یوم تکبیر : جب دشمن کا غرور خاک میں مل گیا

تحریر : ایم فاروق قمر
یوم تکبیر دراصل یوم بقاء ، یوم استحکام ہے، یوم وفا ہے، یوم تجدید سلامتی ہے، یوم فتح ہے اور یوم یکجہتی ہے مسلمان جب بھی میدان کار راز میں اترتا ہے تو نعرہ تکبیر بلند کرتا ہے نعرہ تکبیر جتنی بار بھی بلند کیا جائے کم ہے۔ کیونکہ اگر اللہ کی کبریائی بیان کرنا ہی ہماری زندگی کا مقصد پے تو ہمیں یہ ورد ہمہ وقت کرنا چاہیے۔
چلو یوم تکبیر ہم بھی منائیں! ۔۔۔
دل کفر میں پھر سے دہشت بٹھائیں
28 مئی1998ء کو پاکستان نے چاغی کے مقام پر پانچ کامیاب ایٹمی تجربات کیے۔ ملی تاریخ میں اس دن کو یوم تکبیر کے دن سے یاد کیا جاتا ہے۔
1998ء کو پاکستان ایٹمی دھماکے کر کے دنیا کی ساتویں اور مسلم دنیا کی پہلی ایٹمی طاقت بنا ۔یہ اس خواب کی تعبیر تھی جو سقوط ڈھاکہ کے بعد ایک درماندہ حال اور شکست خورہ قوم کی آنکھوں میں اترا تھا بالکل اسی طرح جیسے بھیڑیوں میں گھری تنہا ہرنی جان بچانے کے لئے اپنی تمام قوت و صلاحیت کو مجتمع کرکے اپنی استعداد سے زیادہ لمبی قلانچیں بھرتی ہے۔دولخت ہوئے ملک کا ایٹمی طاقت بننے کا خواب اپنی طاقت اور صلاحیت سے زیادہ لمبی قلانچ کے سوا کچھ اور نہیں تھا۔اس خواب کو دیکھنے والے ذوالفقار علی بھٹو تھے ،جنہوں نے کہا تھا ہم گھاس کھا لیں گے مگر ایٹم بم ضرور بنائیں گے۔اس خواب کی تعبیر کی تلاش کے ابتدائی مراحل کو آسان بنانے میں ان کے عالمی دوستوں سعودی فرما فروا شاہ فیصل اور لیبیا کے سربراہ معمر قذافی کا کردار نمایاں ہے۔جنرل ضیاء الحق آئے تو بھٹو کی ضد میں انہوں نے اس خواب کو اپنا خواب بنائے رکھا یہاں تک کہ انہی کے دور میں پاکستان اس صلاحیت کے حصول میں کامیاب ہوگیا اور جب جنرل ضیاء الحق نے جے پور میں بھارت اور پاکستان کے درمیان ہونے والے ٹیسٹ میچ میں شرکت کی اور ہندوستان کے وزیر اعظم راجیو گاندھی سے ملاقات ہوئی۔ اس کے کان میں یہ سرگوشی کی کہ اس بار جارحیت کی حماقت نہ کرنا ہمارے پاس ایٹم بم ہے۔ ضیاء الحق کی اس سرگوشی سے وزیراعظم راجیو گاندھی کو پسینے آنا شروع ہو گئے اور اس طرح بھارتیوں کے جارحانہ منصوبوں پر خاک پڑ گئی ۔
ایک جنگ جس کے بارے میں خود بھارتی مصنف نے اپنی کتاب کا عنوان رکھا کہ ’’ ایک جنگ جو لڑی نہ جا سکی‘‘ محض ایٹم بم کی موجودگی کی سرگوشی سے لڑی ہی نہیں گئی۔ پاکستان کے اس ایٹمی پروگرام کو مغرب نے روز اول سے اپنے نشانے پر رکھا یہ دنیا کا واحد ایٹم بم تھا جسے اسلامی بم کا نام دیا گیا۔ حالانکہ اسرائیل کا بم یہودی بم کہلایا نہ امریکہ اور برطانیہ کا بم عیسائی بم نہیں کہلایا، بھارت کے بم کو ہندو بم کہا گیا اور نہ چین کے بم کو بدھسٹ بم کہا گیا۔
اس کا براہ راست تعلق عوام کی خوش حالی سے نہیں ہوتا مگر اس کے باوجود ایٹمی طاقت کے حصول سے عوام کی خوشحالی وابستہ ہوتی ہے۔
ایٹم بم تحفظ کی علامت ہوتا ہے۔ یعنی اس طاقت کے حصول کے بعد آپ کم از کم ڈیٹرنس کے اصول کے تحت دشمن کے اچانک پل پڑنے والے خوف اور خطرے سے نکل آتے ہیں ۔یوں آپ کی توجہ معاشی خوش حالی پر مرکوز ہوتی ہے ۔روایتی ہتھیاروں کی دوڑ میں بہت زیادہ شامل ہونے کی ضرورت باقی نہیں رہتی ۔جنگ نہ ہونے کا احساس دراصل امن قائم ہونے کا ہی نام ہے اور امن کا ماحول غیر یقینی کا خاتمہ کرتا ہے ۔ایٹم بم کے بعد بننے والے ماحول سے فائدہ اُٹھانا سیاسی اور معاشی منصوبہ سازوں کاکام تھا جس میں بری طرح غفلت برتی گئی ۔ 1998ء میں پاکستان میں میاں نوازشریف کی حکومت تھی اور بھارت میں اٹل بہاری واجپائی حکمران تھے۔
بھارت خود کو اعلانیہ اور باضابطہ ایٹمی طاقت قرار دے چکا تھا۔
یہ وہ ایام تھے جب 11اور 13مئی کو بھارت راجستھان میں پوکھران کے مقام پر ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان میں خطرے کی گھنٹی بجا چکا تھا،بھارت نے یکے بعد دیگرے 5دھماکے کر کے اس خطے میں طاقت کے توازن کو بگاڑنے کی مذموم سازش کی تھی جسکا ہر صورت جواب دینا لازمی تھا۔
