بچے میرے عہد کے چالاک ہوگئے

یاور عباس
نگران وزیر اعظم پاکستان انوار الحق کاکڑ کا گزشتہ دنوں لمز یونیورسٹی میں طلبہ کے ساتھ سیشن غیر معمولی مقبولیت اس وقت اختیار کر گیا جب طلبہ نے ملک کے آئینی معاملات پر سوالات اُٹھائے اور وزیر اعظم مسلسل پانی کی بوتلیں خالی کرتے رہے ، انتخابات میں تاخیر کا معاملہ یوں تو گزشتہ ایک سال سے پاکستان میں ایک معمہ بنا ہوا ہے ۔ پنجاب اور کے پی کے میں انتخابات کے التوا نے وفاقی الیکشن کے وقت مقررہ پر ہونے کو بھی مشکوک بنایا اور پھر دنیا نے دیکھا کہ ایسا ہی ہوا ، انتخابات آئین کے مطابق90دن میں نہ ہوسکے۔ انتخابات کے التوا میں اگرچہ سہولت کاری ہمارے سیاستدانوں نے ہی کی ہے ، پارلیمنٹ نے ایک ڈمی اپوزیشن لیڈر کے تعاون سے آئینی ترمیم کے ذریعے الیکشن کی تاریخ دینے کا اختیار چیف الیکشن کمشنر کو دے دیا ، حالانکہ آئین میں درج90روز کی مدت کی تبدیلی کے لیے آئین میں ترمیم کے لیے دو تہائی اکثریت کی ضرورت تھی مگر حیرت تو یہ ہے کہ ملک کی کسی بھی عدالت نے اس معاملہ کو سنجیدہ لیا ہی نہیں جس طرح سائفر کی تفتیش کے لیے پی ٹی آئی عدالتوں میں درخواستیں دیتی رہی مگر آج تک کسی عدالت نے سائفر پر انکوائری کی نہ کرنے کا حکم دیا البتہ سائفر گمشدگی کا کیس سابق وزیر اعظم عمران خاں پر بنادیا گیا ،انتخابات میں تاخیر پر نہ صرف پاکستانی عوام بلکہ ملک کی سیاسی جماعتیں بھی تذبذب کا شکار رہی اور اب تو پی ڈی ایم میں موجود جماعتیں بھی اسی تذبذب کا شکار ہیں اور پیپلز پارٹی تو انتخابات میں تاخیر کی وجہ مسلم لیگ ن کی سہولت کاری کرنے کے مترادف قرار دے رہی ہے ۔
لمز یونیورسٹی کے طلبہ کے سوالات گزشتہ چند دن سے ملکی سیاست اور میڈیا پر زیر بحث ہیں، قومی میڈیا پر گرفت رکھنے والے صحافیوں کی اکثریت ان طلبہ پر تنقید کر رہی ہے اور اسے عمران خاں کی تربیت اور مائند سیٹ قرار دے رہی ہے جبکہ بہت سارے دانشور ان طلبہ کو خراج تحسین پیش کر رہے ہیں کہ طلبہ نے بڑی جرات مندی سے سوالات کیے ، کچھ نے تو ان بچوں کو بدتمیز بھی قرار دیدیا۔ نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ سے بعد میں جب اس متعلق سوال پوچھا گیا تو انہوںنے بچوں کو شرارتی قرار دے دیا ، مگر جب انہی بچوں میں سے کسی ایک سے صحافی نے سوال کیا کہ آپ عمران خاں کے تربیت یافتہ ہیں یا پھر ان کے خیالات کی وجہ سے آپ نے ایسا کیا تو اس نوجوان نے جواب دیا میں کسی سے متاثر نہیں بلکہ جو کچھ یونیورسٹی سے سیکھا اس کے مطابق سوال کیا اور میرے خیال میں یہ سوال اس قدر اہمیت کے حامل نہیں تھے کہ ملکی سطح پر زیر بحث آتے واقعی اس طرح کے معاملات پر بحث اس ملک میں ہورہی ہے جہاں معاشی ، اقتصادی ، سیاسی اور آئینی بحران موجود ہیں جہاں عوام کی غربت ، بدحالی ، بھوک ، افلاس ، بے روزگاری جیسے مسائل زیر موضوع ہونے چاہیے۔ پابندی وقت کے سوال پر بھی بہت سارے لوگوں کو تکلیف ہورہی ہے کہ یہ سوال اہمیت کا حامل نہیں میرے خیال میں کسی بھی مہذب قوم کی کامیابی اور ترقی میں بنیادی کردار وقت کی پابندی ہے ، نمازوں کے اوقات ، دفاتر میں حاضری کے اوقات جیسی بہت ساری مثالیں دی جاسکتی ہیں ۔ کچھ نام نہاد دانشور اس سوال پر سیخ پا ہیں مگر شاید انہیں پتہ نہیں کہ ہمارے سکولز میں اساتذہ اگر 5منٹ بھی تاخیر سے پہنچیں تو مانیٹرنگ والے ان کی موجودگی کے باوجود غیر حاضری لگا دیتے ہیں اور انکوائری کے لیے کسی بڑے افسر کے پاس جانا پڑ جاتا ہے، قائداعظم محمد علی جناحؒ کے بارے سنا کہ وہ کسی یونیورسٹی میں صرف 3منٹ تاخیر سے پہنچے تو طلبہ نے لیکچر سننے سے انکار کر دیا، لاہور میں ایدھی فائونڈیشن کے بانی عبدالستار ایدھی جب کراچی سے مقررہ وقت پر پہنچ گئے تو وہاں ابھی ٹینٹ کا سامان پہنچایا جارہا تھا پھر وہ وہاں تقریب میں شرکت کیے بغیر واپس چلے گئے ، پنجاب کی سابق وزیر محترمہ شاہین عتیق الرحمقن ایک دفعہ گجرات کے قصبہ کنجاہ میں ایک نجی سکول کی افتتاحی تقریب میں لاہور سے صبح 8بجے پہنچیں تو وہاں ابھی ٹینٹ کا سامان نہیں پہنچا تھا اور ضلعی افسران بھی ابھی سو رہے تھے، محترمہ نے خود بتایا کہ میں نے ان افسران کی نیند خراب کی ہے، صبح جلدی آکر اور یہی عمل ہمیں ترقی نہیں کرنے دیتا۔ انتخابات میں التواء ، ملک میں آئین کی حکمرانی ، بلدیہ کراچی کے میئر کے انتخابات میں دھاندلی جیسے سنجیدہ نوعیت کے سیدھے اور آسان سوال شاید پاکستان کا کوئی صحافی، اینکر اس انداز میں نگران وزیر اعظم پاکستان سے نہ کر سکا جس طرح لمز یونیورسٹی کے طلبہ نے کیے، یہ طلبہ پاکستان کے غریب گھرانوں کے نہیں بلکہ ایلیٹ کلاس کے بچے ہیں، اس لیے شاید ان کے ساتھ وہ سلوک نہ ہو جو عام پاکستانی کے ساتھ ہوتا ہے۔ میاں نوازشریف کی جس انداز سے وطن واپسی ہوئی ہے اور پنجاب حکومت نے جس طرح ان کے خلاف کیسز بند کرنے کی منظوری دی ہے اس سے پاکستان کے نظام انصاف پر سوالیہ نشانات لگ گئے ہیں۔ یہ مسلمہ اصول ہے کہ تنقید برداشت کرنے والے ہی بڑے لیڈر بنتے ہیں اور تنقید برداشت نہ کرنا صرف آمریت کی نشانی ہے، اگر خلیفہ وقت سے یہ سوال پوچھا جاسکتا ہے تو آج کے حکمرانوں کو احتساب یا پھر آئینی ذمہ داریاں پوری کرنے کے حوالے سے سوال کرنا کوئی بدتمیزی ہے نہ شرارت۔ وہ قومیں کبھی ترقی نہیں کر پاتی جن کے حکمران عوام کو جوابدہ نہیں وتے یہاں صرف کاغذی طور پر جوابدہ ہیں اور عملی طور پر سوال پوچھنے والوں کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے یہ سبھی جانتے ہیں کہ پاکستان میں کتنے ہی صحافی صرف سوال پوچھنے یا پھر حقائق عوام کے سامنے لانے کی پاداش میں جیلوں میں چلے گئے ۔
لمز یونیورسٹی کے طلبہ کے سوالات پر جہاں مختلف پہلوئوں پر بحث چل رہی ہے وہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ پاکستان کی نوجوان نسل میں شعور بیدار ہوچکا ہے اور وہ قانون کی حکمرانی چاہتے ہیں، اگر یہاں مغرب کی طرز پر جمہوریت قائم کی جاسکتی ہے تو مغرب کی طرز پر قانون سب کے لیے یکساں نہ ہونے پر سوال بھی کیا جانا چاہیے ، پاکستان کی ترقی اور مسائل کا حل بھی صرف اسی نکتہ میں موجود ہے کہ قانون کی نہ صرف حکمرانی قائم ہو بلکہ اس کی پاسداری بھی کی جائے۔ لمز یونیورسٹی کے بچوں کے سوالات کے بعد چیف الیکشن کمشنر نے صدر پاکستان کی مشاورت سے 8فروری کو انتخابات کرانے کی تاریخ دے تو دی اور دیکھنا یہ ہے کہ اب بھی مقررہ تاریخ تک انتخابات ہو سکیں گے یا پھر کسی اور بہانے سے الیکشن التوا کا شکار ہو جائیںگے ۔ خیر لمز یونیورسٹی کے بچوں نے وہ کام کر دکھایا جو بڑے سے بڑے قانون دان اور سیاسی جماعتیں نہ کر سکیں ۔