مالیتان ، مولتان سے ہوتا ہوا ملتان

تحریر : فیاض ملک
دریائے چناب کے کنارے آباد ملتان جس کو اولیاء کا شہر کہا جاتا ہے، آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے اس پانچواں بڑے شہر میں سرائیکی اکثریت میں ہیں جبکہ یہ شہر جنوبی پنجاب کی سیاست اور ثقافت کا مرکز ہے، اگر اس کے تاریخی پس منظر کا جائزہ لیا جائے تو معلوم پڑتا ہے کہ ایک قوم جس کا نام مالی تھا یہاں آکر آباد ہوئی اور سنسکرت میں آباد ہونے کو استھان کہتے ہیں یوں اس کا نام مالی استھان پڑ گیا جو رفتہ رفتہ’’ مالی تان ‘‘ بن گیا پھر وقت کے ساتھ ساتھ مالیتان ، مولتان سے ہوتا ہوا اب ملتان بن گیا ہے، سکندر بن فیلقوس کے زمانہ میں یہ مالی قوم کا دار الخلافہ تھا اسی مالی قوم کی نسبت سے اس کا نام مالی تان پڑا تھا، اسلامی تاریخ کی بات کی جائے تو ملتان کو سب سے پہلے 712عیسوی میں محمد بن قاسم نے فتح کیا اور اسلامی سلطنت کی بنیاد رکھی، جس کے بعد997عیسوی میں محمود غزنوی نے ہندوستان کے ساتھ ملتان کو بھی فتح کرکے اپنی حکومت میں شامل کیا تھا، 571ہجری بمطابق 1175عیسوی میں سلطان شہاب الدین محمد غوری نے خسرو ملک کو شکست دیکر ملتان پر قبضہ کر لیا تھا۔ سلطان غوری کے بعد بے شمار خاندانوں نے اس کو اپنا پایہ تخت بنائے رکھا، جن میں خاندانِ غلاماں ،خاندانِ خلجی،خاندانِ تغلق،خاندانِ سادات خاندانِ لودھی اور پھر مغلیہ سلطنت کے حکمرانوں تک ملتان مسلم سلطنت کا حصہ رہا،اسی زمانے دریائے راوی ملتان کے قدیم قلعے کے ساتھ بہتا تھا اور اسے بندرگاہ کی حیثیت حاصل تھی ، کشتیوں کے ذریعے صرف سکھر بھکر ہی نہیں منصورہ ، عراق ، ایران ، مصر کا بل دلی اور دکن تک کی تجارت ہوتی تھی، 1857کی جنگ ِ آزادی کے بعد انگریزوں نے ملتان پر مکمل قبضہ کر لیا جو کہ1947تک برٹش امپائر کے کنٹرول میں رہا اور آزادی کے بعد یہ پاکستان کا حصہ بنا، اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ملتان ایک شہر ہی نہیں ایک تہذیب اور ایک سلطنت کا نام بھی ہے، شہر ملتان کی تاریخ بہت پرانی ہے اس کا شمار دنیا کے قدیم ترین شہروں میں ہوتا ہے، بہت سے شہر آباد ہوئے مگر گردش ایام کا شکار ہو کر صفحہ ہستی سے مٹ گئے ، لیکن شہر ملتان ہزاروں سال پہلے بھی زندہ تھا اور آج بھی زندہ ہے اس کو صفحہ ہستی سے ختم کر نے کی کوشش کرنیوالے سیکڑوں حملہ آور خود نیست و نابود ہو گئے آج ان کا نام لیوا کوئی نہیں مگر ملتان آج بھی اپنے پورے تقدس کے ساتھ زندہ ہے۔ ملتان کی وسعت اور عظمت پر تاریخ آج بھی رشک کرتی ہے ، ملتان کے قدامت کے ہم پلہ دنیا میں شاید ہی کوئی شہر ہو ، ایک وقت تھا جب یہ سلطنت سمندر تک پھیلی ہوئی تھی، پاکستان میں جن شہروں کو مصنوعی طریقے سے ملتان سے کئی گنا بڑے شہر بنایا گیا ہے، آج سے چند سو سال پہلے یہ ملتان کی مضافاتی بستیاں تھیں، عروس البلد لاہور اسکا ایک مضافاتی علاقہ ہوتا تھا، ساہیوال، پاکپتن، اوکاڑہ، میاں چنوں، خانیوال،
