تاریخ کی خوفناک ترین ڈکیتی

تحریر : رفیع صحرائی
مرے کو مارے شاہ مدار کے مصداق حکومت پاکستان نے مرغِ بسمل کی طرح تڑپتے عوام پر واپڈا کے ذریعے کُند چھری کا ایک اور وار کر دیا ہے۔ تمام واپڈا صارفین پر 200روپے سے لے کر 1000روپے تک فکسڈ چارجز عاید کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس فیصلے کا اطلاق یکم جولائی 2024سے ہو گا۔ چودہ پندرہ قسم کے ٹیکس ادا کرتے عوام پر یہ نیا جگا ٹیکس ہے۔ ہماری بدقسمتی کہ یہ حکومت گزشتہ نگران حکومت کا تسلسل ہی نہیں ہے بلکہ اس سے زیادہ بے حِس اور ظالم ہے۔ حکمران اپنی مراعات بڑھاتے چلے جا رہے ہیں اور عوام کو مہنگائی کے کولہو میں ڈال کر ان کے خون کا آخری قطرہ تک نچوڑتے جا رہے ہیں۔ میرے سامنے اس وقت تازہ ترین بجلی کا بل پڑا ہے جس کے مطابق گزشتہ ماہ میں کل 28 صرف یونٹس کی بجلی کی قیمت فی یونٹ 37.50روپے کے حساب سے 1057روپے درج کی گئی ہے جبکہ ٹیکسز وغیرہ اور فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں رقم شامل کرنے کے بعد بل کی واجب الادا کل رقم 2425روپے بنائی گئی ہے یعنی ساڑھے سینتیس روپے فی یونٹ قیمت والی بجلی کی ٹیکسز شامل کرنے کے بعد فی یونٹ قیمت 86روپے 60پیسے بنتی ہے۔ مطلب یہ ہوا کہ بجلی صارف ایک یونٹ بجلی خرچ کرنے پر تقریبا پچاس روپے ٹیکس کی مد میں ادا کرتا ہے۔ یہ صارف کوئی بہت بڑا تاجر، صنعتکار یا کوئی سرکاری افسر نہیں ہے۔ بلکہ یہ خطِ غربت سے انتہائی نیچے کم آمدنی والا ایک معمولی آدمی ہے جو چھابڑی فروش، ریڑھی والا، سر پر سارا دن بٹھل اٹھا کر مزدوری کرنے والا، بے نظیر انکم سپورٹ کی لائن میں لگی بے کس اور بے بس خاتون، گھر سے پکوڑے سموسے بنوا کر گلیوں میں بیچنے والا غریب بچہ، سائیکل پر مالٹے امرود بیچنے والا خمیدہ کمر بوڑھا اور اسی جیسے ہزاروں پیشوں سے وابستہ نادار اور مسکین لوگ ہیں۔ متمول لوگ، سرکاری افسران، بیوروکریٹ، ججز، اشرافیہ، عوامی نمائندے اور بڑے لوگ تو اپنی جیب سے بجلی، گیس اور پٹرول کے بل ادا ہی نہیں کرتے۔ یہ سب تو سرکاری خزانے پر پلنے والے وہ سانڈ ہیں جو غریبوں کی خون پسینے کی کمائی پر پرتعیّش زندگی گزار رہے ہیں۔ ان کی عیاشی کے لیے غریب آدمی بجلی کے بل پر چودہ قسم کے ٹیکسز ادا کر رہا ہے۔ کسی جج نے واپڈا سے پوچھنے یا کسی عوامی نمائندے نے اسمبلی میں سوال اٹھانے کی کبھی ہمت ہی نہیں کی کہ واپڈا کی طرف سے بجلی کے بل پر یہ ٹیکسز کیوں لگائے جاتے ہیں۔ ایک انتہائی غریب شخص سے انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس اور ودہولڈنگ ٹیکس کیوں وصول کیاجاتا ہے؟۔ فاضل ٹیکس اور مزید فاضل ٹیکس ایسے کون سے ٹیکسز ہیں جو عام صارف سے وصول کیے جا رہے ہیں۔ جب میٹر صارف کا اپنا خریدکردہ ہے تو اس کا کرایہ کیوں وصول کیا جا رہا ہے؟۔بجلی کا بل ماہانہ بنیادوں پر وصول کیا جاتا ہے۔ ہر ماہ فیول ایڈجسٹمنٹ کے نام پر جگاٹیکس باقاعدگی سے وصول کیا جاتا ہے تو پھر کوارٹرلی ایڈجسٹمنٹ ٹیرف کیا ہے؟ کسی وکیل کو بھی آج تک یہ توفیق نہیں ہوئی کہ پورے ملک کے غریب عوام کی بھلائی کے لیے کسی عدالت میں آواز اٹھائے۔ عام اور غریب آدمی کو پیسنے کے لیے حکومت، محکمے، اشرافیہ، عدلیہ اور عوامی نمائندے ایک صفحے پرہیں۔پاکستان میں واپڈا کے ذریعے دنیا کی خوفناک ترین ڈکیتی ہر ماہ ڈالی جا رہی ہے۔ پوری دنیا میں کسی مہذب یا غیرمہذب ملک نے عوام کے ساتھ ایسا ظالمانہ سلوک روا نہیں رکھا ہو گا جس قدر بے حسی کا مظاہرہ ہماری آئی ایم ایف کی غلام حکومت کر رہی ہے۔ واپڈا نے پروٹیکٹڈ اور نان پروٹیکٹڈ صارفین کے نام پر لوٹ مار کا نظام متعارف کروا رکھا ہے۔ بجلی کے حالیہ بلوں میں پروٹیکٹیڈ کیٹیگری اور نان پروٹیکٹیڈ کیٹگری کا فرق سمجھیں۔
