Column

کشمیری یوم سیاہ

تحریر : مسعود ماجد سید
آج سے 76سال قبل 27اکتوبر 1947ء کو بھارتی حکومت نے اپنی فوجیں کشمیر کی سرزمین پر اُتاریں۔ اس دن سے لے کر آج تک ہرروز بھارت نے کشمیریوں پر ظلم و تشدد کی نئی داستانیں رقم کیں۔ ان سات دہائیوں میں کشمیریوں کو بدترین ریاستی دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا لیکن کشمیریوں نے ان کے ظلم کے آگے ہتھیار نہیں ڈالے بلکہ بھارتی افواج کے ظلم کے آگے ڈٹ کر کھڑے ہوگئے۔ تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ اگست 1947ء میں کشمیر کے مہاراجہ نے حکومتِ پاکستان کے ساتھ ایک معاہدہ کیا جس کے تحت ان انتظامات کو جو ریاست اور برطانوی حکومت کے مابین تھے ریاست اور پاکستان کے مابین برقرار رکھا گیا۔ اس معاہدے کی پیشکش بھارت کو بھی کی گئی لیکن اس نے جواب نہ دیا جبکہ پاکستان نے رضا مندی کا اظہار کیا اور اس طرح کشمیر کے دفاع، ڈاک اور کرنسی کے معاملات پاکستان کے سپرد ہوگئے۔ مہاراجہ اس وقت پہلے سے ہی ریاست کے اندر اپنے خلاف ایک تحریک کا سامنا کررہا تھا۔ جیمز ڈی ہاہولی نے اپنے ایک آرٹیکل جو ڈکسن جرنل آف انٹرنیشنل لاء میں شائع ہوا ، میں لکھا تھا کہ لارڈ مائونٹ بیٹن نے مہاراجہ کو خط میں کہا کہ کشمیر میں باغیوں کو نکالنے کے بعد جیسے ہی حالات معمول پر آجائیں تو یہاں کا مسئلہ لوگوں کی مرضی کے مطابق حل کرایا جائے۔2نومبر 1947ء میں ریڈیو پر خطاب کرتے ہوئے بھارتی وزیرِاعظم جواہر لعل نہرو نے بھی کہا تھا کہ کشمیر کا مسئلہ کشمیریوں کی مرضی کے مطابق حل کیا جائے گا۔ جیسا کہ اوپر ذکر کیا جا چکا ہے کہ27اکتوبر 1947ء میں بھارت نے غیر قانونی طور پر کشمیر پر قبضہ کرکے اپنی اجارہ داری قائم کرلی۔ بعد ازاں 5اگست2019ء میں بھارت نے مزید آگے بڑھتے ہوئے اپنے آئین میں تبدیلی کی اور اس متنازعہ علاقے کی حیثیت تبدیل کرکے یہاں مسلم آبادی کو ہندوئوں کی آباد کاری سے کم کرنے کی کوششیں تیز کر دیں۔ ڈومیسائل قانون کے تحت بھارتی حکومت نے 41.05لاکھ ڈومیسائل سرٹیفکیٹ اپنی مرضی کے لوگوں کو جاری کئے ہیں تاکہ وہ اس علاقے کی مسلم اکثریت کو ہندو اکثریت میں تبدیل کر سکے۔1991ء سے تقریباً 9لاکھ بھارتی فوجی کشمیر میں موجود ہیں۔ امریکہ کے میگزین ہارپرز کی ایک رپورٹ کے مطابق کشمیر میں ڈاکٹروں کی شرح ایک ڈاکٹر3060مریضوں کے لئے جبکہ فوجیوں کی شرح سات کشمیریوں کے لئے ایک فوجی ہے۔ حال ہی میں شائع ہونے والے ڈوزیئر کے مطابق کشمیر میں بھارتی فوج کے ہاتھوں 96000ماورائے عدالت قتل، تقریباً 162000افراد کی غیر قانونی گرفتاریاں اور ان پر تشدد،25000سے زائد افراد پیلٹ گن سے زخمی،23000عورتیں بیوہ جبکہ108000بچے یتیم ہوئے۔ بھارت کی اس ہندوتوا حکومت نے مقبوضہ کشمیر میں معلومات کے ذرائع تک بند کر رکھے ہیں۔ کشمیریوں کو سوشل میڈیا یہاں تک کہ انٹر نیٹ کی سہولت تک سے محروم رکھا گیا ہے۔ ایک اور رپورٹ کے مطابق مقبوضہ کشمیر میں2017ء سے فیس بک، ٹویٹر، انسٹا گرام اور دوسرے میڈیا پر کشمیر سے متعلق کوئی مواد شائع یا نشر نہیں ہونے دیا جاتا۔ رپورٹ میں یہ بھی بتایاگیا ہے کہ انڈیا129 ممالک میں سب سے زیادہ انٹر نیٹ بند کرنے والا ملک ہے۔ (UNOHCHR) کے تین سال کے ڈیٹا کے مطابق بھارتی فوج نے کشمیر میں کم از کم 782آپریشن کئے جن میں متعدد انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ساتھ ساتھ 802عام لوگوں کی املاک کو بھی تباہ کیا گیا۔ یہ توڑ پھوڑ کووڈ 19کے لاک ڈائون کے دوران زیادہ کی گئی۔ سری نگر سے تعلق رکھنے والی ایک تجارتی تنظیم نے بتایا ہے کہ صرف گیارہ مہینوں کے لاک ڈائون سے مقامی تاجروں کو تقریباً 70000کروڑ کا نقصان ہوا۔ ایمنسٹی انٹر نیشنل(A1)کی 2011کی ایک
رپورٹ کے مطابق سیکڑوں کشمیریوں کو بغیر کسی جرم کے جیل میں ڈالا گیا ہے۔ بہت سے لاپتہ افراد کے بارے میں یہ کہا جاتا ہے کہ انہیں مارکر دفن کر دیا گیا ہے۔ وہاں کے لوگوں پر تشدد کا ایک طریقہ ان کی عورتوں کی عصمت دری ہے جوکہ وہاں بڑے پیمانے پر روزانہ بھارتی فوج کرتی ہے۔ آل پارٹیز حریت کانفرنس کے اعداد و شمار کے مطابق جموں کشمیر میں1989ء سے لے کر اب تک 11144عورتوں کی آبروریزی کی جا چکی ہے۔ یہ اعداد و شمار دنیا کے کسی بھی متنازع علاقے میں سب سے زیادہ ہیں۔ کشمیریوں کی آواز دبانے کے لئے بھارتی فوجیوں نے تقریباً500 اہم کشمیری رہنمائوں کو قید میں رکھا ہوا ہے یا گھروں میں نظر بند کیا ہوا ہے۔ ان رہنمائوں کو کوئی بھی سہولت فراہم نہیں کی گئی۔ یہاں تک کہ ان کی بیماری کی صورت میں انہیں ڈاکٹرز تک پہنچنے نہیں دیا جاتا۔ حال ہی میں معروف کشمیری رہنما سید علی گیلانی کی وفات پر ان کے اہلِ خانہ کو ان کی وصیت کے مطابق تجہیز و تکفین کی اجازت بھی نہیں دی گئی۔ بھارت کی یہ خام خیالی ہے کہ وہ کشمیری مجاہدین کی 74سالہ آزادی کی جدوجہد کو دہشت گردی کہہ کر روک سکے گا۔ یہ جدوجہد ہر آنے والے دن میں برہان وانی اور ریاض نیکو جیسے نوجوانوں کی شہادت سے مضبوط سے مضبوط تر ہوتی جارہی ہے۔ بھارت خود ریاستی دہشت گردی کا مرتکب ہے۔ ماورائے عدالت قتل، عورتوں کی بے حرمتی، جبری گمشدگی، املاک کی تباہی رہنمائوں کی گرفتاری اور پیلٹ گنوں کا استعمال بھی کشمیریوں کی جدوجہدِ آزادی کو متزلزل نہیں کر سکتا۔ کشمیر پاکستان کی شہ رگ ہے اور جسم کا انتہائی اہم حصہ ہے جس کا کسی صورت الگ نہیں کیا جا سکتا ہے۔ پاکستان نے دنیا کے ہر فورم پر یہ بات واضح کردی ہے کہ کشمیر ہمارا حصہ ہے اور پاکستان کشمیریوں کی سفارتی، اخلاقی، حمایت جاری رکھے گا اور کشمیریوں کی مکمل آزادی تک اپنا یہ کردار ادا کرتا رہے گا ۔

جواب دیں

Back to top button