Column

سینیٹ الیکشن، کے پی کے حکومت کی بچگانہ روش

طارق خان ترین

سینیٹ کی 30نشستوں پر دو اپریل ( منگل) کو انتخابات منعقد کیے گئے، جن میں بلوچستان سے حصہ لینے والے امیدوار بلامقابلہ منتخب ہوگئے، تاہم خیبرپختونخوا کی 11نشستوں پر سینیٹ انتخابات ملتوی کر دیئے گئے۔ الیکشن کمیشن نے حکم نامہ میں کہا ہے کہ نو منتخب ارکان کے پی اسمبلی کے حلف اٹھانے تک انتخابات روک دیئے گئے ہیں۔ سینیٹ کی 19نشستوں کے لیے قومی ، سندھ اور پنجاب کی اسمبلیوں میں ووٹنگ ہوئی، پاکستان پیپلز پارٹی نے سب سے زیادہ 11اور مسلم لیگ ن نے 6نشستیں حاصل کیں، جبکہ سندھ سے آزاد امیدوار فیصل وواڈا بھی کامیاب ہوئے۔
پیپلز پارٹی نے سندھ سے 10نشستیں حاصل کی، سینیٹ کی 12نشستوں پر 20امیدوار مدمقابل تھے، جن میں سے 10پاکستان پیپلز پارٹی ( پی پی پی)، ایک نشست متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم) پاکستان اور ایک آزاد امیدوار نے حاصل کی۔ سندھ سے سینیٹ کی جنرل نشست پر اشرف علی جتوئی، دوست علی جیسر، کاظم علی شاہ، مسرور احسن، ندیم بھٹو سینیٹر منتخب ہوئے۔ ان کے علاوہ جنرل نشست پر ایم کیو ایم کے عامر چشتی اور آزاد امیدوار فیصل واوڈا سینیٹر منتخب ہوئے۔ ٹیکنوکریٹ نشست پر پیپلز پارٹی کے سرمد علی، ضمیر گھمرو، جبکہ خواتین کی نشست پر روبینہ قائم خانی اور قرا العین مری سینیٹر منتخب ہوئیں۔ اقلیت کی نشست پر پیپلز پارٹی کے پنجومل بھیل کامیاب قرار پائے۔ جبکہ سینیٹ انتخاب میں اسلام آباد کی جنرل نشست پر حکمران اتحاد کے رانا محمود الحسن جبکہ ٹیکنوکریٹ نشست پر اسحاق ڈار سینیٹر منتخب ہوئے۔
اس کے علاوہ پنجاب میں بھی سینیٹ کے سیٹوں کے لئے انتخابات ہوئے، پنجاب میں 12نشستیں خالی ہوئی تھیں جن میں سے 7پر امیدوار بلامقابلہ کامیاب ہوئے، جبکہ پانچ پر آج انتخاب ہوا۔ پنجاب میں 356میں سے کُل 355ارکان نے ووٹ کاسٹ کیا جبکہ ایک ووٹ مسترد ہوا۔ گنتی کتے بعد ٹیکنوکریٹ کی نشست پر محمد اورنگزیب اور ن لیگ کے مصدق ملک سینیٹر بنے جبکہ ڈاکٹر یاسمین راشد ووٹ 106لے کر ناکام رہیں۔ اس کے علاوہ خواتین کی نشستوں پر ن لیگ کی انوشہ رحمان اور بشری بٹ بھی کامیاب قرار پائیں۔ سنی اتحاد کی صنم جاوید 102ووٹ حاصل کرکے ناکام رہیں۔ جبکہ اقلیتی نشست پر ن لیگ کے خلیل طاہر سندھو سینیٹر منتخب ہوئے۔
خیبر پختونخوا میں بھی سینیٹ کی سیٹوں کے لئے انتخابات ہونے تھے مگر ملتوی ہوکر رہ گئے۔ مخصوص نشستوں پر منتخب اپوزیشن اراکین کو اسپیکر کی طرف سے حلف نہ دلانے پر اپوزیشن اراکین نے انتخابات ملتوی کرنے کی درخواست کی تھی۔ سینیٹ الیکشن میں پولنگ کا وقت شروع ہونے سے قبل ریٹرننگ آفیسر سمیت الیکشن کمیشن کا دیگر عملہ خیبرپختونخوا اسمبلی ہال میں پہنچا لیکن پولنگ کا وقت شروع ہونے کے باوجود ووٹنگ شروع نہ ہوسکی۔ اس موقع پر اپوزیشن ممبران نے ریٹرننگ آفیسر کے پاس درخواست جمع کراتے ہوئے موقف اپنایا کہ مخصوص نشستوں پر ممبران سے حلف نہیں لیا گیا جس کی بناء پر الیکشن ملتوی کیا جائے۔ جس کے بعد خیبرپختونخوا میں سینیٹ انتخابات ملتوی کر دیئے گئے۔ واضح رہے کہ خیبر پختونخوا کے صوبائی اسمبلی کے سپیکر نے مخصوص نشستوں پر اراکین کے حلف اٹھانے کیلئے اسمبلی اجلاس نہیں بلایا اور سینیٹ الیکشن کے دن اپوزیشن کی درخواست پر الیکشن کمیشن کو خیبرپختونخوا میں الیکشن ملتوی کرنا پڑ گیا۔ یہ بھی واضح رہے کہ خیبر پختونخوا اسمبلی میں اس وقت سنی اتحاد کونسل کے 91اور اپوزیشن کے 27ارکان حلف اٹھا چکے ہیں۔ پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے کے بعد اپوزیشن جماعتوں کو مزید 25نشستیں ملی ہیں، اگر 25ارکان اسمبلی نے حلف اٹھا لیا تو اپوزیشن کو ایک نشست کے بجائے سینیٹ کی 4 نشستیں ملیں گی۔ صوبائی اسمبلی کے مخصوص اراکین کی حلف برداری سے حکومت جنرل کی 2اور خواتین و ٹیکنو کریٹ کی ایک ایک نشست سے محروم ہوسکتی ہے۔ اسی ڈر اور خوف کی وجہ سے خیبر پختونخوا حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہوچکی ہے۔
پی ٹی آئی ہمیشہ کی طرح اپنے غیر جمہوری رویوں کی پاداش اور بچگانہ حرکات کی پیروی میں یہ نادانیاں سر زد کر کرنا اب شاید انکی عادت بن چکی ہے۔ آج کے پی اسمبلی میں سینیٹ کے انتخابات کو ملتوی کروانا پڑ گیا، میں نہ مانوں والی روش پہ چلتے ہوئے کے پی اسمبلی میں مخصوص نشستوں پہ 26خواتین نے حلف اٹھانے کے بعد انتخابات کا حصہ بننا تھا، جس پر عملدرآمد نہ کرایا جا سکا۔ اپوزیشن کو ای سی پی سے مداخلت کروانے کے لیئے اپیل دائر کروا کے انتخابی عمل ملتوی کرانا پڑا ، یہاں یہ امر قابل غور ہے کہ الیکشن کمیشن اور پشاور ہائی کورٹ بارہا ان مخصوص نشستوں پہ حلف برداری کی ہدایات جاری کر چکے تھے۔ کے پی حکومت نے ارادتاً اس عمل کو معطل کئے رکھا۔
الیکشن کمیشن کا اعتراض قانونی اور آئینی ہے کہ جب آپ سنی اتحاد کونسل میں شمولیت اختیار کر رہے تھے تو یہ فیصلہ آئین کے مطابق نہیں تھا اس امر کا اظہار بعد میں پی ٹی آئی لیڈر شپ خود بھی کر چکی ہے۔ یہ امر بھی قابل غور ہے کہ پشاور ہائی کورٹ وہی پسندیدہ کورٹ ہے جہاں 21سیکنڈ فی مقدمہ کی سپیڈ سے15کیسز کو دس منٹ میں آپ ہی کے ممبر کو ضمانتیں منظور کرتے ہوئے سہولیات بھی مہیا کرتی ہے لیکن اسی کورٹ کا حلف برادری کا حکم آپ نہیں مانتے جو کہ ایک کھلا تضاد ہے۔ اپوزیشن نے کے پی اسمبلی کے سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کی ابتدا کر دی، رٹ پٹیشن نمبر1617۔P؍ 2024کے مطابق اپوزیشن نے یہ نقطہ اٹھایا ہے کہ سپیکر اور ڈپٹی سپیکر عدالتی احکامات پہ عملدرآمد میں رکاوٹ ڈال رہے ہیں، اس کارروائی کے نتیجے میں دونوں کو سزا بھی ہو سکتی ہے۔

جواب دیں

Back to top button