اداروں کی غفلت، خاندان اجاڑ دیتی ہے

محمد ناصر شریف
بلال نے صبح 6بجے اپنی والدہ کو فون کرکے بتایا کہ جس عمارت میں ہوں وہاں آگ لگ چکی ہے۔ دعا کریں۔۔۔۔۔۔ اس کو شائد اس بات کا یقین تھا کہ ماں کی دعا سے یہ وقت ٹل جائے گا اور کوئی معجزہ رونما ہوگا اور آگ بجھ جائے گی۔ بلال 4بہنوں کا اکلوتا بھائی تھا ۔ شاپنگ مال میں قائم ریسٹورنٹ میں کیشئر کی حیثیت سے کام کرتا تھا۔ گزشتہ روز کراچی کے شاپنگ مال میں لقمہ اجل بننے والوں میں کوئی سافٹ ویئر انجینئر تھا تو کوئی اپنے والدین کا واحد سہارا تھا۔ کسی کو والدین نے بڑے نازوں سے پالا اور کوئی بہنوں کی آنکھ کا تارا تھا، کسی کی ایک ماہ بعد شادی ہونے والی تھی۔ 2خاندانوں کی ایک خوشگوار زندگی کی امید دم توڑ گئی۔
کراچی کے علاقے راشد منہاس روڈ پر واقع آر جے شاپنگ مال میں ہفتہ کی صبح آگ بھڑک اٹھی جس نے دیکھتے ہی دیکھتے تین منزلوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ آگ لگنے سے 11افراد جاں بحق اور 35زخمی ہوگئے۔ عمارت کی چوتھی منزل زیادہ متاثر ہوئی جس پر سافٹ ویئر ہائوس، کال سینٹر اور دیگر دفاتر موجود تھے، فالس سیلنگ کی وجہ سے آگ زیادہ پھیلی، اخراج نہ ہونے سے دھواں بھر گیا اور دم گھنٹے سے لوگوں کی اموات ہوئیں۔ 6منزلہ عمارت میں ہنگامی اخراج کا راستہ نہیں تھا جبکہ فائر الارم بھی موجود نہیں تھا۔ عمارت کی انتظامیہ بھی موجود نہیں تھی، دو سیکیورٹی گارڈ تھے جنہیں راستوں کا بھی معلوم نہیں تھا۔ ذرائع سے ملنے والی معلومات کے مطابق شاپنگ مال میں ہنگامی اخراج کے لئے راستہ عمارت کی تعمیر کے وقت تو رکھا گیا تھا لیکن بعد میں وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عمارت انتظامیہ نے اس راستے کو بند کرکے اس پر بھی دفاتر قائم کر دیئے تھے جبکہ اسموک ڈیٹیکٹر کی تنصیب کمرشل عمارت کے ضابطے میں شامل ہے وہ بھی موجود نہیں تھے۔ آگ لگنے کے واقعہ کا مقدمہ سرکار کی مدعیت میں کے الیکٹرک، فائر بریگیڈ اور دیگر اداروں کے خلاف شارع فیصل تھانے میں زیر دفعہ 322/436/427/288/285/34 کے تحت درج کیا گیا ہے۔ مقدمے کے متن کے مطابق صبح5 بجے عمارت میں آگ لگی جس نے دیکھتے ہی دیکھتے6منزلہ عمارت کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ عمارت میں موجود افراد نے برقی لفٹ اور سیڑھیوں کی مدد سے جان بچانے کی کوشش کی، ایف آئی ار کے مطابق یہ بات دیکھی جائے گی کہ اس بلڈنگ کا نقشہ کس نے پاس کیا اور فائر فائٹنگ کی کلیئرنس کس طرح دی گئی۔ کے الیکٹرک اور دیگر اداروں کی ملی بھگت سے مذکورہ بلڈنگ کی تعمیرات خلاف قوانین پاس کرنا عمارت کی تعمیر با وجہ میٹریل کا ناقص استعمال اور غفلت و لاپروائی کا مظاہرہ تھا جس کی وجہ سے قیمتی جانوں کا زیاں ہوا ۔ مدعی کا دعویٰ ہے کہ آر جے شاپنگ سینٹر بنانیوالے، اس کے نقشے پاس کرنیوالے، ناقص تعمیر کے باوجود اس کو این او سی ایشو کرنیوالے اداروں اس کی موجودہ انتظامیہ اور اپنی ذمے داریاں پوری نہ کرنیوالے اداروں کے الیکٹرک، فائر بریگیڈ کا یہ فعل مجرمانہ غفلت، قتل بالسبب، نقصان رسانی کی حد تک پہنچتا پایا گیا۔ کراچی میں بے ہنگم اور تعمیراتی قوانین کیخلاف بلند وبالا عمارتوں کی تعمیر کا ذمے دار ایس بی سی اے کیساتھ ساتھ ادارہ تحفظ ماحولیات کو بھی قرار دیا جارہا ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ اگر ایک سال کے دوران ہونے کراچی میں تعمیر ہونے والی بلڈنگوں، فیکٹریوں، کارخانوں کو جاری ہونے والے ای آئی اے ( ماحولیاتی اثرات کی تشخص) کا جائزہ کسی غیر جانبدار ای آئی اے ایکسپرٹ کرائیں تو چشم کشا حقائق سامنے آئینگے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہنگامی صورتحال میں عمارتوں سے اخراج کا راستہ نہیں، ہائی رائز بلڈنگز نے سمندری ہوائوں کا راستہ روک لیا، بلند و بالا عمارتیں درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ بن رہی ہیں، روشنی اور ہوا کے گزرنے کا رستہ بھی نظر انداز، قانونی تقاضے پورے کئے بغیر تعمیرات، حکومت بڑے تعمیراتی پروجیکٹ کا جائزہ لے۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ راشد منہاس روڈ پر آتشزدگی کا واقعہ پہلا واقع نہیں جس میں بڑی تعداد میں انسانی جانوں کا زیاں ہوا ہو۔ ادارہ تحفظ ماحولیات کے ذرائع کے مطابق ہزاروں ای آئی اے ( ماحولیاتی تجزیئے کی رپورٹ) تعمیرات کرنے والوں کو دی گئی ہے تاہم دو فیصد پر ہی اعتراض کیا ہے جو بعد ازاں ختم کر دیا گیا ہے جبکہ سیکڑوں پراجیکٹ کی عوامی شنوائی ہی نہیں ہوئی ہے اور ہزاروں تعمیرات کرنے والوں نے ای آئی اے کیلئی ای آئی اے سے رجوع ہی نہیں کیا گیا۔ یہ جاننے کے باوجود ای آئی اے نے ان کیخلاف کارروائی نہیں کی گئی۔ ای آئی اے کے دوران یہ بھی نہیں دیکھا گیا کہ ہنگامی صورتحال میں اخراج کا راستہ ہے بھی یا نہیں ، بڑے بڑے بلڈرز نے سمندر کنارے اونچی عمارتیں تعمیر کی۔ انہوں نی ای آئی اے سے عوامی شنوائی کے بغیر یا پھر اثر رسوخ اور دیگر ذرائع کی بنیاد پر قانونی تقاضے پورے کر کے تعمیرات کر دی جس کی وجہ سے سمندری ہوائوں کا نہ صرف راستہ رک گیا بلکہ کراچی کا درجہ حرارت بھی بڑھ گیا ای آئی اے کے دوران بلڈنگوں میں روشنی اور ہوا کے گزرنی کا راستہ نا ہونے کو بھی نظر انداز کیا گیا اای آئی اے میں ماہرین کی کمی پر بھی توجہ نہیں دی گئی۔
پاکستان، خصوصاً سندھ اور کراچی کے سرکاری ادارے صرف اور صرف پیسہ کمانے کی مشین ہیں۔ ان میں تعیناتیاں ایک سسٹم کے تحت ہوتی ہیں اور عہدوں پر براجمان افراد اپنے فرائض منصبی کے بجائے ہر وہ کام کرتے ہیں جس سے ان کو اوپر کی کمائی حاصل ہوسکے۔ کراچی ایسے ہی نہیں کنکریٹ کا جنگل بن گیا۔ مال و زر کی ہوس نے اس شہر کو اس حال تک پہنچایا ہے۔ کسی بھی عمارت کی تعمیر میں کوئی تعمیراتی اصول اپنائے نہیں جاتے۔ جب تک کوئی حادثہ نہیں ہوتا سب اچھا ہے کہ رپورٹ ہوتی ہے اور جب کہ کوئی سانحہ رونما ہوجاتا ہے تو اس سب اچھے ہے کہ ملبے کے نیچے سے ایسی ایسی غفلت، لاپرواہی اور کوتاہیوں کے پتھر برآمد ہوتے ہیں کہ انسانیت شرمسار ہوجاتی ہے۔ گزشتہ روز گیارہ مائوں کے نور نظر ان ہی غفلتوں کی نذر ہوگئی، 35زخمی ہیں ان کی زندگی بھی مشکل ہوگئی ہے۔ ہم بحیثیت قوم انتہائی پستی کی جانب گامزن ہیں۔ ہم نے اپنا دین و ایمان صرف پیسہ، جھوٹ، فریب ، بے ایمانی، بدعنوانی بنالیا ہے۔ ہم نے حفاظتی آلات کو ہمیشہ غیر ضروری سمجھا ، جب اس کی ضرورت ہوتی تو وہ دستیاب ہی نہیں ہوتے۔ ہم نے کبھی کسی سانحے سے سبق سیکھا اور نہ ہی آگے امید کی جاتی ہے ۔ ایک واقعہ ہوا آپ اس پر ماتم کریں۔ ہم دعائوں کے سہارے جینے والے لوگ ہیں۔ اسباب کے لئے جستجو اور حفاظتی آلات کا حصول نہ پہلے ہماری ترجیح رہا اور نہ اب رہے گا۔ وزیراعلیٰ ، گورنر و دیگر حکام رسمی نوٹسز لیں اور بس ۔ جس کے گھروں سے جنازے اٹھتے ہیں وہی اس دکھ اور تکلیف کو محسوس کرتے ہیں، باقی سب کی ہمدردیاں ڈھکوسلوں کے سوا کچھ نہیں۔