ColumnTajamul Hussain Hashmi

کمیٹیوں کا کردار

تجمل حسین ہاشمی
تھوڑا مسجدوں کا سوچیں، مسجدیں اللہ کا گھر ہیں جہاں اللہ کا قرب حاصل ہوتا ہے، جہاں پانچوں وقت اللہ کا پیغام بلند آواز لوگوں تک پہنچایا جاتا ہے، سچا اور برحق پیغام ہے جس کی منادی دن میں پانچ مرتبہ کی جاتی ہے، کہ آئو نماز کی طرف، آئو فلاح کی طرف۔ اللہ سب سے بڑا ہے۔ اللہ کا واضح حکم ہے کہ فلاح صرف اللہ کے دین میں ہے۔ باقی دنیا فانی ہے، سب مٹ جانا ہے۔ جو باقی رہ جائیگا وہ صرف اسلام ہے۔ آپ کے اعمال زندہ رہیں گے، جس پر مسلمانوں کو انعام دیا جائیگا۔ انعام کا وعدہ اللہ نے کیا ہے، مسجدوں کا احترام سب پر لازم ہے۔ روزمرہ کے مسائل کے ساتھ مسجدوں کے مسائل پر روشنی ڈالنا انتہائی ضروری ہے۔ اس حوالہ سے ہم لوگ کافی لاپروا ہیں۔ حدیث مبارکہ ہے: حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ِ گرامی ہے: لوگوں پر ایسا زمانہ آئے گا کہ اپنی مسجدوں میں حلقے اور محفلیں لگا کر بیٹھیں گے اور ان کا مقصد خالص دنیا ہی ہو گی، اللہ تعالیٰ کو ان سے کوئی سروکار نہیں، آپ ان کی محفل اور حلقہ میں شریک مت ہونا۔ میرے آقا حضورؐ کا واضح ارشاد ہے کہ مسجد میں نمازیوں کیلئے تمام سہولیات مہیا کرنا اہم ذمہ داری ہے۔ ان سہولیات کا ہونا کتنا اہم ہے، اس کا اجر بھی کئی گنا ہے۔ کوئی ایک دن بھی خادم غیر حاضر نہیں رہتا۔ کسی دن بھی باجماعت نماز لیٹ نہیں ہوتی۔ گرمی اور سردی دونوں موسموں میں نمازیوں کا خیال رکھا جاتا ہے لیکن گرمی میں مسجدوں کے بجلی کے بلوں میں بھی کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ بجلی کے مہنگے نرخ سے سارے لوگ پریشان ہیں۔ مسجدوں کے خدمات گار بلوں کی ادائیگیوں کیلئے مستحقین کی طرف دیکھ رہے ہوتے ہیں لیکن حقیقت میں یہ ذمہ داری تو ہر مسلمان کی ہے۔ ہر نمازی کو موسم کے مطابق سہولیات میسر ہوتی ہیں تاکہ وہ اللہ کے گھر میں سکون سے عبادت کر سکے ۔ میں نے دیکھا کہ ہر نمازی الگ الگ پنکھا چلاتا ہے لیکن تینوں نمازی ایک پنکھا پر گزارا نہیں کرتے۔ نماز کی ادائیگی کے بعد بند بھی نہیں کرتے۔ مسجد میں موجود سہولیات کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ سہولیات کی کمی پر امام سے لڑتے ہیں، خادم کو باتیں سناتے ہیں۔ اپنے گھروں میں تو بجلی کے ایک ایک یونٹ کا خیال کرتے ہیں۔ بل کیلئے فکرمند رہتے ہیں ۔ گھر میں سہولیات کی کمی پر کوئی لڑائی نہیں کرتے لیکن مسجد کے بل کی ادائیگی اور دوسری ضروریات پر کسی کو پرواہ نہیں ہوتی بلکہ میں نے دیکھا کہ مسجد میں لگے ایئر کنڈیشن بھی پیسے نہ ہونے کی وجہ سے بند کر دئیے جاتے ہیں۔ کیوں کہ مقامی افراد نیک فریضہ پر کوئی توجہ نہیں رہی۔ اپنے گھروں کے لیے فکر مند ہیں لیکن جہاں پر اللہ کی رحمتیں نازل ہوتی ہیں، جہاں نمازیوں کو حاضری کیلئے ہر سہولت فراہم کی جاتی ہے، کبھی پانی کی عدم فراہمی کی شکایت نہیں ملتی، اگر کوئی مسئلہ درپیش ہو تو پیشگی اطلاع دی جاتی ہے لیکن پھر بھی لوگ اللہ کے گھر کیلئے
اپنے مال میں سے خرچ نہیں کرتے، اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ موسم گرما میں مسجدوں کے اخراجات میں کئی گنا اضافہ ہو جاتا ہے تو ہمیں بحیثیت مسلمان اللہ کے گھروں کا خیال رکھنا لازم ہے۔ کئی مسجدوں کے ناظمین فنڈز کی کمی کے حوالہ سے بتاتے ہیں ، ان کا کہنا ہے کہ ملکی خراب معیشت کی وجہ سے اللہ کے گھروں کے معاملات میں مشکلات ہیں۔ رب مالک ہے لیکن اب پہلے کی طرح لوگ توجہ نہیں دیتے۔ مسجدوں میں قائم کمیٹیاں بھی سیاسی اثر و رسوخ کے زیر اثر ہیں، اس کی بنیادی وجہ مسجدوں کے مالی مسائل ہیں۔ اگر علاقائی فی گھر ہر ماہ اللہ کے گھر کیلئے حسب توفیق ایک مخصوص رقم دے تو یقینا مسجدوں میں اعلان کی ضرورت نہیں رہے گی۔ احادیث میں ہے لوگ مسجدوں میں حلقے اور محفلیں لگا کر بیٹھیں گے اور ان کا مقصد خالص دنیا ہوگی، اللہ تعالیٰ کو ان سے کوئی سروکار نہیں۔” آج کل مسجدوں کی کمیٹیوں میں بھی حلقے بن چکے ہیں، کئی تو محفلیں لگا کر بیٹھے ہیں، کہتے ہیں کہ ہم مسجد کا پورا نظام چلاتے ہیں اور ہمارا حکم مقدم ہونا چاہئے۔ کئی جگہوں پر ایسے اختلافات پائے گئے ہیں۔ بس اگر علاقائی افراد مسجدوں کی ضروریات کو اپنی ذمہ داری سمجھیں تو یقیناً ہر مسجد کے مالی مسائل ختم ہوں گے بلکہ ان حلقوں کا بھی خاتمہ ممکن ہوگا۔ یہ فرض ہر مسلمان کو ادا کرنا ہوگا۔ اللہ کے گھروں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ ہم مسجدوں کی ذمہ داری کو مولوی کی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button