن اس کا تقدس نہیں کرتے کیچڑ اچھالتے ہیں اور نہ اس کیچڑ سے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اسلامی سیاست کے پیروکار ہونے کا دعویٰ تو کرتے ہیں لیکن ہمارا رویہ اور پارلیمانی اصولوں کی پاسداری ہمارے سامنے ہے، یہ ہیں وہ سوالات جو عید گزرنے کے بعد بھی ہمارے سامنے ہیں، اس عید پر حکومت کے سو دن بھی پورے ہوئے، جن کی تشہیر کے لیے کیا کیا جتن نہیں کیے گئے، بہتر ہوتا کہ حکومت اس عید پر اعلان کرتی کہ مساجد اور مسلمانوں کی عبادتوں گاہوں کے جو بجلی کے بل لاکھوں میں آ رہے ہیں ان کو نصف کر دیا جاتا یا مساجد کے کچھ یونٹوں کو فری کر دیا جاتا۔
مساجد کے بلوں کی انتہا ہو گئی ہے جن کی ادائیگی مساجد کی انتظامیہ کے لئے مصیبت بن گئی ہے۔ بات تو یہ ہے کہ ہم اپنی اصلاح کریں اور ملک و قوم کی سوچ کو تبدیل کرنے کے لئے سیاست اور سیاسی جماعتوں میں بھی مثبت سوچ پیدا کریں عید ان کی پوچھیں کیسے گزری ہے جن کے کراچی سٹریٹ کرائم میں اپنے بچھڑ گئے اور سندھ حکومت کرائم سٹریٹ پر قابو پانے میں برے طرح نا کام رہی اور کراچی جرائم سے نکل نہیں پا رہا ہے پر امن معاشرہ کے لیے ہم نے کیا کیا سانگھڑ میں اونٹ کی ٹانگ وڈیروں نے کاٹ دی، مقدمہ چل ہے لیکن کیا ہو گا وہ آپ کو پتا ہے۔
حضور پاکؐ سے قبل کا دور جہالت کا دور پھر نظر آ رہا ہے، جہاں غلاموں پر ظلم ہوتا تھا اور طرح طرح کی روایات پروان چڑھی ہوئی تھیں، اونٹ کی ٹانگ کاٹنے کا واقعہ بھی دور جہالت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ عید ہمیں درس انسانیت دیتی ہے لیکن ہم یہ درس اپنانا نہیں چاہتے ہیں، عید کے روز ہمارے سامنے غزہ میں مسلمانوں پر جو بیت رہی ہے اس کو بھول گئے کہ یہودیوں کے ہاتھوں قتل و غارت کا بازار گرم رہا بچوں کو بے دردی سے مارا گیا اور مارا جا رہا ہے۔ انسانی حقوق کی پامالی جارہی ہے اور کافروں کو روکنے والا کوئی نہیں۔ خوراک کا بحران ہے روٹی میسر نہیں اور نسل کشی جاری ہے۔ عالمی انصاف کے فیصلے دھرے کے دھرے رہ گئے ہیں، دنیا بھر کے احتجاجی مظاہرے کسی کام نہیں آئے، اسرائیل کے سامنے پوری دنیا بے بس ہے، ان غزہ کے مسلمانوں کی عید کا پوچھیں کہ ان کی عید پر کیا بیتی اور وہ بے یار و مددگار سڑکوں پر پڑے رہے۔ کھانے کو نہیں ملا مسلمان کی ایمانی طاقت کہاں گئی جو حضرت عمر فاروقؓ کے زمانے میں تھی، شیر علیؓ کی تلوار میں تھی، اسرائیل کی اشیا کے استعمال کو روکنے کے لیے وہ مہم دم توڑ گئی جو مسلمانوں نے شروع کی عید کے روز ہی شکر گڑھ میں اسرائیلی مشروب کا ٹرک الٹ گیا وہاں اس اسرائیلی مشروبات کو کس طرح مال غنیمت جان کر لوٹا گیا یہ ہے ہماری مسلمانی۔ ہزاروں غزہ کے علاقوں میں اسرائیل کی بربریت کا شکار ہو رہے ہیں لیکن دنیا کے 58ممالک بے بس ہیں، ان کے اپنی اپنے مفادات ہیں، انھیں کیا کہ عید کے دن فلسطین کے مسلمانوں نے عید کس قرب میں گزاری، ان کے احساسات کیا تھے ہم سے تو غیر مسلم ممالک اچھے جنہوں نے فلسطین کی ریاست کو قبول کر لیا ہے اور وہ ڈٹ گئے ہیں ہم جنگ خیبر کو ابھی بھی یاد کرتے ہیں جس میں تھوڑے سے مسلمان ہزاروں غیر مسلم پر بھاری تھے عید اصل میں ایثار و قربانی کا درس دیتا ہے پتہ کتنی عیدیں منا چکے لیکن ایثار و جذبہ نہیں پیدا ہوا قربانی کے جانوروں کی خرید پر لاکھوں روپے خرچ کر دیتے ہیں اچھے جانور لیتے ہیں لیکن اندر کے جانور کو مارنے کی کوشش نہیں کرتے قربانی کا گوشت محفوظ کر لیتے ہیں اور مہینوں کھاتے ہیں لیکن غریب مساکین اور یتیم کے حصوں کا خیال نہیں رکھتے ہیں ایک ویڈیو وائرل ہوئی جس میں تمام گائوں کے لوگوں نے سارے گائوں کا گوشت اکٹھا کر کے حقداروں کے لیے ایک جگہ جمع کر دیا اور دس کلو گوشت مستحق افراد کی لسٹ تیار کر کے دیا گیا اس سے ہمیں سبق سیکھنا چاہیے قربانی کے مقاصد اور اس کی اصل روح جب تک سمجھ نہیں آئے گی اور اس وقت تک ہماری عیدیں ایسے ہی گزرتی جائیں گی۔