اصلی پٹواری کے مسائل

روہیل اکبر
پٹواری اور یوتھیے آج کل بہت مشہور ہیں بلکہ یہ دونوں ایک دوسرے کو طعنے کے طور پر پکارتے اور لکھتے ہیں ان دونوں کا ہی آپس میں مقابلہ ہے عمومی طور پر عمران خان کے حامیوں کو یوتھیے جبکہ میاں نواز شریف کے حامیوں کو پٹواری کہا جاتا ہے جبکہ ان کے مقابلہ میں ایک تیسری جماعت پیپلز پارٹی بھی ہے جو فی الحال اس حوالے سے کسی کھاتے میں نہیں ہے اگر دیکھا جائے تو ہماری یوتھ پڑھی لکھی ہونے کی وجہ سے بہت عقل مند اور سمجھدار بھی ہے اور وہ سمجھتی ہے کہ پاکستان کو لوٹنے میں کن کن لوگوں کا ہاتھ ہے۔ خیر ان باتوں سے ہٹ کر ہم بات کرتے ہیں پٹواریوں کی، جی ہاں وہ پٹواری، جو اصل میں پٹواری ہیں اور ایک کمائو پوت کے طور پر جانے جاتے ہیں جس پر ملکہ ترنم نور جہاں نے گانا بھی گایا تھا کہ دوروں دوروں اکھیاں مارے منڈا پٹواری دا۔ جن کے پاس ہماری زمین کے ایک ایک انچ کا حساب ہوتا ہے اور جو عموما اتنے پاور فل ہوتے ہیں کہ ان کا تبادلہ کرنے والے خود تبدیل ہو جاتے ہیں پٹواری بظاہر اتنے طاقتور لوگ ہیں لیکن اتنے ہی معصوم بھی ہیں جن سے پیسے بٹورنے والے بھی درجنوں میں ہیں یہاں تک کہ ہمارے اکثر صحافی بھائی بھی انہی سے کاروبار زندگی چلاتے ہیں ویسے تو ہمارے تھانوں میں تعینات ایس ایچ او صاحبان بھی مختلف لوگوں کی خدمت کرتے ہیں لیکن ان میں زیادہ تر ان کے اپنے محکمے کے لوگ ہی شامل ہوتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کے اخراجات پورے کرنے کے لیے تھانیدار کو کرپشن کرنا پڑتی ہے آج اگر گلی محلوں اور تعلیمی اداروں میں منشیات کا استعمال عام ہے تو اس کے پیچھے وہی لوگ ہیں جو باقاعدگی سے بھتہ وصول کرتے ہیں اسی طرح ہماری سڑکوں پر جو تجاوزات ہیں ان کے پیچھے بھی وہی لوگ ہیں جو ٹی ایم او کو ریڑھیوں اور فٹ پاتھ قبضہ مافیا سے پیسے لینے پر مجبور کرتے ہیں بلاشبہ اگر وہ سو روپے اکٹھے کرتے ہیں تو 50روپے وہ خود بھی رکھتے ہونگے۔ خیر بات ہو رہی تھی پٹواریوں کی، وہ بھی اصلی والوں کی، جو ساری عمر خود بھی کماتے ہیں اور دوسروں کو بھی کھلاتے ہیں آپ کسی بھی پٹواری کا شجرہ کمائی دیکھ لیں خود بخود اندازہ ہو جائیگا لیکن اس کے باوجود پٹواری کے پاس پرانی سی موٹر سائیکل ہوگی اور دیکھنے والا سمجھے گا کہ اس سے غریب انسان کوئی نہیں ہوگا پٹواریوں کے حوالے سے سجاد علی بھنڈر کے خیالات بھی پڑھنے کو ملے جو حقیقت کے قریب ترین لگے، سوچا آپ لوگوں سے بھی شیئر کر دئیے جائیں کہ عام شہریوں کا خیال ہے کہ پٹواری لوگوں کو لوٹتے ہیں لیکن پٹواری کو کون کون لوٹتا ہے یہ کوئی نہیں جانتا، شائد یہی وجہ ہے کہ رشوت کی زیادتی کی بنا پر محکمہ ریونیو میں مینول نظام کو ختم کر کے کمپیوٹرائزڈ کیا جا رہا ہے، جس کے بعد پھر کوئی پٹواری کیونکر کسی کے ناز نخرے اٹھائے گا؟، کیونکر اضافی ڈیوٹیاں نبھائے گا؟، ایک اندازے کے مطابق35سے 55ہزار روپے تنخواہ لینے والا ایک پٹواری نیچے سے اوپر تک تقریباً 70گھروں کے چولہے روشن کرنے کے اسباب پیدا کرتا جیسے رشوت کی کوئی رسید نہیں ہوتی اسی طرح فٹیک کی بھی کوئی وصولی نہیں دی جاتی۔ بس حکم ملتا ہے صاحب نے یا میڈم نے کہا ہے، پھر اس کی کسی سے تصدیق بھی نہیں کی جا سکتی بیچارہ پٹواری اپنی مجبوری میں کی گئی ایک غلطی کو چھپانے کے لیے 70سے زائد لوگوں کے ناز نخرے اٹھاتا ہے پٹواری سے مجبوری میں غلطی بھی افسران کی لاپرواہی اور خود غرضی کی ہی مرہون منت ہوتی ہے، جب ٹی اے ڈی نہیں دیا جائے گا جب دفتر میں سٹیشنری نہیں پہنچائی جائے گی، جب عالمی انسانی حقوق کے قوانین کے مطابق دن میں 8گھنٹے ڈیوٹی اور ہفتہ وار ایک تعطیل بھی نہیں دی جائے گی، جب محکمہ ریونیو کے علاوہ چھتیس محکموں کی بلا معاوضہ اضافی ڈیوٹی بھی لی جائے گی، جب پٹوار خانے میں سرکاری طور پر مفت بجلی بھی نہیں دی جائے گی، پھر سب سے بڑھ کر پٹواری کے ذاتی حیثیت میں امدادی اسٹاف کے لیے پرائیویٹ منشی کی سہولت بھی نہ دی جائے تو پھر پٹواری سے سرزد مجبوری میں ہوئی لوٹ مار کے ذمہ دار بھی تو سبھی قرار پائیں گے نا، لیکن جب بھی انٹی کرپشن کا چھاپہ پڑتا ہے تو پکڑا صرف پٹواری ہی جاتا ہے جو تھوڑے ہی عرصہ کے بعد دوبارہ اپنی ڈیوٹی پر پہلے سے زیادہ مستعدی سے کام کرنا شروع کر دیتا ہے لیکن اس کے حصوں میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے، ایک پٹواری سے مختلف قسم کے لو گ اپنا کام کراتے ہیں جو پٹواری کے نام پر خود بھی کھاتے ہیں اور پٹواری کو بھی خوش کرتے ہیں جبکہ وکیل فیس لے کر اپنے کلائنٹ کو انصاف دلوانے کے لیے پٹوار خانے پہنچتے ہیں، اشٹام فروش کمیشن لے کر ریونیو کے کام کراتے ہیں، انویسٹرز پھڈے والی پراپرٹی چوونی اٹھنی میں خرید کر مالا مال ہو جاتے ہیں اور ان کے بدلے میں افسران گلا گھونٹ کر پٹواری سے فرمائشیں پوری کراتے ہیں تو پھر ذمہ دار بھلا اکیلا پٹواری کیسے ہو سکتا ہے؟ آج کمپیوٹرائزڈ نظام کی باتیں ہو رہی ہیں لیکن ہمارے پٹواری اس کی الف بے سے بھی واقف نہیں اگر پٹواری کو محکمانہ دفتری امور کی انجام دہی کے لیے مسلسل فنڈز اور سہولیات فراہم کی جاتیں اور ناجائز اور ناحق فرمائشیں نہ پوری کرائی جاتیں تو شاید اگلے 100سال تک بھی محکمہ ریونیو میں کسی قسم کی تبدیلی کی ضرورت ہی پیش نہیں آنی تھی آج بورڈ آف ریونیو پنجاب کی عمارت پر صرف اور صرف تزئین و آرائش پر غالباً ایک ارب روپیہ خرچ کیا جا چکا ہے افسران کے کمروں میں لاکھوں روپے کے فانوس اور برقی قمقمے تو لگا دئیے گئے مگر محکمہ ریونیو کی اپ گریڈیشن اور کمپیوٹرائزڈ نظام سے ہم آہنگ کرنے کے لیے ان کی ٹیبل پر ایک لیب ٹاپ یا کمپیوٹر تک نہیں رکھا گیا۔ جبکہ بے او آر کے افسران ایک یا دو نہیں بلکہ تین تین گاڑیوں سے لطف اندوز بھی ہورہے ہیں اس کے ساتھ ساتھ پلرا ہیڈ آفس اور اراضی ریکارڈ سنٹرز پر اتنی سہولتیں فراہم کی گئی ہیں کہ سٹاف کو اپنی جیب سے ایک کچی پنسل تک نہیں خریدنی پڑتی جو صبح 9بجے آتے ہیں اور شام 4بجے اپنے گھروں کو روانہ ہوجاتے ہیں ہفتے کو ہاف ڈے اور اتوار کو پوری چھٹی کے مزے اڑاتے ہیں اور ان کے مقابلہ میں ایل ڈی اے، روڈا، ڈیفنس اور پلرا ٹائپ تمام اتھارٹیوں کے ناز نخرے پٹواری ہی تو اٹھا رہے ہیں پٹواری بیچارہ دیہاڑی، ہفتے اور منتھلی تقسیم کرتے کرتے ایسا ملاح بن کر رہ جاتا ہے جس کے حقے میں کبھی پانی ہی نہیں ہوتا یہ تو ہمت والے پرانے بھرتی شدہ پٹواری جو کہ اپنی زندگی کا ایک اہم حصہ محکمہ ریونیو کی خدمت اور نوکری میں گزارنے کے بعد اب ریٹائرمنٹ کے قریب پہنچ چکے ہیں جبکہ نئے بھرتی ہونے والے پٹواریوں کا تعلق ہماری نوجوان نسل یعنی یوتھ سے ہے وہ کھانے اور کھلانے کے چکر میں نہیں پڑتے اور ابھی سے حوصلہ شکنی کا شکار ہو رہے ہیں جیسے ہی انہیں کسی اور محکمہ میں نوکری کا چانس ملے گا وہ دیر نہیں لگائیں گے اگر پٹواری چور ہے تو اس سے دیہاڑی، ہفتہ، منتھلی اور فٹیک لینے والے بھی چور ہی ہیں بلکہ بڑے چور ہیں خدارا محکمہ مال پر ترس کھائیں ویسے بھی کون سا محکمہ دودھ کا دھلا ہوا ہے۔