Column

پوسٹل بیلٹ پیپر کا حصول آسان بنایا جائے

تحریر : رفیع صحرائی
انتخابات کو شفاف، غیر متنازعہ اور قابلِ اعتبار بنانے کے لیے الیکشن کمیشن نے انتخابی قواعد میں بعض ترامیم، اضافے اور نئی شقیں متعارف کروائی ہیں جو کہ احسن قدم ہے۔ پاکستان میں کبھی بھی انتخابی نتائج کو غیرمتنازعہ تسلیم نہیں کیا گیا۔ بھاری مارجن سے ہارنے والا امیدوار بھی انتخابی نتائج کو خوش دلی سے قبول نہیں کرتا۔ اگر مارجن چند سو ووٹوں کا ہو تو ہارنے والا امیدوار ووٹوں کی دوبارہ گنتی کے لیے درخواست ضرور دیتا ہے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہو جاتا ہی کہ ہارنے والا امیدوار دوبارہ گنتی میں جیت جاتا ہے اور پہلی گنتی میں جیتا ہوا امیدوار ہار جاتا ہے۔ پھر ان دونوں کے درمیان عدالتی جنگ شروع ہو جاتی ہے جو بعض اوقات اگلا الیکشن آنے تک جاری رہتی ہے۔ ہمارے سابق ڈپٹی اسپیکر قومی اسمبلی جناب قاسم سوری تو عدالتی اسٹے آرڈر کے ذریعے پورا ٹینیور نکال گئے تھے۔
الیکشن کمیشن وقتاً فوقتاً انتخابی اصلاحات کرتا رہتا ہے۔ اس مرتبہ بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ انتخابی اخراجات کے لیے الگ بینک اکائونٹ، فارم نمبر 45میں نئی شقوں کا اضافہ، پوسٹل بیلٹ کی ریٹرننگ آفیسر کر بروقت ترسیل سمیت کئی ترامیم و اضافے تجویز کیے گئے ہیں۔
ہمارے ہاں ایسا بھی ہو چکا ہے کہ عام ووٹوں کی گنتی میں لیڈ لینے والا امیدوار پوسٹل بیلٹ پیپرز کی گنتی کو شامل کرنے کے بعد دوسرے نمبر پر چلا جاتا ہے۔ انتخابات میں پوسٹل بیلٹ پیپرز کی اہمیت بہت زیادہ ہے مگر بدقسمتی سے ہماری ہاں دس فیصد افراد بھی پوسٹل بیلٹ کی سہولت سے استفادہ نہیں کرتے۔
پوسٹل بیلٹ پیپر ان سرکاری ملازمین کو جاری کیا جاتا ہے، جن کی الیکشن کے موقع پر کسی پولنگ اسٹیشن پر ڈیوٹی لگی ہوتی ہے۔ چونکہ یہ سرکاری ملازمین ڈیوٹی چھوڑ کر اپنا ووٹ کاسٹ کرنے نہیں جا سکتے لہٰذا الیکشن کمیشن آف پاکستان نے ان کے لیے یہ سہولت مہیا کی ہے کہ ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر کے دفتر سے ایک سادہ سا بنیادی معلومات پر مشتمل فارم حاصل کر کے اسے پُر کر کے وہیں جمع کروا دیتے ہیں۔ الیکشن سے چند روز قبل انہیں بذریعہ ڈاک بیلٹ پیپر مل جاتا ہے جسے مکمل کر کے سرکاری ملازمین حوالہ ڈاک کر دیتے ہیں جو ضلعی ریٹرننگ آفیسر کے پاس پہنچ جاتا ہے جہاں سے ہر حلقے کے پوسٹل بیلٹ پیپرز اکٹھے کر کے انتخابی امیدواروں کے الگ الگ لفافوں میں بند کر کے متعلقہ ریٹرننگ آفیسر تک پہنچا دئیے جاتے ہیں جنہیں عام ووٹوں کی گنتی کے وقت انتخابی نتائج میں شامل کر لیا جاتا ہے۔
ہمارے ہاں اکثر سرکاری ملازمین اس سہولت سے فائدہ نہیں اٹھاتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ صرف پوسٹل ووٹ کے حصول کے لیے وہ ضلعی صدر مقام کا سفر اختیار کرنا مناسب نہیں سمجھتے۔ ایک تو دور دراز کے سفر کی تکلیف اوپر سے سفر کا خرچہ بھی اپنی جیب سے ادا کرنا انہیں گھاٹے کا سودا لگتا ہے۔ اس طرح سے ملازمین کے لاکھوں ووٹ کاسٹ ہونے سے رہ جاتے ہیں جو ٹرن آئوٹ میں بھی نمایاں کمی کا باعث بنتے ہیں۔ الیکشن کمیشن کو چاہیے کہ الیکشن ڈیوٹی پر مامور سرکاری ملازمین کے لیے پوسٹل بیلٹ پیپر کا حصول آسان بنائے۔ اس کے لیے قابلِ عمل تجویز یہ ہے کہ الیکشن سے قریباً دو تین ہفتے قبل جب سرکاری ملازمین کی الیکشن کے لیے ٹریننگ کروائی جاتی ہے، اسی وقت پوسٹل بیلٹ پیپر کے حصول کے لیے متعلقہ ریٹرننگ آفیسر تمام ملازمین سے درخواست فارم پُر کروا لے اور تین چار روز کی اندر بذریعہ ڈاک انہیں پوسٹل بیلٹ پیپرز روانہ کر دئیے جائیں۔ اس طرح سے واپسی کی مقررہ تاریخ تک سرکاری ملازمین پوسٹل بیلٹ پیپرز واپس سپردِ ڈاک کر کے اس اہم قومی فریضے کو ادا کر سکیں گے۔ دوسری صورت یہ بھی ہو سکتی ہے کہ پوسٹل بیلٹ پیپرز کا پیکٹ اس ادارے کے سربراہ کو ارسال کر دیا جائے جہاں سرکاری ملازمین اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہے ہیں۔ سربراہِ ادارہ پوسٹل بیلٹ پیپرز متعلقہ افراد تک پہنچا کر رسید ریٹرننگ آفیسر آفس میں جمع کروا دے۔
طریقہ جو بھی اختیار کیا جائے لیکن الیکشن ڈیوٹی پر مامور انتخابی عملے کے ووٹ لازمی کاسٹ ہونے چاہئیں۔ اس سے ٹرن آئوٹ میں نمایاں اضافہ ہی نہیں ہو گا بلکہ سرکاری ملازمین بھی اپنے پسندیدہ امیدوار کے حق میں ووٹ کاسٹ کر کے اپنا حقِ رائے دہی استعمال کر سکیں گے۔

جواب دیں

Back to top button