Column

اس سے کیا ہو جائے گا

آصف علی درانی
دکھ اس وقت پہنچا جب سامنے والے بندے سے میں نے پوچھا آج کل آپ کون سی کتاب پڑھ رہے ہوں، آپ کس مصنف کو زیادہ پڑھ رہے ہو، تو یہ سن کر اس بندے نے ایک قہقہہ لگایا اور طنزیہ انداز میں بولا نارمل لوگ کتابیں نہیں پڑھتے بلکہ لوگوں کا مطالعہ کرتے ہیں، حالات کا مطالعہ کرتے ہیں، میں نے سوال کیا کہ جناب یہ مطالعہ کیا ہے؟ اُس کے پاس جواب نہیں تھا اور اُس نے گفتگو تبدیل کر دی۔
بولا آپ کے انسٹا گرام پر فالوورز اب کتنے ہیں چار ماہ پہلے تو کم تھے اب کچھ زیادہ ہوئے کہ نہیں وہیں پر کھڑی ہیں۔ میں نے کہا جناب انسٹا گرام کو چھوڑ دو۔ میرا سوال۔۔۔۔ اس نے کہا چھوڑ دو تم ذہنی مریض ہو عجیب قسم کی سوالات پوچھتے ہو۔ اکثر جب کسی مہمان یا دوستوں کے ساتھ بیٹھتا ہوں تو خوامخواہ کتابوں کی متعلق گفتگو شروع کرتا ہوں، دوستوں کے ساتھ اکثر باتیں کتابوں ، ناول اور افسانوں کے بارے میں ہوتی ہیں۔
لیکن یہ بندہ کافی عجیب تھا یا مجھے انجان سا لگ رہا تھا ظاہری شخصیت کے بارے میں بعض ماہر نفسیات کہتے ہیں کہ پرسنلٹی اچھی رکھنا بہت ضروری ہے اس سے سامنے والے بندے پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں لیکن میرے خیال میں یہ سو فیصد درست نہیں ہے کیونکہ جو بندہ اندر سے خالی ہو یعنی اس کے ذہن میں کچھ نہ ہو تو پرسنلٹی کا کیا فائدہ اس کے علاہ مختلف جاب انٹرویو میں بھی پرسنلٹی پر زور دیا جاتا ہے اور بعض اوقات تو ایسا بھی ہوتا ہے کہ جس بندے کی پرسنلٹی ظاہری شخصیت ’’ انٹرویوز ‘‘ یعنی سوال پوچھنے والے کو اچھی لگے وہ اس کو نوکری پر رکھتے ہیں ۔
اس بندے نے ہاتھ میں تقریباً ستر ہزار کا فون پکڑا ہوا تھا اس طرح جوتے بھی بڑے اور مشہور برینڈ کے پہنے ہوئے تھے ۔۔۔۔۔ اور ہیر سٹائل بھی کسی فلمی ہیرو جیسا تھا ۔ لیکن ذہنی و شعوری طور پر مکمل خالی تھا ظاہری سی بات ہے باہر سے تو اچھا دکھتا تھا لیکن بات کرنے کا طریقہ اس کو نہیں آتا تھا۔ اگر کتاب کی بات کریں تو کتاب ایک بہترین ساتھی اور ایک اچھا دوست ہے یہ آپ کو کہیں پر بھی تنہا نہیں چھوڑتا اگر آپ سفر کرتے ہو اور ساتھ کوئی نہ ہوں تو کتاب دوست بن جاتا ہے اگر آپ گھر میں اکیلے ہوں تو آپ کتاب کے ساتھ باتیں شروع کر دیتے ہیں۔
لیکن بد قسمتی سے جدید ٹیکنالوجی نے وہ سب روایات زندگی گزارنے کے طریقے غم خوشی رسم و رواج سب تبدیل کر دئیے ہیں اس جدید ٹیکنالوجی سے کافی بہتری بھی آئی ہے لوگوں کے بہت سے کاموں کو بھی آسان کر دیا لیکن دوسری طرف اس کے نقصانات بھی زیادہ ہے اور دن بدن بڑھ رہے ہیں پرانے زمانے میں جب گھر میں کوئی بھی کھانا پکتا تو سب گھر والے خوشی سے بیٹھ کر کھاتے تھے لیکن دور جدید میں بندہ گھر بیٹھے اپنے لیے کھانا باہر سے آن لائن آرڈر کرتا ہے، اس سے یہ ہوا کہ ہمارے خاندانی نظام کی جڑیں دھیرے دھیرے کمزور ہوتی چلی جارہی ہیں۔