اب دنیا کی نظریں پاکستان پرلگی تھیں ۔دنیا جانتی تھی کہ پاکستان نے ایٹمی صلاحیت حاصل کر لی ہے ۔
بھارت کے ایٹمی دھماکوں کے بعد پاکستان میں یہ سوال شد ومد سے اُٹھایا جانے لگا کہ اب پاکستان کو کیا کرنا چاہئے ۔پاکستان اور بھارت کے معاملے میں امریکہ اور دوسری طاقتوں کے دوہرے پیمانے اور معیار اس وقت بھی موجود تھے
اس وقت کے امریکی صدربل کلنٹن نے پاکستان کے حکمرانوں کو ٹیلی فون کرکے کہیں اقتصادی دھمکیوں سے ڈرایا تو کہیں پانچ ارب ڈالر کے امدادی پیکیج کا لالچ دیا۔
مگر پاکستانی حکمرانوں ،عوام اور افواج پاکستان نے فیصلہ کیا کہ تمام پابندیوں اور لالچ کے باوجود دشمن کی اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے گا ۔
اس واقعہ کے بعد اہل پاکستان پر صرف ایک جنون طاری تھاکہ بھارت کے ایٹمی دھماکوں کا جواب دینا ضروری ہے۔ ایٹمی دھماکے کرکے پاکستان کو ڈرانے کی ناکام کوشش کرنے والوں کو بتانا ہے کہ ہم ان کے شرلی جیسے ہتھیاروں سے ڈرنے والے نہیں ہم جوش و جذبات میں بھی ان سے زیادہ ہیں اور قوت و طاقت میں بھی کسی سے کم نہیں۔ ہم ایک امن پسند قوم ہیں مگر جارحیت برداشت ہر گز نہیں کریں گے، ۔آخر کار 28مئی 1998ء کی سہ پہر تین بج کر 16منٹ پر پاکستان کے ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے نعرہ تکبیر کے ساتھ چاغی میں ایک بٹن دبا کر نیوکلیئر کی تاریخ میں ایک نئے باب کا اضافہ کر دیا۔ پہاڑوں سے اللہ اکبر کی صدا گونجی، چاغی کا پہاڑ دہکتے ہوئے زمین سے تھوڑا اوپر بلند ہوا اور پھر واپس اپنی جگہ پر براجمان ہو گیا، مگر جل کر خاکستر ہونے سے اس کا رنگ تبدیل ہوگیا۔ ایٹمی دھماکوں کے وقت پیروں کے نیچے زمین تھرتھراتی رہی۔ پہاڑ کی سطح 3منٹ تک روئی کے گالوں میں تبدیل ہو گئی، امریکہ، برطانیہ، جرمنی، فرانس اور آسٹریلیا کی رسد گاہوں میں الارم کا شور بلند ہوا۔ عالمی میڈیا پر ایک شور برپا ہوا اور پاکستان نے وہ کر دکھایا جس کی برسوں پہلے سے توقع کی جا رہی تھی، اور یوں ایٹمی دھماکے کر کے پاکستان دنیا کا ساتواں ایٹمی ملک بن گیا اور اسے یہ اعزاز بھی حاصل ہوا کہ یہ پہلا اسلامی ملک تھا جس نے ایٹمی شعبے میں یہ کمال حاصل کیا تھا۔ پاکستان کے ایٹمی سائنسدان اور حکمرانوں نے وطن عزیزکو ناقابل تسخیر بنانے کا یہ دلیرانہ قدم اٹھا کر مسلم امہ کو بھی روشن راہ دکھائی کہ وہ بھی اس تاریخ ساز قدم کو دیکھ کر دنیا میں فخر سے جینا سیکھیں۔
ہر سال 28مئی یوم تکبیر کی یاد مناتے وقت پوری پاکستانی قوم سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف، قومی ہیرو
و ایٹمی سائنسدان ڈاکٹر عبدالقدیر خان، انکی ٹیم کے علاوہ پاکستان میں ایٹمی پروگرام شروع کرنے والے ذوالفقار علی بھٹو، جنرل ضیاء کی ممنون ہوتی ہے کہ ان کی کاوشوں اور شب و روز محنت سے پاکستان ناقابل تسخیر قوت بنا۔ جبکہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے جب اس کے خاتمے کے لیے پوری دنیا کی طاقتیں بر سر پیکار تھیں مگر اس کے باوجود اللہ تعالیٰ کی نظر کرم نے اس کی تکمیل میں نمایاں کردار ادا کیا۔ ایٹمی تجربے سے قبل سیاست دانوں اور عوام کی فکر مندی تو اپنی جگہ پر مگر افواج پاکستان جس کے ہاتھوں میں ملک کی سرحدوں کا دفاع ہے،
پاک فوج نے اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کے ساتھ یہ بات ثابت کی ہے کہ نہ صرف ہم ایٹمی طاقت ہوتے ہوئے اپنے دفاع کی بہترین صلاحیت رکھتے ہیں بلکہ اسکی حفاظت کرنا بھی جانتے ہیں۔ پاکستان ایک ایٹمی طاقت بن کر خطے میں ایک توازن لانے کا باعث بنا ہے وگرنہ خطے میں بھارت کا کردار کیا تھا اور ہے یہ پوری دنیا جانتی ہے۔