Column

قصائی ڈاکٹر۔۔۔۔

رفیع صحرائی
بحیثیت پاکستانی ہم عجیب و غریب عادات کے مرتکب لوگ ہیں۔ بالکل انوکھے اور غیر ذمہ دار۔ جلد باز اتنے کہ بغیر سوچے سمجھے کسی انڈر پراسس معاملے کا نتیجہ خود سے ہی اخذ کر لیتے ہیں۔ اخذ ہی نہیں کرتے بلکہ باقاعدہ نتیجے کا اعلان بھی کر دیتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جس طرح کوئی بھی واردات ہونے سے پہلے ہماری پولیس کو واردات کے وقوع پذیر ہونے کے درست وقت، طریقہ واردات اور واردات میں ملوّث افراد کا بھی پتا ہوتا ہے۔ انتخابات کا پراسس تو ابھی شروع بھی نہیں ہوا لیکن ہمارے مہا تجزیہ کار حضرات پورے وثوق کے ساتھ ابھی سے ہمیں انتخابی نتائج سے آگاہ کر رہے ہیں۔ ہمارے ہاں ’’ سیانی خواتین‘‘ کسی حاملہ عورت کو چلتا پھرتا دیکھ کر آنے والے مہمان کی جنس کا تعیّن کر کے پاس بیٹھی کسی خاتون کے کان میں فوراً بتا دیتی ہیں کہ اس کے ہاں بیٹا پیدا ہو گا۔
اگر بات ہمارے عمومی رویّوں کی کریں تو یہاں بھی ہمیں مایوسی نہیں ہو گی۔ ہم نے اپنے رویّوں میں بھی اپنی انفرادیت برقرار رکھی ہوئی ہے۔ ہم قانون کی خلاف ورزی پر فخر کرتے ہیں۔ اگر کہیں قانون کی عملداری پر سختی سے عمل ہوتا دیکھیں تو اس قانون کو توڑنے کی باقاعدہ سفارش کرواتے ہیں۔ مثال کے طور پر ہمیں بینک کے باہر قطار میں کھڑا ہونا پڑ جائے تو فوراً بینک سٹاف کے کسی شخص کو فون کروانے کی کوشش کریں گے کہ ہمارا کام بغیر قطار میں لگے ہو جائے۔ کام ہو جانے کے بعد یہ بات واقف کاروں کو فخریہ بتاتے ہیں کہ کس طرح ہم نے قانون کی خلاف ورزی کر کے کام نکالا۔ یہ بھی ہماری تربیت کا حصہ ہے کہ سننے والے قانون کی خلاف ورزی پر اسے لعن طعن کرنے کی بجائے رشک نما حسد میں مبتلا ہو کر اس سے مرعوب ہو جاتے ہیں۔
ہمارا یہ رویہ بھی منفرد ہے کہ کسی پٹواری، پولیس مین یا سرکاری دفتر میں جب تک رشوت نہ دیں ہمیں اپنے جائز کام کے ہونے کا بھی یقین نہیں ہوتا۔ ہمارے اس رویّے نے ہی رشوت کے چلن کو عام کیا ہے۔ اب جو سرکاری اہل کار رشوت نہیں لیتا وہ سائل کی نظر میں ناقابلِ اعتبار جبکہ رشوت لینے والا قابلِ اعتبار اور معزز ہوتا ہے۔
ہمارا ایک اور عمومی رویہ ڈاکٹروں کے بارے میں بنا دیا گیا ہے۔ ہم ہر ڈاکٹر کو قصائی سمجھنے لگے ہیں۔ اپنے بیمار یا زخموں سے چور مریض سے جان چھڑا کر اسے جس ڈاکٹر کے حوالے کرتے ہیں وہ جی جان سے اس کا علاج کرتا ہے۔ اس کے زخموں کی مرہم پٹی کرتا ہے۔ پیچیدہ آپریشن کر کے اعضا ء کی پیوند کاری کر کے مریض کو نئی زندگی دینے کا سبب بنتا ہے مگر وہ پھر بھی ’’ قصائی‘‘ ہے۔
ڈاکٹر تو ہوتے ہی قصائی ہیں اللہ بچائے ان سے، مگر۔۔۔۔۔۔ ذرا ٹھہریے
قصائی لقب کا اعزاز ڈاکٹروں کے ساتھ جوڑنے کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ اپنی خدمات کا معاوضہ طلب کرتے ہیں۔ لیکن ان قصائیوں کی کچھ اور بھی خصوصیات ہیں جو کوئی بتاتا ہی نہیں۔ آئیے! ان قصائیوں کی چند ’’ قصابانہ‘‘ خصوصیات سے ہم آپ کو آگاہ کرتے ہیں۔
