پاکستان

عمران خان عام قیدی نہیں، نیب ترامیم کیس کی کارروائی لائیو دکھانا کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں

سپریم کورٹ میں نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے خلاف انٹراکورٹ اپیلوں کی سماعت کو لائیو سٹریمنگ کے ذریعے براہ راست دکھانے کی درخواست کو مسترد کرنے کے فیصلے پر بینچ میں شامل جسٹس اطہر من اللہ نے اب اپنے اختلافی نوٹ میں لکھا ہے کہ ’نیب ترمیم کیس کی کارروائی لائیو دکھانا کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں ہے۔‘

اس اختلافی نوٹ میں جسٹس اطہر من اللہ کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ’سابق وزیر اعظم عمران خان کی پیشی والا نیب ترامیم کیس براہ راست نشر کرنا بنیادی حقوق کے تحفظ کیلئے ضروری ہے۔ نیب ترامیم کیس پہلے براہ راست نشر ہو چکا ہے۔‘

واضح رہے کہ 30 مئی کو سپریم کورٹ آف پاکستان میں نیب ترامیم کالعدم قرار دینے کے خلاف انٹراکورٹ اپیلوں کی سماعت کو لائیو سٹریمنگ کے ذریعے براہ راست دکھانے کی درخواست کو مسترد کر دیا گیا تھا۔

اس معاملے پر عدالت نے فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ درخواست گزار یعنی عمران خان کو اجازت ہے کہ وہ ویڈیو لنک کی مدد سے عدالتی کارروائی میں شامل ہو سکتے ہیں۔

30 مئی کو دوران سماعت عدالت کی جانب سے یہ ریمارکس دیے گئے تھے کہ ’ہم جلد بازی میں فیصلہ نہیں کرنا چاہتے تھے۔ اسی لیے اس پر سوچ بچار کی گئی۔‘

یاد رہے کہ 30 مئی کو سپریم کورٹ میں اس کیس کی سماعت کے موقعے پر سابق وزیر اعظم عمران خان اڈیالہ جیل سے ویڈیو لنک پر پیش ہوئے تو خیبر پختونخوا ایڈوکیٹ جنرل کی جانب سے عدالت کی کارروائی کو لائیو سٹریمنگ کے ذریعے دکھانے کی درخواست کی گئی تھی۔

اس درخواست پر عدالتی بینچ نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے اسے مسترد کر دیا تاہم پانچ رکنی بینچ میں سے جسٹس اطہر من اللہ نے لائیو سٹریمنگ کی درخواست کے حق میں فیصلہ دیا تھا۔

جسٹس اطہر من اللہ کا مزید کہنا تھا کہ ’بانی پی ٹی آئی عمران خان ملک کی بڑی سیاسی جماعت کے سربراہ ہیں۔ سابق وزیر اعظم کی پیشی کو لائیو دکھانا کسی قانون کی خلاف ورزی نہیں ہے۔

جسٹس اطہر من اللہ کی جانب سے جاری ہونے والے اختلافی نوٹ میں مُلک کے سابق وزیِر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے کیس اور اُن کو دی جانے والی پھانسی کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے اختلافی نوٹ میں لکھا ہے کہ ’ذوالفقار علی بھٹو جب پھانسی دی گئی وہ عام قیدی نہیں تھے۔ بینظیر بھٹو اور نواز شریف بھی عام قیدی نہیں تھے۔ سابق وزرا اعظم کیخلاف نیب اختیار کا غلط استعمال کرتا رہا۔ سابق وزرا اعظم کو عوامی نمائندہ ہونے پر تذلیل کا نشانہ بنایا گیا ہراساں کیا گیا۔‘

جسٹس اطہر من اللہ کی جانب سے جاری کردہ یہ اختلافی نوٹ 13 صفحات پر مشتمل ہے۔

اختلافی نوٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ ’بانی پی ٹی آئی بھی عام قیدی نہیں ہیں۔ بانی پی ٹی آئی کے کئی ملین پیروکار ہیں۔ حالیہ عام انتخابات کے نتائج اس کا ثبوت ہیں۔ ایس او پیز کا نہ بنا ہونا کیس براہ راست نشر کرنے میں رکاوٹ نہیں۔ اس کی کوئی ٹھوس وجہ نہیں ہے اور نہ ہی غیر معمولی حالات ہیں۔‘

جواب دیں

Back to top button