آج کے دور میں میڈیا یا انٹرنیٹ پر سب کچھ دستیاب ہے اخبارات، میگزین، کتابیں اور سائنسی علوم لیکن جو مزہ و سکون لائبریری یا گھر میں اکیلے بیٹھ کے کتاب کے پڑھنے میں ہے وہ ان لائن پڑھنے میں کہاں کیونکہ آن لائن مطالعے کے دوران انسان کی سوچ ٹیکنالوجی کی طرف جاتی ہے اور پھر ساری توجہ خراب ہو جاتی ہیں، آن لائن پڑھنے کے دوران اچانک اشتہارات بھی آتے ہیں، اس سے بھی مطالعے میں ایک خلاء جسے انگلش میں ’’ گیپ ‘‘ کہتے ہیں پیدا ہوتا ہے۔
آج کل ہماری نوجوان نسل ماڈرنزم کے بارے میں باتیں کرتی ہے۔ کہتے ہیں میں ماڈرن ہوں اسی طرح لڑکیاں بھی اپنے آپ کو ماڈرن کہتی ہیں۔۔۔ لیکن ماڈرنزم اصل میں ہے کیا، اس حوالے سے چند دن پہلے میں نے ایک دانشور سے کافی لمبی چوڑی بحث کی اور ان سے پوچھا سر یہ ماڈرنزم کیا ہے ؟ سوال سنتے ہی وہ مسکرایا پھر بولا میں اس وجہ سے ہنسا کہ آج کل ہر کوئی مطلب گدھا گاڑی چلانے والے بھی اپنے آپ کو ماڈرن کہتا ہے، ایک میٹرک پاس طالب علم بھی اپنے آپ کو ماڈرن کہتا ہے، لڑکیوں کی تو بات ہی کچھ اور ہے وہ تو اپنے آپ کو ماڈرن ہی کہتی ہیں لیکن یہ سارے خفیف العقل ہیں۔ انہوں نے بتایا میں ماڈرنزم سے پہلے آپ کو ایک بات بتاتا ہوں ہماری نوجوان نسل مغربی ممالک کی کچھ چیزیں کاپی کر کے اپنی زندگی میں اپنا لیتے ہیں یہ آپ کے خیال میں آندھی تقلید نہیں تو اور کیا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ وہ لوگ آپ کے کلچر کو کیوں فالو نہیں کرتے؟ یہ بنیادی سوال ہے۔ رہی بات ماڈرنزم کی تو میرے خیال میں بلکہ میں آپ کو آسان الفاظ میں بتاتا ہوں کہ ایک گائوں میں بہت سارے لوگ رہتے ہیں، اس میں ایک شخص نے کافی زیادہ تعلیم حاصل کر رکھی ہے اور ایک بڑے ادارے میں ایک اعلیٰ عہدے پر براجمان بھی ہے، اس کے علاوہ اپنے بیٹے اور بیٹی کو شہر کے اچھے سکول میں داخل بھی کرایا ہے میرے خیال میں یہ ماڈرن ہے ۔
جس کا باپ تیس یا چالیس ہزار کی نوکری کرتا ہے اور بیٹا ہاتھ میں ساٹھ ہزار کا موبائل فون لے کر گھوماتا ہے، مشہور ٹیلر سے کپڑے سلواتا ہے اور بالوں میں مختلف قسم کے ہئیر سٹائل بناتا ہے، میرے خیال میں یہ مائنس یعنی منفی ماڈرنزم ہے۔ انہوں نے کہا کہ ایک اور بات کو میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ جس گائوں میں سب تعلیم یافتہ ہوں، سب کے بچے اچھے سکولوں میں پڑھ رہے ہوں، سب کے پاس اپنی اپنی گاڑیاں ہوں۔ اس کو ہم ایجوکیٹڈ یعنی تعلیم یافتہ گائوں یا علاقہ تو کہ سکتے ہیں لیکن ماڈرن نہیں۔ انہوں نے کہا ایک گھر میں لڑکا پی ایچ ڈی کر رہا ہے، وہ میرے نزدیک یعنی میرے خیال میں ماڈرن ہے۔
