Column

لفظوں کو تحریریں سہنی پڑتی ہیں

صفدر علی حیدری
کتاب الٰہی کہتی ہے ’’ ہر نفس نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے ‘‘
اب یہ انسان پر ہے کہ موت کا یہ جام تعصب کی تلخی کھول کر پیتا ہے یا الفت کی چاشنی ملا کر کہ مہلت بھی اسے حاصل ہے اور انتخاب کا حق بھی ( مجھے لگتا ہے جس کے حلق میں خوش گفتاری مٹھاس بن کر گھلی ہو ، موت کبھی اس کے گلے میں تلخی بن کر نہیں اترتی )
کچھ یہی حال لفظوں کا بھی ہے۔ کسی کا کوئی کومل سا جملہ اسے لاکھوں دلوں میں زندہ رکھتا ہے تو کسی کی زبان کی ہلکی سی بے احتیاطی اسے تاریخ کے کوڑے دان میں ’’ رول ‘‘ دیا کرتی ہے ۔ شاعر کو شعروں کا انتخاب رسوا کرتا ہے تو نثر نگار اور باتونی آدمی کو اس کا لکھا یا بولا گیا کوئی ایک جملہ خلق کی نظروں سے ہمیشہ کے لئے یوں گراتا ہے کہ بندے کی روح اوپر اٹھ جاتی ہے گرا ہوا مقام کبھی بلند نہیں ہو پاتا۔
کہتے ہیں اللہ کو زبان کی سختی پسند نہیں جبھی تو اس خالقِ خشک و تر نے زبان میں کوئی ہڈی نہیں رکھی ۔ پھر بھی کتنی عجیب بات ہے کہ ہڈیوں کی یہ عمارت ایک چمڑے کے لوتھڑے پر استوار ہے۔ اور کیوں نہ ہو کسی کے بارے میں ہمارا پہلا تاثر اس کی اخلاقی خوبصورتی کا ہی تو پرتو ہوتا ہے۔ اخلاق کا پودا نرم خوئی کی کھاد سے پروان چڑھتا ہے اور اسے تسلسل کا موسم نصیب ہو جائے تو اسے چھتنار درخت بننے سے کوئی روک نہیں پاتا۔
پھر یہ شجر سایہ دار ایک عالم کو اپنی ٹھنڈی چھائوں کا اسیر بنائے رکھتا ہے ۔
سو برگد کا یہ درخت تا دیر محسن نقوی کے الفاظ میں’’ دھوپ پھانکتا اور چاندنی اگلتا‘‘ رہتا ہے۔
خوش خلقی کا اسیر انسان برگد کے اس تناور درخت کی ماند ہوتا ہے جس کی ہمسری کسی طور ممکن نہیں کہ برگد کے درخت کے نیچے کبھی کوئی دوسرا درخت پروان نہیں چڑھ پایا۔
لفظوں کے ضمن میں جناب امیر کا یہ فرمان آب زر سے لکھے جانے کے قابل ہے’’ لفظ تمہارے غلام ہیں جب تک انہیں استعمال نہیں کر لیتے اور جب ایسا کر لیتے ہو تو تم ان کے غلام ہوتے ہو‘‘
کسی بھی قوم پر جب زوال آتا ہے تو سب سے پہلے اخلاق کی ڈھال اس کے ہاتھوں سے پھسل کر گرتی ہے اور اسے احساس تک نہیں ہوتا کہ وہ اپنی متاع حیات مٹی میں خود ’’ رول‘‘ چکی ہے ۔ پھر رفتہ رفتہ عوام کے آئینہ دل میں خود اپنے ہی ہم وطنوں کے لئے بال سا آ جاتا ہے پھر یہ بال، ابال بن کر خود ان کے پیدا کردہ مآل کو تاریخ کی بدترین مثال بنا دیا کرتا ہے۔
آج وطن عزیز مسائل و مصائب کے جس گرداب میں پھنسا ہے اس سے اس قوم کا بچہ بچہ بخوبی واقف ہے ۔ لیکن افسوس حکمران انا کی جنگ میں یہ تک بھلا بیٹھے ہیں ۔ ’’ ہم کس لیے آئے تھے کیا کر چلے‘‘۔ ہمارا اخلاقی معیار کتنا گر چکا ہے اس کا اندازہ ہمارے ہاں کے اہم قلم اور اہلِ صحافت حضرات کی باہمی دھینگا مشتی سے بخوبی ہو جاتا ہے ۔ سوشل میڈیا کو جانے دیجئے، الیکٹرانک میڈیا پر لوگوں کی نجی زندگیوں کو ڈسکس کیا جا رہا۔ آج آزادی اظہار رائے کا مطلب دوسروں پر کیچڑ اچھالنا سمجھا جاتا ہے۔ ملک کے سب سے بڑے ٹی وی چینل پر مانیکا کے ’’ کھلے ڈھلے‘‘ انٹرویو پر صرف ایک جملہ کافی ہے
