ڈپریشن اور اس کا علاج ( آخری قسط)

تحریر : صفدر علی حیدری
ڈپریشن کے مریض کو دوستوں کی کمپنی بڑا فائدہ دے سکتی ہے۔ اگر اس کے دو ایک مخلص دوست ہوں تو یہ ان کے ساتھ وقت گزارنا اس کے لیے انتہائی مفید ثابت ہو گا۔ انسان جو بات کسی اپنے کو نہیں کر سکتا وہ اپنے دوست سے بخوبی کر لیتا ہے۔ خوش نصیب ہیں وہ لوگ جن کو کچھ مخلص دوست میسر ہیں۔ کیوں کہ ایک اچھا اور مخلص دوست سونے کی کان جیسا ہوتا ہے۔ ہمیشہ فیض رسانی ہی کرتا ہے۔ ہاں البتہ مخلص دوست ایک دو ہی ہو سکتے ہیں ۔ سو سب کو مخلص دوست سمجھنا بڑی غلطی ہو گی۔
دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا
اب آتے ہیں اس روحانی اینٹی بائیوٹک کی طرف جس کا اوپر ذکر ہوا ہے۔ نفسیاتی علاج میں اس کی اہمیت اکسیر اعظم اور تیر بہدف کی سی ہے۔ راقم کو اس کا ذاتی تجربہ بھی ہے اور مشاہدہ بھی۔ مجھے ایک بھی ایسا انسان نہیں ملا جس کو میں نے یہ اینٹی بائیوٹک دیا ہو اور اس نے خود آ کر مجھے یہ نہ بتایا ہو کہ وہ اب بالکل ٹھیک ہو گیا ہے۔ میں اس کے کم از کم چالیس روز کے استعمال کا کہتا ہوں اور رزلٹ بڑا جلدی آ جاتا ہے۔ چالیس دن سے کہیں پہلے۔ ایک دوست کو تو دو دن میں رزلٹ ملا۔ اب وہ بی ایس کر رہا تھا۔ ورنہ تو اس نے پڑھائی چھوڑ رکھی تھی اور گلیوں میں بت مقصد گھومتا رہتا تھا۔ تاہم میری تجویز یہ ہو گی کہ اس دوا نما دعا کو ترک نہ کیا جائے کیوں کہ اس مرض کے عود کر آنے کا خطرہ ہوتا ہے۔ سافٹ ویئر ایک بار خراب ہو جائے تو مکمل طور پر کبھی ٹھیک نہیں ہوتا۔ یہ تبھی ٹھیک رہ سکتا ہے کہ دوائی کا استعمال جاری رکھا جائے۔ مجھے خود چار بار اس مرض سے لڑنا پڑا ۔ یاد پڑتا ہے کہ میں نے ایک دن اپنے معالج سے ( چھ ماہ کے علاج کے بعد ) پوچھا کہ مجھے کتنا عرصہ دوا کھانا پڑے گی تو اس کا جواب تھا۔ آٹھ دس سال ۔۔
میں نے اسی وقت تہیہ کر لیا کہ آج کے بعد دوا استعمال نہیں کروں گا اور میں نے دوا چھوڑ کر روحانی اینٹی بائیوٹک کا استعمال شروع کر دیا اور دو ماہ میں مکمل طور پر صحت یاب ہو گیا۔ جب میں پہلی بار اس ڈاکٹر کے پاس گیا تو مجھ سے اس نے ایک سوال کیا:
کیا آپ سے کوئی گناہ سرزد ہوا ہے۔ میں نے کہا گناہ سے کون بچ سکتا ہے۔ اس پر اس نے ایسی بات کہ مجھے لگا اس نے میرے قدموں میں بم رکھ کر پھوڑ دیا
’’ تمہیں گناہوں کی سزا مل رہی ہے ‘‘۔
میرا دل چاہا بھاگ جائوں اور دوبارہ اس کی شکل کبھی نہ دیکھوں۔ مگر میں ایسا نہ کر سکا۔ ہاں یہ یقین آ گیا کہ وہ ڈھول کا پول ہے۔ اسی انسانی نفسیات کی الف ب کا پتہ نہیں۔ انسان تو پہلے ہی خود کو قصور وار سمجھ کر ناقابل معافی قرار دے رہا ہوتا ہے۔ اس دن میں نے جان لیا کہ ان لوگوں کے پاس صرف جہالت ہے یا منشی ادویات۔
خیر تو اب باری ہے اس روحانی اینٹی بائیوٹک کی ۔ فجر کی فرض نماز کے فوراً بعد اور مغرب کی فرض کے فورا بعد اسی حالت میں، اپنی جگہ پر ساکن رہ کر
ایک سو بار پڑھنا ہے
بسم اللّٰہ الرحمٰن الرحیم
لا حولہ ولا قوہ الہ باللہ
اس کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھنا ہے، جلد بازی نہیں کرنی۔ اس کام میں زیادہ سے زیادہ پانچ منٹ صرف ہوں گے۔ تو پورے دن میں دس منٹ لگا کر آپ اپنا سافٹ ویئر ٹھیک کرا سکتے ہیں۔ مجھے یقین ہے صرف چالیس یوم میں ( بلکہ اس سے بھی پہلے ) مریض خود کہے گا کہ وہ اب مکمل طور پر ٹھیک ہو چکا ہے۔
اس وظیفے کے ستر فائدے ہیں جن میں سے چالیس کا تعلق آخرت سے ہے اور تیس کا دنیا سے۔ اور دنیا میں اس کا کم از کم فائدہ یہ ہے کہ انسان کو غم محسوس نہیں ہوتا۔ اور یہ بات محتاج بیاں نہیں کہ ڈپریشن غم کی ہی بگڑی ہوئی شکل کا نام ہے۔ انسان کو محسوس ہوتا ہے کہ اس کے دل پر غم کا پہاڑ رکھا ہوا ہے۔ غم سے چھٹکارا ممکن نہیں۔ دکھ سکھ زندگی کا حصہ ہے۔ غم آئیں گے مگر انسان کے پاس اتنی برداشت ہو گی کہ اسے غم کا دبائو ہی محسوس نہیں ہو گا۔ وہ مسرت کے بے پایاں احساس کر زیر اثر زندگی گزارے گا۔ شکر کی نعمت اسے حاصل ہو گی۔ صبر کرنے کا ول اسے آ جائے گا۔ وہ جان لے گا کہ زندگی
’’ وَ استَعِینُوا بِالصَّبرِ وَ الصَّلٰوۃِ ‘‘
ہی خوب صورت ہو سکتی ہے۔ اوپر جتنی ہدایت کی گئی ہے، یہ جگ بیٹیاں نہیں ہڈ بیتی ہے۔ مجھے یقین ہے کہ نفسیاتی عوارض کا اس سے خاتمہ ہو جائے گا۔ انسان واپس لوٹ آتا ہے۔ پہلے سے بہتر انسان کے طور پر۔
بس اس وظیفے کو ترک نہیں کرنا اور درود و سلام کو ورد زباں رکھنا ہے۔
میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان سب کو صحت یاب فرمائے جو اس مرض کا شکار ہیں، آمین۔