میرے سامنے واپڈا کے دو بل ہیں۔ 200صرف شدہ یونٹس کا بل 3083روپے ہے۔ جبکہ 201یونٹس کا بل 8154روپے ہے۔ اضافی ایک یونٹ کا بل 5071روپے ہے۔ مطلب 200یونٹ سے اوپر ایک یونٹ کا بل 5071روپے آ سکتا ہے۔ یہ غریب عوام کے ساتھ بہت بڑا ظلم ہے۔ اس کا نوٹس کون لے؟ اس سے بھی بہت بڑا ظلم یہ ریٹ آپ کو اگلے 6ماہ تک مسلسل بھرنا ہوگا۔ مطلب یہ ایک یونٹ آپ کو 30000روپے کا پڑتا ہے۔ یعنی اگر کسی غریب آدمی نے اپنی بیٹی یا بیٹے کی شادی پر لائٹنگ کرنے یا شدید گرمی میں مہمانوں کے لئے زائد پنکھے چلانے کی جرات کی تو یہ جرات اسے تیس ہزار روپے میں پڑے گی۔ صرف ایک مرتبہ 200سے ایک یونٹ زائد استعمال کرنے کی سزا آئندہ 6ماہ تک بھگتنا ہو گی۔ کیا پوری دنیا میں ایسی مثال کہیں اور موجود ہے؟ اپنے عوام پر اتنا بڑا اور ایسا ظلم کہیں کسی نے سوچا بھی نہیں ہوگا۔
کبھی پی ٹی سی ایل واپڈا سے بھی بڑا لوٹ مار کرنے والا ادارہ ہوا کرتا تھا۔ پھر غیرملکی موبائل کمپنیوں نے اس پہاڑ کو ایک پھولے ہوئے شاپر میں تبدیل کر دیا۔ پی ٹی سی ایل کے بعد اب بہت جلد واپڈا کی باری آنے والی ہے جو گلے گلے کرپشن میں دھنس کر صارفین کی کھال کند چھری سے اتار رہا ہے۔ حکومت کے لیے یہ محکمہ سب سے زیادہ کمائو پوت بنا ہوا ہے۔ دل چاہے تو ایک ماہ میں تین بار بجلی کی قیمت بڑھا کر غریب لوگوں کو ذبح کر دیا جاتا ہے۔ معمولی معمولی باتوں پر سوموٹو لینے والی عدالتوں یا جج صاحبان کو اس طرف توجہ دینے کی کبھی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی۔ جن کو بغیر حساب کتاب کے مفت بجلی، گیس اور پٹرول مل رہا ہو ان کے دل میں عوام کا درد کیسے جاگ سکتا ہے؟ آج بڑے افسران، منتخب نمائندوں اور جج صاحبان سے مفت بجلی کی سہولت واپس لے کر دیکھ لیں۔ حکومت کو اس کی قیمت بڑھاتے ہوئے لگ پتا جائے گا۔ عوام تو مجبور اور بے وقعت ہیں، ان کی کون سنتا ہے؟۔ اب امید بندھ چلی ہے کہ پی ٹی سی ایل کے بعد واپڈا بھی تیزی سے زوال کی جانب اپنا سفر شروع کرنے والا ہے۔ ملک بھر میں سولر انرجی کی مقبولیت میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے۔ لوگ دھڑا دھڑ اپنے گھر، دفاتر اور ٹیوب ویل سولر انرجی پر منتقل کر رہے ہیں۔ سکول، کالجز اور مساجد بھی اس ٹیکنالوجی سے استفادہ کرنے کی طرف گامزن ہیں۔ دوسری طرف سولر پینل کی قیمت ایک تہائی ہو چکی ہی۔ اس میں مزید کمی کی توقع کی جا رہی ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق چین سے سولر سسٹم درآمد کرنے والی روایتی کمپنیوں سے ہٹ کر بھی بہت سی کمپنیوں نے سولر سسٹم کی بڑے پیمانے پر درآمد کر کے ان روایتی کمپنیوں کی اجارہ داری کو ختم کر دیا ہے۔ شنید ہے کہ ملکی ضروریات سے پانچ گنا زائد سامان چین سے درآمد ہو کر ملک میں آ چکا ہے۔ روایتی درآمد کنندگان نے ملی بھگت سے اپنا سامان ویئر ہائوسز میں سٹاک کر کے قیمتیں بڑھانے کی کوشش کی تھی مگر غیر روایتی درآمد کنندگان نے ان کی کوششوں پر پانی پھیر دیا ہے۔ ان کے پاس ویئر ہائوسز نہیں اس لیے وہ اپنا مال اونے پونے منافع پر نکال رہے ہیں۔ وہ دن دور نہیں جب عوام کی چمڑی ادھیڑنے والا واپڈا زمین بوس ہو جائے گا۔ پی ٹی سی ایل کی طرح واپڈا والے بھی گھر گھر دروازہ کھٹکھٹا کر کنکشن لگوانے کے لیے منتیں کریں گے لیکن ان کا کنکشن لینے کو کوئی تیار نہ ہو گا۔