
حماس کے ہاتھوں یرغمال بنائے گئے 220 سے زائد قیدیوں کے خاندانوں نے اسرائیلی حکومت سے جواب کا مطالبہ کر دیا ہے، اور اس خدشے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ غزہ کی پٹی پر اسرائیلی حملوں میں قیدیوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ جائیں گی۔
غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق فلسطینی مزاحمتی تنظیم حماس نے اسرائیل کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کے لیے فوری ڈیل پر آمادگی ظاہر کر دی ہے، لیکن وزیر اعظم بنیامین نیتن یاہو تاحال اس ڈیل کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کر سکے ہیں، اسرائیلی کابینہ اجلاس میں بھی اس ڈیل کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لیا گیا تاہم کوئی حتمی فیصلہ نہ ہو سکا۔
ادھر اسرائیلی یرغمالیوں کے خاندانوں کی جانب سے تمام قیدیوں کی رہائی کے لیے وزیر اعظم نتین یاہو پر دباؤ بڑھتا جا رہا ہے، الجزیرہ کی رپورٹ کے مطابق اسیر اسرائیلیوں کے خاندان مایوسی کا شکار ہونے لگے ہیں اور انھوں نے سڑکوں پر احتجاج شروع کرنے کی دھمکی دی، جس پر بنیامین نیتن یاہو نے ہفتے کے روز غزہ میں جنگی منصوبہ بندی کو روک کر عجلت میں ان کے ساتھ ملاقات کی۔
حماس نے 7 اکتوبر کو 200 سے زائد اسرائیلی فوجیوں اور شہریوں کو اسرائیل سے غزہ منتقل کیا تھا، اور فلسطینی تنطیم کے مطابق اسرائیل میں قید فلسطینیوں کی تعداد 6 ہزار 630 ہے، حماس کی جانب سے بیان میں کہا گیا کہ اسرائیل کو اپنی جیلوں سے ان تمام فلسطینیوں کو رہا کرنا ہوگا۔
قیدیوں کے خاندانوں کے ساتھ ملاقات میں بھی اسرائیلی وزیر اعظم نے کوئی وعدہ نہیں کیا، بس اتنا کہا کہ ’’ہم انھیں گھر لانے کے لیے کوئی کسر اٹھا نہیں رکھیں گے۔‘‘ انھوں نے مزید کہا کہ اسرائیلی فوجی آپریشن کا ایک اہم حصہ ان قیدیوں کی تلاش بھی تھا۔ بعد ازاں ایک پریس کانفرنس میں اسرائیلی وزیر دفاع نے کہا کہ ہم جتنی زیادہ طاقت کے ساتھ حماس پر فوجی حملہ کریں گے اتنا ہی وہ قیدیوں کی رہائی کے لیے مجبور ہوں گے۔
دوسری طرف ترک میڈیا انادولو کے مطابق حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈز نے ہفتے کے روز کہا کہ وہ قیدیوں کے تبادلے کی ڈیل کے لیے تیار ہیں، ایسی ڈیل جو اسرائیلی جیلوں کو خالی کر دے گا اور تمام فلسطینی اور اسرائیلی قیدی گھروں کو لوٹ آئیں گے۔ انھوں نے کہا ایسی ڈیل بھی کی جا سکتی ہے کہ بہ یک وقت سبھی قیدی رہا ہوں اور ایسی بھی کہ قیدی مختلف مراحل میں رہا ہوں۔
القسام بریگیڈز کے ترجمان ابو عبیدہ نے ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والی تقریر میں کہا: ’’اگر دشمن قیدیوں کے باب کو ایک ہی وقت میں بند کرنا چاہتا ہے تو ہم تیار ہیں، اور اگر وہ مرحلہ وار راستہ چاہتے ہیں تو بھی ہم تیار ہیں۔‘‘