کڑوا پھل

علیشبا بگٹی
یہاں کڑوا پھل سے مراد کریلا یا نیم کا پھل نہیں۔ بلکہ برا ساتھی اور برا وقت ہے۔
سلطان محمود ایک نیک بادشاہ تھا، غزنی کا رہنے والا تھا، ایک دیہاتی نوجوان اس کی خدمت میں آیا، بادشاہ کو وہ پسند آ گیا، بادشاہ اسے اپنی خدمت میں رکھتا تھا، اس سے مشورہ کرتا تھا، اس وقت جو وزراء تھے۔ ان کو یہ بات بری لگتی تھی کہ نہ اس کی شکل ہے، نہ عقل ہے، نہ تعلیم ہے، نہ کوئی لائق بندہ ہے، پتہ نہیں بادشاہ کو اس کی کون سی بات پسند ہے، تو وہ اندر اندر ہی جلتے رہتے تھے چنانچہ اس کوشش میں لگے رہتے تھے کہ کبھی کوئی ایسا موقع ملے کہ ہم بادشاہ سے یہ بات کریں، ایک دن انہوں نے بات کی کہ بادشاہ سلامت۔ آخر کیا چیز ہے کہ آپ اس پر اتنے فدا ہیں، جو محبت کی نظر اس پر اٹھتی ہے، وہ ہم پر نہیں، بادشاہ نے کہا کہ اچھا، ہم بتلائیں گے، اگلے دن بادشاہ نے ایک پھل کا انتظام کیا جو انتہائی کڑوا تھا، کاشیں بنوائیں، اور ان معترضین کو ایک ایک کاش دی، جس نے منہ سے لگائی تھو تھو کرکے پھینک دی۔ کہ بہت کڑوی ہے، بادشاہ سلامت یہ بہت کڑوی ہے، بادشاہ نے ایاز کو دیکھا کہ وہ اس پھل کو بڑے مزہ سے کھا رہا ہے، کوئی ناگواری کے آثار نہیں، چہرے کے اوپر کوئی غلط تاثر محسوس نہیں، کھلے چہرے کے ساتھ، مسکراتے چہرے کے ساتھ کھا رہا ہے، بادشاہ نے پوچھا ایاز۔ کیا یہ کڑوا نہیں ہے ؟ بادشاہ سلامت کڑوا تو ہے، بادشاہ نے پھر سوال کیا تو پھر آپ مزہ سے کیسے کھا رہے ہو؟ ۔۔ ایاز بولا۔۔ جی بادشاہ سلامت۔ میرے دل میں یہ خیال آیا کہ جس ہاتھ سے میں آج تک میٹھی چیزیں لے کر کھاتا رہا، اگر آج کڑوی بھی مل گئی تو اسے خوشی سے کیوں نہ کھاں؟ بادشاہ نے کہا دیکھو، اس کے اندر کس درجہ کی قدردانی ہے کہ جس بادشاہ کے ہاتھوں آج تک میٹھی چیز ملتی رہی اور کھاتا رہا، آج اگر کڑوی بھی مل گئی تو شکوہ کی کیا ضرورت ہے؟ لہذا مسرت کے ساتھ کھاتا رہا، جب کہ تم لوگ تو تھو تھو کرنے لگے، تمہارے اندر قدر دانی نہیں۔۔۔۔۔
ذرا سوچیں جس پروردگار کی طرف سے ہمیں زندگی بھر خوشیاں ملتی رہتی ہیں، کبھی کوئی بیماری آ گئی، تکلیف آ گئی۔ تو بے صبری اور پریشانی کی کیا ضرورت ؟ کاش کہ اس ان پڑھ نوجوان والی صفت ہمارے اندر بھی آجاتی۔
ترک کہاوت ہے کہ اگر تم نے کبھی کڑوا پھل نہیں کھایا تو تمہیں کبھی پتہ نہیں چلے گا کہ میٹھا پھل کتنے مزے کا ہوتا ہے۔۔ زندگی کی ہر مشکل اگر آپ کو شکر گزاری کی طرف لے کر جا رہی ہے۔ تو یقین کریں کہ یہ اشارہ ہے کہ آپ جنت کے راستے پر ہیں۔
شاعر کہتا ہے کہ۔۔
مرے حصے کا ہر پھل کیوں سدا کڑوا نکلتا ہے
بھروسہ جس پہ کرتا ہوں وہی جھوٹا نکلتا ہے
یقیں کس پر کریں اپنا کہیں کس کو یہاں طارق
کہ اب ہر شخص کے چہرے پہ اک چہرہ نکلتا ہے
کہتے ہیں کہ صبر اور خاموشی ایک ایسا درخت ہے جس پر کڑوا پھل نہیں لگتا۔۔۔ بائبل میں لکھا ہے کہ زمین اپنے باشندوں کے باعث ویران و سنسان ہو جائے گی، آخر کار اُن کی حرکتوں کا کڑوا پھل نکل آئے گا۔
ایک گائوں میں ایک غریب کسان رہتا تھا۔ جس کا نام رحمت تھا۔ رحمت کے پاس صرف ایک چھوٹا سا کھیت تھا۔ جس میں وہ مختلف قسم کی سبزیاں اگاتا تھا۔ تاکہ اپنی روزمرہ کی ضروریات پوری کر سکے۔ ایک دن، رحمت کو ایک نامعلوم درخت کا بیج ملا جو بہت کڑوا تھا۔ اس نے سوچا کہ شاید یہ بیج کسی کام کا ہو، اس نے اسے اپنے کھیت میں بو دیا۔ وقت گزرتا گیا اور درخت بڑا ہونے لگا۔ رحمت نے دیکھا کہ درخت پر بہت سے پھل لگنے لگے ہیں، لیکن وہ سب کڑوے تھے۔ رحمت نے سوچا کہ ان کڑوے پھلوں کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور وہ درخت کو کاٹنے کا ارادہ کرنے لگا۔ لیکن اسی دوران، ایک حکیم گائوں میں آیا۔ حکیم نے رحمت کے کھیت کا دورہ کیا اور کڑوے پھلوں کا مشاہدہ کیا۔ اس نے رحمت سے کہا، ’’ یہ کڑوا پھل انتہائی مفید ہے۔ اس کے اندر بہت سی بیماریوں کا علاج موجود ہے‘‘۔ رحمت کو یقین نہیں آیا، لیکن حکیم نے اسے کچھ نسخے بتائے جن میں یہ پھل استعمال ہوتا تھا۔ رحمت نے ضحکیم کی ہدایات پر عمل کیا اور کڑوے پھلوں کو مختلف نسخوں میں استعمال کرنے لگا۔ جلد ہی، اس کی شہرت پورے گائوں میں پھیل گئی ۔ کہ رحمت کے پاس بیماریوں کا علاج موجود ہے۔ لوگ دور دور سے آکر اس سے دوا لینے لگے۔ رحمت کے کھیت میں جو کڑوا پھل اس کے لیے بے کار لگتا تھا، وہی اس کی زندگی کی سب سے بڑی دولت بن گئی۔ اس نے نہ صرف اپنی غربت دور کی بلکہ لوگوں کی مدد کرکے دلوں میں جگہ بنائی۔ رحمت کو اس بات کا احساس ہوا۔ کہ زندگی میں ہر چیز کی ایک قدر ہوتی ہے، چاہے وہ بظاہر کڑوی ہی کیوں نہ ہو۔
اس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ زندگی کے کڑوے تجربات اور مشکلات بھی ہمارے لئے فائدہ مند ثابت ہو سکتے ہیں اگر ہم ان کا صحیح استعمال کریں اور ان سے سیکھیں۔