یہ قصائی اپنے دوست احباب، رشتے دار، جونیئرز، سینئرز حتٰی کہ وارڈ کی آپا تک کے خاندان کا مفت معائنہ کرتے ہیں۔ ان کے دل میں ان سے فیس لینے کی خواہش پیدا ہی نہیں ہوتی۔ ذرا آپ کسی سے ایک کلو چینی مفت لے کر دکھا دیں۔ اس کے علاوہ یہ قصائی زیادہ کوئی بھا تائو کیے بغیر ہی فیس میں کمی یا مکمل معافی کر دیتے ہیں۔ اور اس پر انہیں پچھتاوا بھی نہیں ہوتا۔ ایک اور بات بھی سنتے جائیے جو آپ کے گمان میں بھی نہ ہو گی۔ وہ یہ ہے کہ مختلف ڈیپارٹمنٹس میں قصائی ڈاکٹرز اپنی جیب سے فنڈز اکٹھے کر کے مریضوں کے لیے ادویات کا انتظام کرتے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ تقریباً ہر قصائی ڈاکٹر اپنی زندگی میں اپنے مریضوں کو خون کا عطیہ ضرور دیتا ہے، وہ بھی بلا معاوضہ اور ہاں! ایسا کوئی قصائی ڈاکٹر آپ نہیں دیکھیں گے جو پوشیدہ طریقے سے کسی نہ کسی غریب خاندان کی امداد نہ کر رہا ہو۔ صدقے خیرات اور فلاحی کاموں میں آپ ہمیشہ ان کو سب سے آگے دیکھتے ہیں۔ جگہ جگہ اور شہروں کے علاوہ قصبات میں بھی فری میڈیکل کیمپس کا انعقاد ان قصائی ڈاکٹرز ہی کا مرہونِ منت ہے جہاں یہ اپنی خدمات بلامعاوضہ انجام دیتے ہیں۔
ہمارے سینئر قصائی ڈاکٹرز بنا پوچھے ہی غریب سٹاف کی وقفے وقفے سے مدد کرتے رہتے ہیں۔ ڈیوٹی کے دوران ان کی چائے پانی کا خیال بھی رکھتے ہیں۔ علاوہ ازیں قصائی ڈاکٹر وہ واحد مخلوق ہے جو رات کے 3بجے بھی نیند سے اٹھ کر اس لیے کال ریسیو کرتا ہے کہ اسے معلوم ہوتا ہے فون کرنے والا کسی مشکل میں ہوگا۔ ان قصائیوں کا فون آپ کو کبھی آف نہ ملے گا کہ یہ اس شعبے میں آتے ہی خدمتِ خلق کے جذبے کے تحت ہیں۔
بہت سے قصائی ڈاکٹرز اپنے ہاتھوں پر کینولا لگا کر بھی ایمرجنسی میں مریضوں کا علاج کر رہے ہوتے ہیں۔ آپ نے دیکھا ہی ہو گا کہ ڈینگی اور کرونا کے دنوں میں سب سے پہلے اور سب سے زیادہ جانیں ان قصائی ڈاکٹرز ہی کی قربان ہوئی تھیں جب مریضوں کے لواحقین بھی انہیں بے یارومددگار چھوڑ کر ان ’’ قصائیوں‘‘ کے حوالے کر گئے تھے۔ ان قصائیوں نے اپنی جانیں دے کر بھی اپنے مریضوں کا ساتھ نہیں چھوڑا تھا۔ فرنٹ لائن پر لڑنے والے ان مجاہد قصائیوں نے قربانی کی لازوال داستانیں رقم کی تھیں۔ بہت سی لیڈی ڈاکٹرز حمل کے دوران اپنی صحت کی پروا کیے بنا مریضوں کی فکر میں بغیر کچھ کھائے پیئے ڈیوٹی کرتی ہیں۔ بہت سے قصائی ڈاکٹروں کو عید کا دن بھی گھر والوںکے ساتھ گزارنا نصیب نہیں ہوتا۔ اور ذہنی تنائو سے بھی سب سے زیادہ یہی ڈاکٹرز گزرتے ہیں۔ میں نے آنکھوں سے ایسے قصائی ڈاکٹرز دیکھے ہیں جو مریضوں کے مفت معائنے کے بعد پوچھتے ہیں کہ دوائی لینے کے پیسے ہیں یا نہیں۔ اور چپکے سے ہاتھ میں پیسے پکڑا کر انہیں روانہ کر دیتے ہیں۔
عزیزانِ من! ڈاکٹر کی خدمات کا معاوضہ کبھی بھی رقم ادا کرنے سے پورا نہیں ہو سکتا۔ بہت سے ڈاکٹرز مریضوں کی دعا کو اپنی کل جمع پونجی سمجھتے ہوئے زندگی گزار دیتے ہیں۔ آئندہ ایک ڈاکٹر کے چائے پینے یا ہنس کر اپنے کولیگز سے بات کرنے یا آپ کی مرضی کے مطابق کا علاج نہ کرنے کی صورت میں اس پر قصائی کا لقب لگانے سے پہلے سوچ لیں کہ پاکستان کے کرپٹ ترین نظام میں ابھی بھی کوئی درد مند شعبہ موجود ہے تو وہ ڈاکٹری ہی ہے۔

جواب دیں

Back to top button