مظلوم فلسطینی اور اجتماعی رویہ

شکیل امجد صادق
عظیم مجاہد و سپہ سالار سلطان صلاح الدین ایوبی کو اس کے ایک سپاہی نے اطلاع دی کہ شہر میں ایک وعظ ( مولوی، عالم، مقرر) آیا ہے اس کا بہت چرچا ہے لوگ اس کو سننے کیلئے جاتے ہیں باتیں بہت پر اثر کرتا ہے تو سلطان نے بھیس بدل کر ملنے کا ارادہ کرلیا کہ دیکھیں کون ہے وہ وعظ۔ سلطان صلاح الدین ایوبی بھس بدل کر اس کے پاس پہنچ گئے اس کا بیان ختم ہونے کے بعد سلطان نے پوچھا کہ بیت القدس مسلمانوں سے فتح کیوں نہیں ہورہا ہے کیا وجہ ہے اس عالم نے کہا کہ دعا مانگتے رہو بیت المقدس فتح ہوجائے گا۔ سلطان نے یہ سننا تھا فوراً تلوار نکالی اور پوچھا کون ہو تم، کس نے بھیجا ہے تمہیں، سلطان نے جان لیا کہ یہودی جاسوس ہے، جو عالم کا بھیس بدل کر آیا اور لوگوں کو جہاد کے بجائے دعا کا حکم دے رہا ہے۔ سلطان نے اس کا سر قلم کر دیا۔ یہی کچھ دنیا میں مسلمانوں کے ساتھ ہورہا ہے لوگ مسجدوں میں بیٹھ کر بد دعائیں کر رہے ہیں، دعائیں مانگ رہے ہیں لیکن ظالم تباہ ہونے کے بجائے مزید طاقتور ہورہے ہیں کیوں؟۔ کیونکہ ہم نے عملی جدوجہد کو چھوڑ کر صرف دعائوں اکتفا کیا ہوا ہے اگر صرف دعائوں سے ہی ظلم ٹلتے تو غزوہ بدر، خندق، احد، کربلا واقع نہ ہوئے ہوتے۔ عملی جدوجہد سے منزلیں ملا کرتی ہیں۔ عرب عیاشیوں میں مصروف اور باقی دعائوں میں مصروف ہیں۔
فلسطین میں ساڑھے چار سو کے قریب روزانہ کی بنیادوں پر بچے، عورتیں اور مرد شہید ہو رہے ہیں۔ ایک ہم ہیں کہ بس، ہماری زبانیں گنگ، ہمارے جذبات پست، ہمارے حرف بے زباں، ہمارے دل پتھر سے بھی زیادہ سخت، ہمارے خون سفید اور ہماری انا بے حسی کے اس گہرے سمندر میں ڈوب چکی ہے کہ ڈھونڈنے سے تو کیا؟ سوچنے کا عمل بھی اکارت ہو چکا ہے۔ ہم اس نبی محمدؐ کی امت ہیں جس نے میدان بدر میں سجدے میں گر کہا تھا کہ اے اللہ اگر آج یہ مٹھی بھر تیرے نام لیوا ختم ہو گئے تو قیامت تیرا نام لیوا نہیں ہوگا۔ ہم اس نبیؐ کی امت ہیں جس نے رو رو کر امت کے لیے دعا مانگی، مگر ہم اس قدر بے حس ہو چکے کہ ہمارے مسلمان بھائی ظلم و تشدد کا شکار ہو رہے ہیں اور ہم خاموش ہیں؟ ہم چپ ہیں؟ ہمارا ضمیر سو چکا ہے؟ اس وقت فلسطین کے چاروں اطراف جتنے مسلمان ممالک ہیں سارے کے سارے چوہوں کی طرح اپنی بلوں میں گھسے ہوئے ہیں حالانکہ ایک یہودی کے مقابلے میں گیارہ مسلمان آتے ہیں۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ان گیارہ مسلمانوں میں ایک بھی بہادر نہیں ہے؟ ایک بھی باضمیر نہیں ہے۔ حیف صد حیف، ہم بس نام کے مسلمان رہ گئے ہیں علامہ اقبالؒ نے شاید ہمارے لیے کہا تھا
شور ہے ہوگئے دنیا سے مسلماں نابود
ہم یہ کہتے ہیں کہ تھے بھی کہیں مسلم موجود!
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کر شرمائیں یہود
بندر کو کب نچانا ہے ؟ اور بکرے کا تماشہ کب دکھانا ہے ؟ اور کتے کے کرتب دکھانے کا مناسب وقت کون سا ہے؟ یہ سب فیصلے مداری ہی کرتا ہے۔ عوام جذباتی نا ہوا کریں، بس تماشہ دیکھا کریں۔ بکرے، بندر اور کتے سے ہمدردی یا اس کے نعرے مارنے کی ضرورت نہیں۔ وہ تو مداری کے اشاروں کے پابند ہیں۔ ویسے بھی ہم کوئی نظریاتی قوم تو ہیں نہیں ایک تماشبین قوم ہیں تو بس مداری زندہ آباد کا نعرہ لگائیں اور پیسہ پھینکتے جائیں۔ مگر افسوس اس بات کا ہے کہ ایک امریکہ ہے اور اس نے تمام دنیا خصوصاً مسلم ممالک کو نکیل ڈالی ہوئی ہے۔ وہ جب چاہتا ہے ڈالرز کی ڈگڈی بچاتا ہے اور ہم ناچنا شروع کر دیتے ہیں۔ وہ جب چاہتا ہے ہماری خاموشی کی نکیل کھینچنا ہے اور ہم دست بدستہ نظریں جھکا کر، نہایت ادب کے ساتھ اس کے سامنے جھک جاتے ہیں۔ ہماری مجال تو ایک طرف، ہمارے سوچنے کی صلاحیت سلب ہو جاتی ہے کہ ہم نے اپنے حقوق پر بات کرنی ہے یا اپنے حقوق کا عَلم بلند کرنا ہے۔ یاد رکھئے اکیلی دعائوں سے جنگ نہیں جیتی جاتی، اکیلی دعائوں سے آگ نہیں بجھتی، اکیلی دعائوں سے ملک فتح نہیں ہوتے۔ اکیلی دعائوں اسرائیل کے یہودی سپاہی نہیں مریں گے۔ اس کے لیے ہمیں اٹھنا ہو گا۔ آواز بلند کرنی ہوگی۔ غیرت و حمّیت جگانا ہو گی۔ ارادے مضبوط کرنا ہونگے اور فلسطین کے مسلمانوں کا ساتھ دینا ہوگا۔ ان کے زخموں پر مرہم رکھنا ہوگا۔ ان کی فگار روح کے لیے ان کے شانہ بشانہ چلنا ہوگا۔