لودھراں، مظفرگڑھ اور بھکر تمام اس کے علاقے تھے مگر یہ تاریخی شہر رفتہ رفتہ تقسیم در تقسیم ہوتا گیا۔ قارئین کرام! اولیاء کرام کی دھرتی کہلانے والے اس شہر میں حضرت شاہ شمس تبریزؒ، حضرت بہائوالحق ؒ، بی بی نیک دامن ؒ، حضرت بہائو الدین زکریا ملتانیؒ، حضرت شاہ رکن عالمؒ، حضرت منشی غلام حسن شہید ملتانؒ، حضرت موسیٰ پاک شہید ؒ، حضرت سید احمد سعید کاظمیؒ، حضرت حافظ محمد جمال ؒ، حضرت بابا پیراں غائبؒ اور بہت سے اولیاء کرام کے مزارات یہاں پر ہیں۔ مضافات میں حضرت مخدوم عبد الرشید حقانی ؒ شاہ صاحب ( وہاڑی روڈ)، حضرت پیر سید سخی سلطان علی اکبرؒ کا مزار بھی موجود ہے جو سورج میانی روڈ پر واقع ہے۔ یہاں کی سیاسی شخصیات کا اگر ذکر کیا جائے تو ان کا بھی پاکستان کی سیاست میں اہم کردار ہیں جن میں سرفہرست حامد رضا گیلانی، سکندر حیات خان، حنا ربّانی کھر، شاہ محمود قریشی، شوکت ترین، صادق حسین قریشی، محمد وصی ظفر، مخدوم جاوید ہاشمی، مخدوم سجاد حسین قریشی، یوسف رضا گیلانی، ملک رفیق رجوانہ، ملک عامر ڈوگر، عبدالغفار ڈوگر اور رانا محمود الحسن کا نام ہیں، چیئرمین سینیٹ، وزیر اعظم، وزیر خارجہ اور گورنر سمیت دیگر اہم عہدوں پر اس شہر سے تعلق رکھنے والے سیاستدان فائز رہے ہیں، دیگر نامور شخصیات میں مشہور سابق کرکٹر انضمام الحق کا تعلق بھی اسی شہر سے ہے، ملکی تعلیمی اداروں میں نمایاں مقام کی حامل بہائوالدین زکریا یونیورسٹی تو ملتان کی شناخت بن چکی ہے، یہی نہیں آبادی کے لحاظ سے پاکستان کے پانچویں بڑے شہر کی ایک بڑی وجہ شہرت مختلف اقسام کے آموں کے باغات ہیں، آموں کی پیداوار میں انور ریٹول، چونسہ، دو سہری، کا لا چونسہ، دیسی، فجری، مالدہ، لنگڑہ، سندھڑی مثالی ہیں اور تو اور مختلف اقسام کے حلوہ جات بھی اس شہر کی بہترین سوغات ہیں، یہاں کی پولیسنگ بھی انتہائی پروفیشنل ہے جس کا اندازہ مجھ کو ملتان جاکر ہوا۔ قارئین کرام! بطور صحافی پاکستان کے مختلف اضلاع کی پولیسنگ اور تھانوں کی حالت زار کے بارے میں آگاہی رکھا میرا صحافتی پیشہ بھی ہے اور میرا شوق بھی، اسی لئے جب میں ملتان گیا تو وہاں پر میں ڈی آئی جی صادق علی ڈوگر کا اپنے ٹی وی، پروگرام، کیلئے تفصیلی انٹرویو بھی ریکارڈ کیا۔
جبکہ ریجنل پولیس آفیسر کیپٹن ریٹائرڈ سہیل چودھری سے ملاقات ممکن نہیں ہو پائی ، تاہم ملتان شہر میں گزارے ہوئے تین دنوں کے دوران میں نے مختلف تھانوں کے ساتھ ساتھ سی پی او اور آر پی او آفس میں سائلین کی جانب سے موصول ہونیوالی شکایات پر افسران کی طرف سے کارروائیوں کا سسٹم بھی دیکھا،32تھانوں پر مشتمل اس ضلع میں جہاں تھانوں سمیت دیگر شعبوں میں ہونیوالی ترقی سامنے آئی وہی یہاں کی پولیس اور اسکے ورکنگ کے سسٹم نے بھی خاصا متاثر کیا، اس میں کوئی شک نہیں کہ ملتان شہر ایک بڑا ضلع ہے جس کی کمانڈ آر پی او کیپٹن ریٹائرڈ سہیل چودھری اور سٹی پولیس چیف کے طور پر صادق علی ڈوگر کر رہے ہیں، ان پولیس افسران نے اپنی پوسٹنگ کے بعد سب سے پہلے جو اچھا کام کیا وہ تمام افسران کے دفاتر میں سے چٹ سسٹم کا خاتمہ ہے جس کے