ColumnImtiaz Aasi

آئین سے متصادم ایکٹ

تحریر : امتیاز عاصی
وفاقی حکومت کی طرف سے ہتک عزت کا قانون 2002سے نافذالعمل ہے جس کی موجودگی میں کسی نئے قانون کی چنداں ضرورت نہیں تھی۔ آئین کے آرٹیکل143میں یہ بات واضح کر دی گئی ہے وفاقی حکومت کی طرف سے بنائے گئے کسی قانون کی موجودگی میں صوبہ اس نوع کا کوئی قانون نہیں بنا سکتا تاہم اس کے باوجود پنجاب میں کام کرنے والے ماہرین قوانین نے ہتک عزت کا نیا قانون پاس کرکے حکومت کے لئے مشکلات پیدا کر دی ہیں۔ عجیب تماشا ہے قانون بناتے وقت کسی اسٹیک ہولڈر کو اعتماد میں لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی بلکہ راتوں رات قانون بنا کر صوبائی حکومت نے متعلقہ فورم پر بحث کرائے بغیر قانون سازی کر لی۔ سوال ہے قانون پاس کرنے میں اتنی عجلت سے کیوں کام لیا گیا کوئی ڈنڈا لے کر سر پر تو نہیں کھڑا تھا۔ دراصل سیاست دانوں کو اپنی کمزوریوں کے خلاف تنقید کسی طور برداشت نہیں لہذا ان کی بھرپور کوشش ہوتی ہے ذرائع ابلاغ کو کسی نہ کسی طریقے سے قابو میں رکھا جائے۔ سبحان اللہ کیسا قانون بنایا ہے کیس کی ابتدائی سماعت میں ٹریبونل فیک خبر دینے والے کو جرمانہ کر سکے گا ٹریبونل کے فیصلے کے خلاف کوئی عدالت حکم امتناعی جاری نہیں کر سکے گی۔ تعجب ہے اس قانون کی صرف پنجاب میں ضرورت کیوں محسوس کی گئی ہے حالانکہ باقی صوبوں کے خلاف اخبارات اور ٹی وی چینلوں پر خبریں آتی رہتی ہیں جسے وہ حوصلے سے برداشت کرتے ہیں۔ پنجاب کی حکومت شائد تنقیدی خبروں کے معاملے میں حوصلہ ہار بیٹھی ہے اسی لئے بڑی تیزی سے ہتک عزت کا نیا قانون لایا گیا ہے ورنہ جب پہلے سے یہ قانون موجود تھا تو نئے قانون کی ضرورت نہیں تھی۔ پیپلز پارٹی نے ہتک عزت کے قانون سے لاتعلقی ظاہر کی ہے قانون کی منظوری کے وقت پیپلز پارٹی کے تمام اراکین اسمبلی میں موجود نہیں تھے۔ پی ٹی آئی اور سنی اتحاد کونسل نے بل کی مخالفت کی ۔ پنجاب کے گورنر سردار سلیم حیدر نے تو صاف کہہ دیا ہے وہ مشاورت کے بغیر دستخط نہیں کریں گے۔ گورنر نے متنازعہ شقوں پر بات چیت کے لئے تمام اسٹیک ہولڈرز کو اعتماد میں لینے کا فیصلہ کیا ہے ۔صحافی تنظیموں کی جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے عہدے داروں نے گورنر سے ملاقات کرکے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔اب ہم آتے ہیں صوبائی حکومت نے ہتک عزت کا جو نیا قانون پاس کیا ہے وہ کیا ہے؟پنجاب حکومت فیک نیوز دینے والے کو سزا دینے کے لئے خصوصی ٹریبونل قائم کرئے گی جس کا ممبرہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی رضامندی سے مقرر کیاجائے گاجو چھ ماہ کے اندر فیک نیوز دینے والے اور پھیلانے والوں کو سزا دے سکے گا جو تیس لاکھ تک جرمانے کی صورت میں ہو گی۔ حیرت طلب پہلو یہ ہے ہتک عزت کی درخواست آنے کے بعد ایک عبوری حکم کے تحت ٹریبونل جرمانے کی سزا دینے کا مجاز ہوگا۔ کیس کا ٹرائل ہونے کی صورت میں عبوری حکم کے تحت ہرجانے کی وصول کی گئی رقم جرمانے کی حتمی رقم میں شامل کر لی جائے گی۔ ہتک عزت ایکٹ میں ٹریبونل کو اتنا بااختیار بنایا گیا ہے جس کی کارروائی روکنے کے لئے کوئی عدالت حکم امتناعی جاری نہیں کر سکے ۔صحافتی تنظیموں نے اس قانون کو آزادی اظہار کے آئینی حق کے برخلاف قرار دیا ہے جسے عوام کی آواز کو بن کرنے کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ بل منظور کئے جانے کے موقع پر پنجاب اسمبلی میں موجودہ صحافیوں نے احتجاجا واک آوٹ کیا تھا۔ ہتک عزت قانون 2024کا مسودہ جو پنجاب اسمبلی کی ویب سائٹ پر موجود ہے کے مطابق کوئی بھی ایسا شخص جس جو محسوس ہو اس کی ساکھ کو نقصان پہنچایا گیا ہے وہ اس قانون کے تحت ہتک عزت کرنے والے کے خلاف کارروائی کر سکے گا۔ اس مقصد کے لئے اسے یہ ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہو گی کہ اس کی ساکھ کو حقیقی طور پر کتنا نقصان پہنچا ہے۔ اس قانون کے دائرہ اختیار میں ہر وہ شخص آسکے گا جو سوشل میڈیا کی ویب سائٹس کے ذریعے عوام تک پہنچانے کے مقصد سے تصاویر، آوازیں، اشارے، علامات یا تحریریں نشر کرے گا۔ ان سوشل میڈیا پلیٹ فارمز اور اپلیکیشنز میں فیس بک، ایکس یا ٹوئٹر، انسٹاگرام، واٹس ایپ اور ٹک ٹاک شامل ہیں۔ دوسری طرف صحافتی تنظیموں نے مکمل طور پر اس قانون کو مسترد کر دیا ہے ۔ان کا کہنا ہے پنجاب حکومت نے نیا قانون لا کر پریس کی آواز کو دبانے کی کوشش ہے جسے وہ کسی صورت میں قبول نہیں کریں گے۔ حقیقت میں دیکھا جائے تو آزاد میڈیا ہی حکومتوں کو اس کی کمزوریوں سے روشناس کرانے کا ایک موثر ذریعہ ہوتا ہے اگر اسے بھی دبانے کی کوشش کی جائے تو ریاست کے امور درست سمت نہیں چلائے جا سکتے۔ آزاد میڈیا ایک ایسا فورم ہو تا ہے جو حکومت کو عوام کے مسائل سے آگاہ کرکے انہیں حل کرنے کی ترغیب دیتا ہے اگر ذرائع ابلاغ کی آزادی پر پابندی عائد کر دی جائے تو ریاست کے امور نہیں چلائے جا سکتے۔ یہ بھی مسلمہ حقیقت ہے پنجاب حکومت کے بنائے گئے نئے ایکٹ کو اعلیٰ عدلیہ میں جب بھی چیلنج کیا گیا یہ غیر موثر ہو جائے گا۔ حکمران میڈیا سے نہ جانے کون سا انتقام لینا چاہتے ہیں۔ جس طرح کی پنجاب حکومت نے قانون سازی کرکے ایکٹ بنایا ہے مارشل لاء ادوار میں بھی اس طرح نہیں ہوا ہے جیسا کہ اس نام نہاد جمہوری حکومت کے دور میں میڈیا کے ساتھ ہو رہا ہے۔ صوبے کے گورنر نے بھی یہ محسوس کیا ہے بل پر پہلے مشاورت ضروری تھی جو نہیں کی گئی ہے۔ سوال ہے صوبہ پنجاب کو یہ قانون بنانے کی کیوں ضرورت ہوئی ہے آخر اور صوبے بھی ہیں کیا ان کے بارے میں اخبارات، ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر تنقید نہیں کیا جاتی ہے ؟ بادی النظر میں نیا ایکٹ آئین سے متصادم تو ہے ہی ایک ظالمانہ قانون ہے جو کسی وقت کسی کے خلاف استعمال ہو سکے گا جس سے ذرائع ابلاغ کے اداروں کو خبروں کی ترسیل اور اشاعت میں بڑی مشکلات پیش آسکتی ہیں۔ حکومت کو ہتک عزت کے قانون2002 ء کی موجودگی میں نیا ایکٹ لانے کی ضرورت نہیں تھی۔ اگر حکومت نے یہ قانون واپس نہ لیا تو اعلی عدالتیں اسے آئین سے متصادم قرار دیتے ہوئے منسوخ کر دیں گی۔

جواب دیں

Back to top button