
اسلام آباد ہائی کورٹ نے سائفر کیس کی جیل میں سماعت کے خلاف چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست نمٹا دی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے درخواست نمٹانے کا فیصلہ سنایا۔
چیئرمین پی ٹی آئی کی درخواست کس بنیاد پر نمٹائی گئی، تحریری فیصلے میں وجوہات سامنے آئیں گی۔
درخواست نمٹانے کا تحریری فیصلہ کچھ دیر میں جاری کیا جائے گا۔
واضح رہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے سائفر کیس کے جیل ٹرائل کے خلاف درخواست دائر کی تھی۔
علاوہ ازیں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق سماعت کر رہے ہیں۔
سماعت کے آغاز میں ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر نے سماعت کل تک ملتوی کرنے کی استدعا کر دی۔
چیئرمین پی ٹی آئی وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ میں دلائل کے لیے تیار ہوں، سماعت ملتوی کرنی ہے تو ٹرائل پر حکمِ امتناع جاری کریں۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق نے کہا کہ آج کھوسہ صاحب اپنے دلائل دیں۔
عدالت نے ایف آئی اے کے پراسیکیوٹر سے کہا کہ آپ کو بھی جو تحریری دلائل دینے ہیں دے دیں۔
عدالت نے سوال کیا کہ کھوسہ صاحب یہ بتائیں پاکستان میں امریکا کی طرح دستاویزات ڈی کلاسیفائی کرنے کا قانون ہے؟
وکیل لطیف کھوسہ نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ سابق وزیرِ اعظم اُس وقت ملک کے چیف ایگزیکٹیو تھے، اس سائفر کو تو وفاقی کابینہ نے ڈی کلاسیفائی کر دیا تھا، اس ملک میں لیاقت علی خان کا قتل ہوا، ذوالفقار علی بھٹو اور بینظیر بھٹو کے ساتھ بھی جو ہوا وہ آپ کے سامنے ہے، یہ سائفر امریکا میں سفیر اسد مجید نے دفترِ خارجہ کو بھجوایا تھا۔
انہوں نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی کو 5 اگست کو توشہ خانہ کیس میں 3 سال قید کی سزا ہوئی، 28 اگست کو سزا معطل ہوئی تو پتہ چلتا ہے کہ 16 اگست کو ہی گرفتاری ڈال چکے ہیں، پتہ چلتا ہے آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی عدالت 16 اگست کو فزیکل ریمانڈ مسترد کرتی ہے، آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی عدالت نے میری غیرموجودگی میں یہ سب کیا، 30 اگست کو جیل ٹرائل ہوا، جوڈیشل ریمانڈ کے بعد سماعت ہوتی ہے۔
وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ بھٹو صاحب کو بھی مولوی مشتاق کی کورٹ میں جنگلے میں لاکر کھڑا کیا گیا تھا، یہاں چیئرمین پی ٹی آئی کو بھی جنگلے میں لے کر آئے، ان کو ڈر کس چیز کا ہے؟ کیا خوف ہے؟ وہ سابق وزیرِ اعظم ہیں، سابق وزیرِ اعظم کے حقوق ہیں، یہ اعظم خان کا بیان لے کر آگئے ہیں جو 3 ہفتے لاپتہ رہا، یہ کہنا کہ چیئرمین پی ٹی آئی سائفر لے گیا مضحکہ خیز ہے، انہوں نے ہمیں کچھ نہیں دیا اب کہہ رہے ہیں کل چارج فریم کرنے ہیں، آپ کو دیکھنا ہے پہلے بھی ہمارے ساتھ ہمایوں دلاور نے کیا، کیا، ہم یہ کہتے ہیں کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں، ریاست کا مطلب پارلیمنٹ، صوبائی اسمبلیاں اور لوکل گورنمنٹس ہیں، ہم نے حکومت کو ریاست بنا دیا ہے۔
چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامرفاروق نے کہا کہ حکومت اور ریاست کو ہم نے گڈمڈ کر دیا ہے۔
وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ کچھ اختیار مقتدر حلقوں نے لے لیا ہے، اعلیٰ عدلیہ سے قوم توقعات رکھتی ہے، مجھے اُمید ہے آپ شہریوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے کھڑے ہوں گے، سائفر کیس میں سیکشن 5 کا اطلاق نہیں ہوتا، میں نے کہا سازش سے نکالا، پی ڈی ایم کا مؤقف تھا عدم اعتماد کر کے نکالا، سائفر چیئرمین پی ٹی آئی کے پاس نہیں، وزارت خارجہ میں موجود ہے، سائفر کا کوڈ ملزم نے نہیں بلکہ خود استغاثہ نے ایف آئی آر میں ظاہر کیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کے دلائل کا خلاصہ یہ ہے ناں کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کا اطلاق ہوتا ہے نہ سیکشن 5 کا۔
وکیل لطیف کھوسہ نے کہا کہ جی بالکل، آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور اس کی سیکشن 5 کا اطلاق نہیں ہوتا، اگر ملک کے خلاف کوئی سازش ہو تو عوام کو بتانا وزیرِ اعظم کا کام ہے، یہاں انہوں نے بڑی آسانی سے اعلان کر دیا کہ اس کیس میں سزائے موت بھی ہوسکتی ہے، سائفر کیس بدنیتی کی بنیاد پر بنایا گیا، پی ٹی آئی کے 10 ہزار لوگ گرفتار کیے گئے، چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف مقدمے بنانے کی سنچری مکمل کی گئی، اب بھی ورلڈکپ ہو رہا ہے، آج بھی یاد آتا ہے کیسے ورلڈ کپ جیتا گیا تھا، اگر آئندہ سماعت کے لیے جانا ہے تو عدالت کارروائی اسٹے کر دیں، پہلے بھی ہمارے لیے دوسرے کیس میں ٹھیک نہیں ہوا۔
عدالت نے وکیل لطیف کھوسہ کے دلائل مکمل ہونے کے بعد ایف آئی اے کو ڈویژن بینچ کے بعد دلائل دینے کی ہدایت کر دی۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ آپ ڈی بی کے بعد آ جائیں ساڑھے 11 بج گئے ہیں۔