بعد عام شہری کی ہر پولیس افسر تک پہنچنے کی رسائی آسان ہو گئی، یہاں کے تھانوں اور پولیس کے دیگر دفاتر کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ ریجنل پولیس آفیسر کی حیثیت سے سہیل چودھری نے ملتان پولیس کے رنگ ڈھنگ کو ہی تبدیل کرکے رکھ دیا ہے، تمام تھانوں کو ہنگامی بنیادوں پر سپیشل انشٹیو کے تحت تیار کرایا بلکہ پولیس افسران دفاتر کی بھی جدید خطوط پر تعمیر کرتے ہوئے انہیں جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ کرایا، یہی نہیں، اس نوجوان پولیس آفیسر نے تھانوں کی سطح پر بیٹ سسٹم کو فوری فعال کیا اور گشت کے نظام کو مزید موثر بنانے کیلئے آن لائن ٹریکنگ سسٹم کو جدید خطوط پر استوار کیا، اینٹی ویمن ہراسمنٹ سیل بھر پور انداز میں فعال کیا، جہاں پر خاتون پولیس آفیسرز جنسی استحصال اور تشدد سے متاثرہ خواتین کی داد رسی اور قانونی رہنمائی کیلئے تعینات کی گئی، تھانہ کلچر میں بہتری اور کیمونٹی پولیسنگ کے تحت پولیس اور عوام کے درمیان روابط کو بہتر بنانے کیلئے عملی اقدامات کئے، اسی طرح پولیس لائن اور دور دراز کے تھانوں میں تعینات پولیس افسران اور اہلکاروں کیلئے فری ڈسپنسری ، یوٹیلیٹی سٹور، میس کی اوور ہالنگ اور فرنیچر کی دستیابی کو بھی یقینی بنایا، پولیس ملازمین کے کرونا ،ہیپا ٹائٹس اور دیگر بیماریوں کے ٹیسٹ کرانے کے ساتھ ساتھ انہیں مفت علاج کی بہترین سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنایا ، اس میں کوئی شک نہیں کہ سہیل چودھری نے زبانی جمع خرچ کی بجائے عملی طور پر کام کرتے ہوئے روایتی تھانہ کلچر کو تبدیل کیا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ اگر ڈسٹرکٹ اور ریجن کی سطح پر تعینات افسران بیان بازی کرنے کی بجائے عملی طور پر اقدامات کریں تو یقینا کرائم میں واضح طور پر کمی آسکتی ہیں، انہوں نے جس پروفیشنل انداز میں جنوبی پنجاب کے باسیوں کے ساتھ پولیس کے تعلقات میں بہتری لانے کیلئے عوامی خدمت پر مبنی پولیسنگ نظام، پبلک سروس ڈیلیوری سسٹم اور پولیس انفارمیشن ٹیکنالوجی بیسڈ جدید ترین ای پولیسنگ کے قیام کو یقینی بنایا ہے یہ قابل تحسین عمل ہے، انہوں نے جرائم کی بیخ کنی، سروس ڈلیوری بہتر بنانے کیلئے انفارمیشن ٹیکنالوجی اور ٹولز پر انحصار کرتے ہوئے پولیس کی ورکنگ کو انفارمیشن ٹیکنالوجی کے جدید سسٹمز اور ایپلی کیشنز پر استوار کیا اور پولیس کے شفاف، غیر جانبدارنہ احتساب کیلئے کمپلینٹ مینجمنٹ سسٹم بلاتعطل فعال کو یقینی بنایا گیا، شہریوں کی شکایات کی ٹریکنگ، فیڈ بیک، فالو اپ کی اعلی سطح پر سپرویژن کو یقینی بنایا ہے جس کی بدولت ہزاروں شکایات کا بروقت ازالہ ہوچکا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ سہیل چودھری محکمہ پولیس میں پروفیشنل، دیانتدار اور کہنہ مشق پولیس آفیسر کے طور پر نہایت مثالی شہرت کے حامل شخصیت ہیں، وہ نہ صرف انتہائی مضبوط قوت فیصلہ کے حامل افسر ہیں بلکہ اپنے فیصلوں پر ڈٹ جانے کی خصوصیت بھی رکھتے ہیں۔