کون کہاں کھڑا ہے؟

تحریر : سرفراز خان
تاریخ انسانی اس بات کی گواہ ہے کہ انقلابی جدوجہد اس وقت شروع ہوتی ہے جب کوئی استحصالی نظام گزرتے وقت کے ساتھ عوام کا جینا محال کر دے۔ جب ظلم شروع ہوتا ہے تو لوگ پہلے مرحلے میں برداشت کرتے ہیں ، پھر اگلے مرحلے میں ظلم کے خلاف باتیں کرتے ہیں اور جب مظالم انتہا کو چھو جائیں تو پھر مرنے مارنے سے بھی گریز نہیں کرتے ، یہ تیسرا اور فیصلہ کن مرحلہ ہوتا ہے۔ ایسی کسی بھی انقلابی جدوجہد کے آغاز کے نتیجے میں لوگ تین گروہوں میں تقسیم نظر آتے ہیں۔ ایک طبقہ تو پہلے سے موجود ہو تا ہے جو وسائل اور سیاسی نظام پر قابض ہوتا ہے اور اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لئے اپنے استحصال و ظلم کا دائرہ بڑھا کر عوام کو مشکلات میں ڈال کر انہیں اپنی گرفت رکھنے کی ہر ممکن کوشش کرتا ہے۔ وہ ایسے حالات میں کئی طرح کے ہتھکنڈے استعمال کرتا ہے۔ وہ عوام کی آواز کو دبانے کے لئے متحرک لوگوں پر تشدد کرتا ہے، مختلف الزامات لگا کر گرفتاریاں کرتے ہیں، کبھی یہ مراعات یافتہ طبقہ جھوٹے وعدوں کے جھانسے، کبھی نوٹوں کے ذریعے اور کبھی روزگار سے خریدنے کی کوششیں کرتا ہے۔ یہ ہٹ دھرمی اور ضد پر قائم رہتے ہیں یہ جانتے ہوئے بھی کے وہ غلط ہیں۔ یہ اپنے مفادات، چودھراہٹ اور سیاست کا ہر صورت تحفظ کرتے ہیں۔ غرض یہ کہ کیسے بھی تحریک کو پسپا کرنا ہے اور لوگوں کو ان کے حقوق نہیں دینے۔ دوسرا طبقہ وہ ہے جو اس غاصب طبقے کے سامنے کھڑا ہے اور اپنے حق کے لئے سراپا احتجاج ہے۔ یہ پورے خلوص کے ساتھ، دیانت کے ساتھ اور اخلاص کے ساتھ اس تحریک کی کامیابی کے لئے پوری جواں مردی کے ساتھ جدوجہد کرتے ہیں ۔ پھر چاہے جان جائے یا مال جائے پیچھے نہیں ہٹتے جب تک کے اپنے مقصد میں کامیابی نہ ملے۔ یہ ہر وقت ہر قربانی کے لئے تیار رہتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہوتے ہیں جو انقلاب کے علمبردار ہوتے ہیں۔
ان دونوں طبقوں کے ساتھ ساتھ ایک اور طبقہ بھی جنم لیتا ہے جس میں پہلے دونوں طبقات سے مختلف سوچ اور فکر کے لوگ ہوتے ہیں۔ ان میں کچھ لوگ کسی تحریک میں شرارت کرنے کی غرض سے آتے ہیں اور یہ کبھی لوگوں خامیوں کو اچھالیں گے، کبھی لوگوں کی باتوں پر اعتراضات اٹھائیں گے، کبھی کردار پر الزامات لگائیں گے، کبھی متحرک لوگوں کے خاندان پر سوال اٹھائیں گے اور یہ لوگ کسی نہ کسی طرح راستے میں روڑے اٹکاتے ہیں۔ اس طبقے میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو کسی مصلحت کی خاطر اس تحریک کا حصہ بنتے ہیں اور مناسب وقت دیکھ کر اپنا الو سیدھا کر کے نکل جاتے ہیں۔ کچھ شہرت کے خواہشمند ہوتے ہیں اور کچھ اس تحریک میں اپنا کوئی خاص نظریے کا پرچار کرتے ہیں ۔ اس طبقے میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو شروع میں تو بڑے خلوص اور جذبے سے شامل ہوتے ہیں مگر جب قربانیوں کا وقت آتا ہے تو ڈگمگا جاتے ہیں ، ان میں سیرت اور کردار کی وہ قوت نہیں ہوتی کہ حق کے ساتھ مستقل مزاجی سے چلتے رہیں ۔ یہ لوگ کسی وقت بھی کنارہ کشی اختیار کر لیتے ہیں یا حکمرانوں کے ساتھ مل جاتے ہیں ۔ ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اس سوچ سے اس تحریک کا حصہ بنتے ہیں تاکہ جب تحریک عروج پر ہو تو اپنی مناسب قیمت وصول کر کے اشرافیہ کے وفادار بن کر تحریک کو نقصان پہنچا سکیں ۔ یہ وہ تین طبقات یا گروہ ہیں جو کسی انقلابی تحریک کے دوران بن جاتے ہیں۔
جموں کشمیر میں جاری عوامی حقوق کی تحریک نام نہاد آزاد حکومت کی عوام دشمن پالیسیوں کے خلاف مئی 2023سے جاری ہے جسے ان سب ہتھکنڈوں کا سامنا رہا جو حکمران طبقہ کسی تحریک کو دبانے کے لئے کرتا ہے چاہے وہ گرفتاریاں ہوں ، بدترین ریاستی تشدد ہو یا مذاکرات و معاہدات ۔ یہ سب مرکزی جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کو اپنے تین نکاتی انقلابی عوامی منشور، پیداواری لاگت پر بنا اضافی ٹیکس بجلی کا حصول، آٹے پر سبسڈی کی بحالی اور ٹیکس پر اشرافیہ کی عیاشیوں کا خاتمہ، کے حصول کی جدوجہد سے نہ ہٹا سکا اور نہ ہی وہ طبقہ جو مختلف مصلحتوں کا شکار اپنے اپنے مقاصد کی تکمیل کے لئے اس تحریک کا حصہ رہے اور وہ بھی جو مختلف مواقع پر اعتراضات اٹھاتے رہے اور الزامات بھی لگاتے رہے اور عوام میں اپنی پزیرائی کے خواب دیکھتے رہے۔ آج عوام پوری طرح سے یہ جان چکے ہیں کہ عوامی ایکشن کمیٹی ہی ان کے مستقبل کی جنگ لڑ رہی ہے اور یہی وہ طبقہ ہے جو حق کے لئے حکمرانوں اور ان کے حواریوں اور وفاداروں سے نبرد آزما ہے۔ اسی لئے آج عوام عوامی ایکشن کمیٹی کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ جموں کشمیر میں بسنے والا ہر شخص اپنے گریباں میں جھانکے اور دیکھے کہ وہ کہاں، کس کے ساتھ اور کیوں کھڑا ہے؟۔