کچھ دن پہلے ایک فلسفی سے ملاقات ہوئی رسمی گفتگو کے بعد میں نے ان سے معاشرہ و سماج کے بارے میں باتیں شروع کیں انہوں نے کہا کہ ہمارے معاشرے میں زیادہ تر لوگ انا کی بیماری میں مبتلا ہیں، وہ اس لیے کہ آج کے دور میں سب ایک دوسرے سے آگے جانے کی کوشش کر رہے ہیں، کسی میں وہ عاجزی و انکساری نہیں، جو آج سے تقریباً چالیس سال پہلے ہوا کرتی تھی، اُس زمانے میں لوگ دل سے ایک دوسرے کے غم و خوشی میں شریک ہوتے تھے، ایک دوسرے کی مدد کرتے تھے، آج کے انسان اور خاص کر نوجوان نسل نے اپنی زندگی کو انا کے دائرے میں بند کیا ہوا ہے۔
میں اس سے بات کرونگا۔۔۔ اس کی کیا حیثیت۔۔۔ اس کا دادا تو دکاندار تھا۔۔۔۔ میں دکاندار کے نواسے سے بات کرونگا ۔ کیا ہوا کہ میرا بھائی عمر میں مجھ سے دس سال بڑا ہے لیکن تعلیم یافتہ تو نہیں۔ میں اس غیر تعلیم یافتہ سے بات کرو نگا میری قدر اتنی گر گئی۔
بد قسمتی سے اس لفظ ’’ میں ‘‘ نے سب کی زندگیوں کو اجیرن یا قید خانہ بنا دیا ہے۔
آج کے دور میں امیر کے پاس سستا فون اور غریب کے پاس قیمتی موبائل فون ہوتا ہے۔
یہ لوگ ایک تو انا جیسی بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں دوسری طرف یہ لوگ ذہنی و دماغی طور پر خالی ہوتے ہیں۔ میں کتاب پر گفتگو کر رہا تھا کچھ ماہ پہلے کی بات ہے۔
ایک ادیب کے ساتھ میں بیٹھا ہوا تھا انہوں نے مجھ سے سوال کیا جوان آج کل کون سی کتاب پڑھ رہے ہو، میں نے کہا ’’ کلیاتِ خلیل جبران ‘‘، انہوں نے کہا اچھی کتاب ہے، کئی سال پہلے میں بھی پڑھ چکا ہوں۔ اس کے بعد انہوں نے کتاب پر باتیں شروع کیں کہ میں نے اس کتاب میں یہ، یہ افسانہ پڑھا تھا اور مجھے آج بھی یاد ہے، اس کے علاوہ انہوں نے کہا کہ اس کتاب میں ایک ناول بھی میں نے پڑھا تھا۔ ’’ ٹوٹے ہوئے پر ‘‘ اور اسی طرح ہماری گفتگو جاری تھی، اس بندے کا عمر اور تجربہ زیادہ تھا۔ دوران گفتگو میں نے ان سے کافی کچھ سیکھا۔ انہوں نے مجھے مختلف کتابوں کے بارے میں بتایا کہا کہ آپ یہ یہ کتاب پڑھو۔۔۔ بانو قدسیہ، رضیہ بٹ، ڈاکٹر مبارک علی، سعادت حسن منٹو، مولانا ابوالکلام آزاد، ڈاکٹر وحید عشرت اور اشفاق احمد کی کتابیں پڑھو اور اس طرح انہوں نے بہت سی کتابوں کا ذکر میرے ساتھ کیا۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ کتابیں پڑھنے سے آپ کسی کے ساتھ بھی بات کر سکتے ہو اور لوگ آپ کی عزت بھی کریں گے کیونکہ زبان کا تالا صرف کتاب ہی کھول سکتی ہے۔

جواب دیں

Back to top button