اس کا رشتہ تو فقط اپنے مفادات سے تھا

محمد ناصر شریف
اعتبار ساجد نے کیا خوب کہا۔۔۔۔۔۔
مجھ سے مخلص تھا نہ واقف مرے جذبات سے تھا
اس کا رشتہ تو فقط اپنے مفادات سے تھا
اب جو بچھڑا ہے تو کیا روئیں جدائی پہ تری
یہی اندیشہ ہمیں پہلی ملاقات سے تھا
ہم اس وقت تک خاموش رہتے ہیں جب تک ہمارے مفادات پورے ہورہے ہوتے ہیں۔ جیسے ہی ہمارے مفادات پر ذرا سا بھی حرف آتا ہے تو ہم ۔۔۔۔۔۔۔ ہم نوالہ اور ہم پیالہ لوگوں پر سارے الزام دھر کر خود کو پارسا ثابت کرنے کی کوشش شروع کر دیتے ہیں جبکہ جس وقت ہم پیالہ اور ہم نوالہ تھے ۔ ہم ہر ہر فیصلے میں شامل تھے بلکہ اس سے ہونے والے فوائد کو بھی سمیٹ رہے تھے۔ اگر کسی کو گرانا مقصود ہو تو ہمارے پاس اس حوالے سے بڑے مدلل دلائل ہوتے ہیں اور کسی کو سر پر بیٹھنا ہو تو بھی ہم اس کی تمام خامیوں کو پس پشت ڈال کر اس کے طرف داری میں اس قدر آگے چلے جاتے ہیں کہ ہمیں اس سے پیارا اور لاڈلا کوئی اور نظر نہیں آتا ہے۔ بحیثیت قوم ہم صرف اپنے مفادات کو ہی مقدم رکھتے ہیں یا اس چھوٹے سے گروہ کے مفادات کے امین ہوتے ہیں جو ہمارا ہمنوا ہوتا ہے۔ 75سالوں میں ہم نے کبھی پاکستانی بن کر سوچا ہے نا ہی پاکستان کے لیے اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کو بالاتر رکھ کر اقدامات کیے ہیں۔
اچنبے کی بات تو یہ ہے کہ ہم اپنے ہر اقدام کو وطن عزیز کے وسیع تر مفاد میں گردانتے ہیں چاہیے اس کی قیمت یہ وطن عزیز کو کتنی ہی کیونکہ بھگتنی پڑے۔ پہلے کپتان کی حکومت ختم کرانے کے لیے زمین و آسمان کی قلابازیاں کھائیں گئیں، دھرنے، احتجاج ، مظاہرے کیا کچھ نہیں کئے گئے عدم اعتماد لاکر وقت سے قبل اس حکومت کو رخصت کیا گیا ۔ پھر انتخابات کے لیے وہ جستجو کہ جیسا انتخابات ہوگئے تو اس ملک میں شہد اور دودھ کی ندیاں بہنے لگیں گی۔ سپریم کورٹ تک معاملہ گیا سپریم کورٹ کی مداخلت اور حکم پر 8فروری 2024ء کو انتخابات کا انعقاد ممکن ہوا اور جو انتخابات ہوئے وہ سب کے سامنے ہیں جہاں سے جیتیں ہیں وہاں الیکشن منصفانہ اور شفاف ہوئے ہیں اور جہاں سے ہارے ہیں وہاں الیکشن میں دھاندلی ہوئی ہے۔ ساری جماعتوں کا یہی موقف ہیں۔ جو جیت گئے وہ جشن بھی نہیں منا سکتے کیونکہ جو ایوان اس انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آیا ہے اس کے لیے یہ کہنا مشکل ہے کہ یہ انتخابات کے بعد عدت پوری کرے گا یا مدت پوری کرے گا۔پی ڈی ایم کے سابق سربراہ اور جے یو آئی ایف کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے ایک نیا کٹا کھول دیا۔ جس سے تو کپتان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی پر کئے گئے تمام دعوئوں کی نا صرف نفی ہوگئی بلکہ ایک دفعہ پھر یہ بات نمایاں ہوکر سامنے آگئی کہ سیاستدان اس قابل ہی نہیں ہیں کہ وہ اپنے فیصلے خود کر سکتے ہیں وہ ایک کٹھ پتلی کی مانند ہیں جن کی ڈوریں کہیں اور سے ہلتی ہیں ان کا کام صرف اور صرف ہدایات پر عمل درآمد کرنا ہے۔ فضل الرحمن کہتے ہیں کہ پی ٹی آئی حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد اس وقت کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل فیض حمید کے کہنے پر لائی گئی جنرل ( ر) فیض اور جنرل ( ر) قمر جاوید باجوہ ہمارے ساتھ رابطے میں تھے اور ان کی موجودگی میں سیاسی جماعتوں کو بلایا گیا اور سب کے سامنے ہدایات دی گئیں کہ آپ نے ایسا کرنا ہے اور اس طرح کرنا ہے۔ فیض حمید میرے پاس آئے اور کہا جو کرنا ہے سسٹم کے اندر رہ کر کرنا، آئوٹ آف سسٹم نہیں ، میں تحریک عدم اعتماد کے حق میں نہیں تھا ، چاہتا تھا تحریک کے ذریعے حکومت ہٹائی جائے، عدم اعتماد کی تحریک پیپلز پارٹی چلا رہی تھی، اس پر ن لیگ اور پیپلز پارٹی نے مہر لگائی، عدم اعتماد سے انکار کرتا تو کہا جاتا میں نے بانی پی ٹی آئی کو بچایا۔