’’ جو مکا لڑائی کے بعد یاد آئے اسے اپنے منہ پر مار لینا چاہیے ‘‘
اور اس نے اپنے منہ پر مکا نے مارا مکے برسائے ہیں۔
کاش وہ مولا علیؓ کے اس فرمان پر عمل کرتا کہ فتنے کے وقت اونٹ کے بچے جیسا کردار ادا کرو کہ نہ تمہاری سواری کی جا سکے اور نہ قربانی ۔
سچ ہے ’’ لفظ تمہارے غلام ہیں جب تک انہیں استعمال نہیں کر لیتے اور جب ایسا کر لیتے ہو تو تم ان کے غلام ہوتے ہو‘‘۔
اگر انسان ان کے غلام بنائے جانے کے حق میں نہیں تو دوست ہی بنا لے۔ اس میں آخر کیا قباحت ہے ؟
ایک حدیث کے مطابق ایمان کی سلامتی میں خاموشی کا حصہ دس میں سے نو کے برابر ہے۔ جناب ختمی مرتبت نے اپنی زبان کو پکڑ کر بتایا کہ ایمان سارے کا سارا اس میں ہے ۔
آپ نے اکثر بد اخلاق اور منہ پھٹ لوگوں کو یہ کہتے سنا ہو گا ’’ زبان کے برے ضرور ہیں پر دل کے صاف ہیں ‘‘ اب سوال یہ ہے کہ یہ کیسے ممکن ہے کہ آدمی دل کا صاف ہو مگر زبان کا نا صاف ۔
میرے ایک افسانے ’’ منہ پھٹ ‘‘ میں ایک شوہر اپنی ماں سے کہتا ہے کہ آپ کی بھانجی ہے اور آپ کی وجہ سے اس گھر میں آئی ہے۔ میں مانتا ہوں وہ زبان کی کچھ تلخ ہے مگر دل کی بڑی اچھی ہے۔ تو ماں جل کے کہتی ہے کاش زبان کی اچھی ہوتی، دل کی بے شک بری ہوتی ہے۔
یہ بات وزن دار ہے کہ بندہ زبان کا اچھا ہو۔ دل اچھا ہے یا برا ، کون جانے، کس نے دیکھا ہے ؟
ہماری زبان ہی سے تو ہمارے باطن کا پتہ چلتا ہے۔ ہم اگر اتنے ہی منہ پھٹ اور صاف گو ہیں تو ہمیں ان سے بھی ویسا ہی برتائو کرنا چاہیے جو ہم سے رتبے اور عہدے میں بڑے ہیں ۔ تب ہماری صاف گوئی کہاں جا سوتی ہے۔
ایک انتہائی نفیس کتاب ’’ اخلاق عملی ‘‘ پڑھنے کا اتفاق ہوا۔ تین سو اسی صفحات میں سے دو سے زائد صفحات زبان پر تھے۔ عنوان تھا ’’ زبان کی آفتیں ‘‘ اس سے پتہ چلا کہ خوش اخلاقی کس قدر اہمیت کی حامل ہے۔ جناب رسالت مآبؐ نے اپنی بعثت کا مقصد مکارم اخلاق کی تکمیل قرار دیا تھا۔ ’’ اور بے شک آپؐ اخلاق کے عظیم مرتبے پر فائز ہیں ‘‘
آپؐ کے حسن خلق نے انہیں مہر محبت کے حسین بندھن میں باندھ رکھا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ عرب کے بدو آپ کی تربیت کے سبب شائستگی کے امام بن گئے ۔
’’ ( اے رسول) یہ مہر الٰہی ہے کہ آپ ان کے لیے نرم مزاج واقع ہوئے اور اگر آپ تند خو اور سنگ دل ہوتے تو یہ لوگ آپ کے پاس سے منتشر ہو جاتے ، پس ان سے درگزر کریں اور ان کے لیے مغفرت طلب کریں اور معاملات میں ان سے مشورہ کر لیا کریں پھر جب آپ عزم کر لیں تو اللہ پر بھروسہ کریں ، بے شک اللہ بھروسہ کرنے والوں کو پسند کرتا ہے ‘‘
پیارے دوست اور نامور شاعر افتخار شاہد نے مجھے زبان و بیان میں احتیاط کی نصیحت کرتے ہوئے منظوم انداز میں کہا تھا’’ کبھی کوئی ایسی تحریر نہ لکھنا کہ تمہارے لفظوں کو تمہاری تحریر کا بوجھ سہنا پڑے‘‘
ان کا لازوال شعر آ پ کی نظر کرتا ہوں۔ دعا ہے اللہ ہم سب کو زبان پر قابو کی توفیق سے نوازے کہ ہماری ہڈیوں کی یہ عمارت ایک چمڑے کے لوتھڑے پر ہی تو استوار ہے۔
جسموں کو ملبوس اٹھانے پڑتے ہیں
لفظوں کو تحریریں سہنی پڑتی ہیں

جواب دیں

Back to top button