2018ء میں دھاندلی ہوئی تھی اور اب بھی الیکشن چوری ہوئے ہیں جس کا بظاہر فائدہ ن لیگ کو ہوا ہے، موجودہ پارلیمنٹ کا کوئی مستقبل نظر نہیں آرہا، پاکستان میں کرسی پر بیٹھنے والا حکمران نہیں ہوتا، پارلیمان میں فیصلے اور پالیسیاں کہیں اور سے آئیں گی، ریاستی اداروں کا احترام ہے لیکن وہ سیاست میں کیوں آتے ہیں، ہم ان کو سپورٹ کریں گے وہ جمہوری نظام کو سپورٹ کریں، عمران خان سے میرا کوئی رابطہ نہیں ہے، ہمارے درمیان ایسی کوئی انڈرسٹینڈنگ نہیں ہے کہ میں ان کے فلسفے اور حکمت عملی کو سمجھ سکوں، اسمبلی میں ہم تحفظات کے ساتھ جارہے ہیں اس لیے وزارت عظمیٰ یا دیگر عہدوں کیلئے کسی کی حمایت نہیں کریں گے، اس حمام میں سب ننگے ہیں۔
فضل الرحمان نے کہا کہ حالیہ انتخابات میں جو کچھ ہوا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہے لیکن انتخابی چوری ایسا عمل ہے جس کا گواہ یا شواہد پیش کرنا دشوار ہوتا ہے، پورا الیکشن چوری ہوا ہے۔ دھاندلی کے خلاف سڑکوں پر احتجاج کریں گے، سڑکوں کو گرمائیں گے، فضل الرحمان نے کہا کہ تاثر موجود ہے کہ نواز شریف کو لاہور کی سیٹ دی گئی ہے، یہ جو حکومت نہیں لے رہے شاید یہ بھی اسی وجہ سے ہو۔ انہوں نے کہا کہ پی ڈی ایم انتخابی یا حکومتی اتحاد نہیں تھا، اس تحریک میں ہم اختلافات کے باوجود اکٹھے چل رہے تھے کیونکہ جو حکمت عملی تیار کی گئی اس سے ہمیں اتفاق نہیں تھا اور یہ ہمارے تمام دوست جانتے ہیں۔ تمام اکابرین اور دوست جانتے ہیں کہ میں پی ٹی آئی کے خلاف عدم اعتماد کے حق میں نہیں تھا لیکن میں نے اپنے دوستوں کیلئے اور وحدت کیلئے اپنے موقف اور رائے کی قربانی دی تھی، میں نے عدم اعتماد سے انکار کر دیاتھا لیکن پھر جب پی ٹی آئی کے لوگ، ایم کیو ایم اور بی اے پی ٹوٹ کر آئی تو انہوں نے کہا کہ اب ہمارے پاس اکثریت ہے۔ حکومت بنانے کیلئے جو حکمت عملی اختیار کی جارہی ہے میں اسے کامیاب حکمت عملی نہیں سمجھتا لیکن اگر انہوں نے فیصلہ کیا ہے تو اس کے اچھے برے کے ذمہ دار وہ خود ہوں گے۔ انہوں نے کہا کہ یہ پارلیمان نہیں چلے گی، اس کی کوئی حیثیت و اہمیت نہیں ہے، پارلیمان میں فیصلے اور پالیسیاں کہیں اور سے آئیں گی، آئندہ پارلیمان پی ٹی آئی والے دور سے زیادہ ہائبرڈ پلس ہوگا ۔
بڑے تعجب کی بات ہے مولانا نے اپنی سربراہی میں کامیاب ہونے والی تحریک عدم اعتماد کا کریڈٹ خود لینے کے بجائے جنرل باجوہ اور فیض حمید پر ڈال دیا۔ سوال یہ ہے کہ جب آپ لوگ چاہتے ہیں کہ اداروں کی مداخلت نہیں ہو تو آپ ان لوگوں سے ملاقات کیوں کرتے ہیں اور آپ کے لوگ ان ملاقاتوں کے بعد اپنے لوگوں کو بڑے فخر سے بتا رہے ہوتے ہیں کہ ہماری فلاں فلاں سے بات ہوگئی ہے اور وہ ہمارے شانہ بشانہ کھڑے ہیں ہمیں فری ہینڈ مل گیا ہے اب ہم جو چاہیں کریں اور ان ہی کے بل بوتے پر یہ لوگ سارے مفادات حاصل کرتے ہیں اور جب مفادات کو ضرب پہنچتی ہے تو وہی لوگ قصور وار ٹھہرتے ہیں جو آپ کی کامیابیوں کے لیے دن رات ایک کرتے ہیں۔مولانا فضل الرحمن کے انٹرویو کے حوالے سے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کی رابطہ کمیٹی کے کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے ایک معقول بات کی ہے کہ آپ اسٹیبلشمنٹ اسٹیبلشمنٹ کرتے ہیں اگر یہ اسٹیبلشمنٹ جواب دینے آگئی تو پھر سب کو مشکل ہوجائے گی۔ یہ ایک طرح کی واضح چتائونی ہے۔ہم نے پہلے دیکھا کہ جو لوگ گلیوں میں ایک دوسرے کو گھسٹنے کا عہد کرتے تھے وہ شیرو شکر ہوکر حکمران بنے، اب ایک دوسرے کو مولانا ڈیزل اور یہودی ایجنٹ کے طعنے دینے والوں میں قربتیں دیکھ رہے ہیں۔
ہماری رائے ہے کہ پاکستان کو بند گلی میں نہ لے جایا جائے، دہشتگردی کے خطرات کے باوجود سیکیورٹی فورسز نے اپنا کام کیا اور انتخابات پر امن طریقے سے کرائے، وقت کی ضرورت ہے کہ سیاست کے بجائے ریاست کو بچایا جائے۔